کیا سنبھل کے واقعے سے ملت سنبھلے گی ؟
کیا سنبھل کے واقعے سے ملت سنبھلے گی ؟
از: محمد علم اللہ، سوانسی، برطانیہ
_________________
جب بھی قوم مصیبت میں ہو، اس کے رہنماؤں اور بزرگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ موقع پر پہنچیں، ان کی حمایت کریں اور ان کے حوصلے کو بلند کریں، تاکہ قوم کا اعتماد قائم رہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ یوگی کی پولس نے دو مسلم نوعمر لڑکوں کو گولی مار دی اور وہ شہید ہو گئے۔ ابھی تک ملی قائدین کی جانب سے کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا اور نہ ہی ابھی تک کوئی پرسان دینے پہنچا ہے۔
ایک حادثہ سے ایک واقعہ یاد آتا ہے، خدا جانے کہاں پڑھا تھا یاد نہیں آرہا، غالبا مشاورت کے پرانے دستاویزات میں۔ یہ واقعہ ایک چھوٹے سے قصے کی طرح لگتا ہے، مگر اس میں ایک گہری حقیقت چھپی ہوئی ہے جو دل کو چھو لیتی ہے۔ مرادآباد کے فسادات کے دوران جب پورا شہر خون و غم میں ڈوبا ہوا تھا، مسلم مجلس مشاورت کی قیادت ملی رہنماؤں کا ایک وفد وہاں پہنچا۔ ان میں مولانا ابوالیث اصلاحی، مولانا ابو الحسن علی ندوی، مولانا منظور نعمانی جیسے جلیل القدر بزرگ شامل تھے۔ ان کا مقصد وہاں کے نوجوانوں کی خبر گیری کرنا اور انہیں حوصلہ دینا تھا، تاکہ وہ اپنے دکھوں کو کم کر سکیں اور ان کے درمیان امید کی روشنی جاگ سکے۔
لیکن جب وہ وہاں پہنچے تو صورت حال مختلف تھی۔ وہاں کے نوجوانوں نے ان بزرگوں کا خیرمقدم کرنے کے بجائے انہیں انھیں سخت سست کہا اور ان کے خلاف سخت بدتمیزی کی۔ کچھ نوجوانوں نے تو گالم گلوچ بھی کی۔ یہ منظر دیکھ کر بزرگوں کے دل میں ایک کرب سا اُٹھا، اور وہ خاموشی سے واپس لوٹ آئے۔ ان میں سے ایک بزرگ غالبا مولانا منظور نعمانی نے فرمایا، "آج تو یہ لوگ سب و شتم تک پہنچ گئے ہیں، کل یہی لوگ ہماری گردنوں تک پہنچیں گے، اور پھر ہمیں گردن زدنی کر دیں گے۔” یہ ایک تلخ حقیقت کی گواہی تھی۔
اس واقعے کے بعد مولانا نے اپنی جماعت کے ساتھیوں کو سمجھایا کہ "ہمیں اپنے لوگوں کے درمیان جلد پہنچنا چاہیے تھا، ان کے غم میں شریک ہونا چاہیے تھا، ان کو حوصلہ دینا چاہیے تھا۔ ہم دیر سے پہنچے، اور اس کا نقصان ہمیں اٹھانا پڑا۔” اس بات میں ایک بڑا سبق چھپا ہوا تھا کہ جب کسی پر آزمائش آتی ہے، تو اس کے درمیان کے رہنما، عالم، اور بزرگ اپنا کردار ادا کرنے میں سست نہ ہوں۔ قوم کی حالت اس وقت خراب ہو جاتی ہے جب اس کے قائدین اور رہنماؤں کی موجودگی دیر سے ہوتی ہے، اور ان کا قدم اس وقت پڑتا ہے جب حالات بگڑ چکے ہوتے ہیں۔
بظاہر دیکھا جائے تو اس کو چند سر پھر نوجوانوں نے غصے کا ابال کہہ کے ختم کر سکتے ہیں، لیکن غور کریں تو بڑی گہرائی ہے۔ ہمیں سکھایا تو جاتا ہے کہ انسانیت کی خدمت کا وقت تب ہوتا ہے جب ضرورت ہو، لیکن جب جنگ کا وقت آتا ہے تو قائد ہی بھگوڑا بن جاتا ہے۔ حالانکہ اس وقت جب سب کچھ ختم ہو چکا ہو۔ اس میں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ اگر ہم اپنے لوگوں کے دکھوں میں شریک ہوں اور فورا شریک ہوں مگر ہائے افسوس۔
وائے ناکامی! متاعِ کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا