اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل
اب کہاں ڈھونڈھنے جاؤ گے ہمارے قاتل

بھارت کے اس تکثیری سماج کو کبھی دنیا کے لیئے ایک نمونے کے طور پر پیش کیا جاتا تھا یہاں کی جمہوریت قانون اور دستور کی دنیا مثالیں پیش کرتی تھی لیکن اب وہ ملک کے کسی بھی حصہ میں نظر نہیں آرہی ہے اگر کسی کو نظر آبھی رہی ہے تو صرف اوراق کے دامن پر جو قوانین جو باتیں پڑھنے لکھنے تک اچھی لگتی ہیں اتنی ہی خوب صورت عملی میدان میں بھی نظر آنی چاہیئے ورنہ خواب تو سجانے سے دور ہوجائیں گے بلکہ جو پایا وہ بھی کھوتے رہیں گے اس وطن عزیز کو ہمارے آبا و اجداد نے جس خون جگر سے سینچا ہے وہ کوئی معمولی قربانیاں نہیں تھی لیکن آج کے اس نئے بھارت میں ان قربانیوں کا صلہ ظلم، عدم رواداری،مذہبی تفریق کی شکل میں ملک کے گوشے گوشے میں دستیاب ہے

شکر گزاری کا فلسفہ
شکر گزاری کا فلسفہ

آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ معمولی پریشانیوں یا مسائل پر فوراً ناشکری کرنے لگتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ بڑی نعمتوں کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ مثلاً کسی کو ذرا سا مالی نقصان ہو جائے تو وہ اللہ کے رزق کو بھول کر شکایت کرنے لگتا ہے، حالانکہ اس کے پاس صحت، گھر اور خاندان جیسی بےشمار نعمتیں موجود ہیں۔ اسی طرح، اگر موسم کسی کے حق میں نہ ہو، جیسے گرمی یا سردی کی شدت، تو لوگ فوراً شکایت کرنے لگتے ہیں، یہ بھول کر کہ اللہ نے ہمیں لباس، رہائش، اور زندگی کی دیگر سہولتوں سے نوازا ہے۔

تنہا سفر کی ممانعت
تنہا سفر کی ممانعت

حالات بدل چکے ہیں، نقل و حمل کے ذرائع ترقی پذیر بلکہ ترقی یافتہ ہو چکے ہیں، انسان کئی کئی دنوں کا سفر اب گھنٹوں میں کر لیتا ہے اور گھنٹوں کا سفر منٹوں میں کر رہا ہے ، سہولتوں کی فراوانی چاروں طرف نظر اتی ہے لیکن اس کے باوجود قول نبی برحق ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد بجا ہے اپ کی دوراندیشانہ گفتگو اور اپ کی زبان فیض ترجمان سے نکلے ہوئے الفاظ و کلمات خدائے رحمان و رحیم کی منشا و مراد کے مطابق ہوتے ہیں چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

"خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر” :تعارف و تأثر

زیر نظر کتاب " خانوادۂ ہدیٰ کے لعل و گہر" مولانا مظاہر حسین عماد عاقب قاسمی استاد جامعہ اسلامیہ شانتا...
Read More
شخصیات

جامعہ اشرفیہ مبارک پور کی بنیاد میں اعلی حضرت اشرفی میاں کا حصہ

یہ ادارہ ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کے مشہور ضلع اعظم گڑھ کے اندر قصبہ مبارک پور میں واقع ہے۔...
Read More
تاریخ و سیر

شاہی جامع مسجد سنبھل: ایک تاریخی جائزہ

تاریخ ماضی کے واقعات کا آئینہ ہوتی ہے ، ہندوستان میں مختلف مذاہب اور ثقافتوں کے مابین باہمی رواداری اور...
Read More
تجزیہ و تنقید

گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل

جامع مسجد سنبھل تنازع گودی میڈیا کا مکروہ چہرہ اور سپریم کورٹ کا ردعمل ✍ سید سرفراز احمد ________________ اصل...
Read More
تجزیہ و تنقید

احسان فراموشی نہ کریں: بیرسٹر اسد الدین اویسی کی خدمات کا اعتراف ضروری ہے

حال ہی میں بیرسٹر اسد الدین اویسی صاحب کی مالیگاؤں میں کی گئی تقریر کے بعد کچھ حلقوں میں ایک...
Read More

مدراس کے طلبا فراغت کے بعد کیا کریں؟

مدارس کے طلباء فراغت کے بعد کیا کریں؟

از: ڈاکٹر سلیم انصاری

جھاپا، نیپال

_________________

مدارس کے طلباء اپنی دینی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک نازک مرحلے میں داخل ہوتے ہیں، جہاں انہیں زندگی کے دو اہم پہلوؤں—دین اور دنیا—کے درمیان توازن پیدا کرنا ہوتا ہے۔ یہ دور طلباء کے لیے نہ صرف ان کے مالی مستقبل بلکہ ان کی دینی خدمات کے لیے بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ آج کے دور میں، جہاں مہنگائی، بے روزگاری اور محدود مواقع کا سامنا ہے، طلباء کو دانشمندی اور بصیرت کے ساتھ اپنے مستقبل کے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ دینی تعلیم کا اصل مقصد آخرت کی کامیابی ہے، لیکن دنیاوی ضروریات کو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کو صرف مدرسہ یا مسجد میں خدمات انجام دینے تک محدود کر دیا جاتا ہے یا وہ خود اپنے آپ کو محدود کر لیتے ہیں، حالانکہ ان کی صلاحیتیں اور ان کے کردار کہیں زیادہ وسیع ہو سکتے ہیں۔ اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ دنیاوی زندگی کو بہتر انداز میں گزارنا بھی دین کا حصہ ہے۔

اس مضمون میں ہم ان مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے جنہیں مدارس کے طلباء فراغت کے بعد اختیار کر سکتے ہیں تاکہ اپنی دنیاوی اور اخروی زندگی کو کامیابی سے ہمکنار کر سکیں۔ اس مضمون میں امکانات کی وسعت، دین کی خدمت اور رزق کے ذرائع، رزق کے ذرائع کی کمی کے باعث پیدا ہونے والے مسائل، فراغت کے بعد درپیش چیلنجز، اور عملی اقدامات شامل ہیں جو طلباء کو بہتر مستقبل کی راہ دکھا سکتے ہیں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں:

یہ بات ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ زندگی کے امکانات لامحدود ہیں، اور دنیا کا دائرہ وسیع ہے۔ مدارس کے طلباء جب اپنی دینی تعلیم مکمل کر لیتے ہیں تو ان پر یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ صرف مدرسہ یا مسجد کے لیے مخصوص ہو جائیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا وسیع ہے، مواقع بے شمار ہیں، اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے کر نہ صرف اپنی دنیاوی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے بلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔

زیادہ تر دینی ادارے زکوٰۃ اور صدقات کے ذریعے چلتے ہیں، جس کے باعث ان کے پاس اپنے اساتذہ اور عملے کو مناسب تنخواہیں دینے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ایسے میں طلباء کو یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے لیے متبادل ذرائع معاش تلاش کریں، تاکہ وہ مالی طور پر مستحکم ہوں اور دینی خدمات کو اخلاص کے ساتھ انجام دے سکیں۔ اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ دنیاوی زندگی کو بہتر انداز میں گزارنا بھی دین کا حصہ ہے۔ اگر ہم اپنی صلاحیتوں کو پہچانیں اور انہیں زندگی کے مختلف شعبوں میں بروئے کار لائیں تو ہم نہ صرف مالی استحکام حاصل کر سکتے ہیں بلکہ دینی خدمات بھی زیادہ موثر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔

دین کی خدمت اور رزق کے ذرائع

اسلام ہمیں سکھاتا ہے کہ محنت اور اپنے ہاتھوں کی کمائی نہ صرف جائز بلکہ باعثِ برکت عمل ہے۔ نبی کریم ﷺ اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اپنے ہاتھوں کی کمائی کو افضل اور بہتر قرار دیا۔ حضرت داؤد علیہ السلام، جو نبی ہونے کے ساتھ بادشاہ بھی تھے، اپنے روزگار کے لیے لوہے کے کام کرتے تھے۔ صحابہ کرام بھی دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ مختلف پیشے اپناتے تھے، جیسے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تجارت کرتے تھے اور حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کپڑے کا کاروبار کرتے تھے۔ علماءِ سلف نے بھی اس سنت کو اپنایا اور دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے رزق کے ذرائع قائم رکھے۔ ان کے لیے یہ بات باعث فخر تھی کہ وہ دین کی خدمت اخلاص کے ساتھ کریں اور اپنی دنیاوی ضروریات کسی اور پر منحصر نہ رکھیں۔

مسجد یا مدرسے میں تعلیم دینا یقیناً ایک عظیم اور مستحسن عمل ہے، اور اس خدمت کے بدلے تنخواہ لینا بھی شرعاً جائز ہے۔ تاہم، بہتر یہی ہے کہ ایک شخص اپنے رزق کو دین اور مسجد سے نہ جوڑے، جیسا کہ صحابہ کرام اور علماءِ سلف کیا کرتے تھے۔ وہ دین کی خدمت پوری ذمہ داری اور اخلاص کے ساتھ انجام دیتے، لیکن ان کے ذاتی رزق کے ذرائع ہوتے تھے، جو انہیں مالی آزادی دیتے تھے۔ آج کے دور میں اس سنت کا فقدان ہے، اور بہت سے افراد صرف دینی اداروں پر انحصار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اگر فارغین مدارس دین کی خدمت کے ساتھ ساتھ اپنے ذاتی معاشی ذرائع بھی قائم کریں تو وہ زیادہ خوشحال اور خود مختار زندگی گزار سکتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف ان کے لیے بلکہ ان کے معاشرے کے لیے بھی فائدہ مند ہوگا۔

رزق کے ذرائع کا فقدان اور مسائل

علماء کے رزق کے ذرائع کا فقدان ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے، جو کئی قسم کی پریشانیوں کو جنم دیتا ہے۔ مدارس، اداروں، اور مساجد سے حاصل ہونے والی محدود آمدنی اکثر علماء کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہے۔ نتیجتاً، بعض علماء مجبوراً زکوٰۃ کے مال کو اپنی ذاتی ضروریات کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں، حالانکہ یہ عمل شریعت کی روح کے خلاف ہے۔ مدارس کے منتظمین، اداروں کے ذمہ داران، اور دیگر تنظیموں کے افراد بعض اوقات شرعی اصولوں سے ہٹ کر مالی امور میں ایسی غلطیاں کر بیٹھتے ہیں، جن سے دین کی ساکھ متاثر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی کچھ معاملات میں مختلف منصوبوں کے نام پر مالیاتی وسائل کا غیر قانونی یا غیر اخلاقی استعمال بھی دیکھنے میں آتا ہے، جو کسی بھی طرح اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

ان مسائل سے بچنے کا واحد حل یہ ہے کہ علماء اپنے رزق کے ذرائع خود قائم کریں اور کسی پر انحصار نہ کریں۔ جب علماء اپنے معاشی معاملات میں خود مختار ہوں گے، تو وہ زکوٰۃ اور دیگر شرعی اموال کے بارے میں زیادہ محتاط رہیں گے، اور ان کا استعمال صرف مستحق افراد کے لیے ہوگا۔ اس کے علاوہ، مالی آزادی علماء کو دینی خدمات کے ساتھ ساتھ اپنی زندگی کے دیگر پہلوؤں کو بھی بہتر انداز میں سنبھالنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ خود کفالت کا یہ طرزِ عمل نہ صرف علماء کے لیے باعثِ برکت ہوگا بلکہ مدارس اور دینی اداروں کی شفافیت اور ساکھ کو بھی مضبوط کرے گا، اور دین کی خدمت میں اخلاص کا پہلو مزید نمایاں ہوگا۔

فراغت کے بعد کے چیلنجز

مدارس کے طلباء اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد عملی زندگی میں مختلف چیلنجز کا سامنا کرتے ہیں۔ ان چیلنجز میں مالی مسائل، جدید علوم کی کمی، اور روزگار کے محدود مواقع نمایاں ہیں۔

مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کو عام طور پر مساجد، مدارس، یا دینی اداروں میں ملازمت کے محدود مواقع ملتے ہیں۔ ان اداروں کی تنخواہیں اکثر زکوٰۃ اور صدقات پر منحصر ہوتی ہیں، جو طلباء کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہوتی ہیں۔ یہ مالی مشکلات وقت کے ساتھ مزید بڑھ جاتی ہیں، خاص طور پر اس وقت جب طلباء اپنی ذمہ داریوں میں اضافے جیسے شادی، بچوں کی تعلیم، اور خاندان کی کفالت کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ نتیجتاً، ان کی زندگی معاشی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہے، جو ان کی دینی خدمات میں اخلاص کو متاثر کرتی ہے۔

مدارس کے نصاب میں عام طور پر جدید دنیاوی تعلیم جیسے سائنس، ٹیکنالوجی، اور کاروبار کے موضوعات شامل نہیں ہوتے۔ اس کمی کی وجہ سے فارغ التحصیل طلباء جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں دشواری محسوس کرتے ہیں۔ آج کے دور میں، جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور جدید مہارتوں کا حصول کامیاب زندگی کے لیے ضروری ہے، مدارس کے طلباء کی یہ کمی انہیں روزگار کے مواقع سے محروم کر سکتی ہے۔ انہیں بعض اوقات سماجی سطح پر بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ صرف محدود شعبوں میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

صرف دینی تعلیم کی بنیاد پر کام کے مواقع محدود ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں کئی طلباء مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ زیادہ تر فارغ التحصیل طلباء مساجد یا مدارس میں تدریس کے فرائض انجام دیتے ہیں، لیکن ان شعبوں میں زیادہ طلبا کو جگہ دینے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس محدودیت کی وجہ سے اکثر طلباء یا تو غیر مطمئن زندگی گزارتے ہیں یا ایسے کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ان کی صلاحیتوں یا تعلیم سے مطابقت نہیں رکھتے۔ نتیجتاً، ان کے اندر ناکامی کا احساس اور معاشرے کے لیے بامقصد کردار ادا نہ کرنے کا افسوس پیدا ہوتا ہے۔

فراغت کے بعد کیا کرنا چاہیے؟

مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سوچا سمجھا لائحہ عمل اپنانا چاہیے تاکہ وہ دین اور دنیا دونوں میں کامیاب زندگی گزار سکیں۔ ذیل میں مختلف شعبوں میں قدم رکھنے کے لیے عملی تجاویز پیش کی گئی ہیں:

جدید علوم کا حصول: مدارس کے طلباء کے لیے ضروری ہے کہ وہ جدید علوم اور مہارتیں حاصل کریں تاکہ دنیاوی ضروریات کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔ جدید تعلیم ان کی شخصیت کو نکھارنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے بہتر مواقع فراہم کرتی ہے۔ کمپیوٹر سائنس، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، اور آئی ٹی میں کورسز کریں تاکہ آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے روزگار حاصل کر سکیں۔ آج کے دور میں فری لانسنگ، ویب ڈیزائننگ، اور ڈیجیٹل کانٹینٹ کی مانگ بہت زیادہ ہے۔ انگریزی اور دیگر عالمی زبانوں پر عبور حاصل کریں۔ اس سے نہ صرف ان کا دائرہ کار وسیع ہوگا بلکہ وہ مختلف معاشروں کے ساتھ مؤثر رابطہ بھی قائم کر سکیں گے۔ مثال کے طور پر، انگریزی زبان میں مہارت انہیں بین الاقوامی سطح پر دینی خدمات کے لیے بھی قابل بنائے گی۔

عملی اقدامات کے طور پر مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کو خود تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ دینی چاہیے، جہاں جدید علوم اور دینی تعلیم کا امتزاج ہو۔ سوشل میڈیا ایک مؤثر ذریعہ ہے، جس کے ذریعے طلباء اپنی علمی و فکری صلاحیتوں کو عام کر سکتے ہیں اور دینی پیغام کو دور دراز تک پہنچا سکتے ہیں۔ فارغ التحصیل طلباء کو ایسی تنظیمیں بنانی چاہیے جو نہ صرف دینی خدمات انجام دیں بلکہ سماجی مسائل کا بھی حل پیش کریں۔

فنی تعلیم اور ہنر سیکھیں: فنی تعلیم اور ہنر سیکھنے سے طلباء نہ صرف خود کفیل بن سکتے ہیں بلکہ وہ معاشرے میں ایک کارآمد شہری کا کردار بھی ادا کر سکتے ہیں۔ ٹیکنیکل کورسز جیسے الیکٹریکل ورک، کارپینٹری، یا موٹر مکینک سیکھ کر خود روزگاری حاصل کریں۔ یہ ہنر ان طلباء کے لیے نہایت مفید ہیں جو وسائل کی کمی کے باعث مزید تعلیم حاصل نہیں کر سکتے۔ کاروبار کی تربیت حاصل کریں اور تجارت کے شعبے میں قدم رکھیں۔ اسلامی اصولوں کے تحت کاروبار کرنا نہ صرف ان کے لیے جائز ہوگا بلکہ برکت کا ذریعہ بھی بنے گا۔ مثال کے طور پر، ہینڈ میڈ اشیاء یا اسلامی مصنوعات کی آن لائن فروخت ایک کامیاب کاروباری ماڈل بن سکتا ہے۔

دینی خدمات اور دنیاوی کام کا امتزاج: دین کی خدمت ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے، لیکن اس کے لیے ضروری نہیں کہ صرف مسجد یا مدرسے سے منسلک رہا جائے۔ دنیاوی شعبوں میں کام کرتے ہوئے بھی دین کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ جدید اداروں میں اسلامی اخلاقیات کی ترویج کریں۔ کسی اسکول یا کمپنی میں ملازمت کرتے ہوئے اخلاقی قدریں اور اسلامی تعلیمات دوسروں تک پہنچائی جا سکتی ہیں۔ آن لائن پلیٹ فارمز پر دین کی تعلیمات عام کریں۔ یوٹیوب چینلز، بلاگز، یا سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو اسلام کے بنیادی اصولوں سے آگاہ کریں۔ تحریری اور تقریری خدمات انجام دیں۔ اسلامی موضوعات پر کتابیں لکھیں یا عوامی اجتماعات میں تقاریر کریں تاکہ دین کی بات زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچ سکے۔

تجارت اور خود روزگاری: تجارت اسلام میں سب سے افضل پیشہ ہے اور یہ مدارس کے طلباء کے لیے مالی آزادی حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہو سکتی ہے۔ تجارت کے ذریعے وہ نہ صرف اپنے لیے روزگار پیدا کر سکتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی روزگار فراہم کر سکتے ہیں۔ اسلامی بینکنگ اور مالیاتی شعبے میں کام کریں۔ یہ شعبہ ان طلباء کے لیے خاص طور پر مناسب ہے جو اسلامی معاشیات کا علم رکھتے ہیں۔ چھوٹے کاروبار شروع کریں اور انہیں وسعت دیں۔ مثال کے طور پر، حلال فوڈز، اسلامی لباس، یا دینی کتابوں کا کاروبار نہایت منافع بخش ہو سکتا ہے۔

نتیجے کے طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مدارس کے طلباء کے لیے فراغت کے بعد زندگی کے نئے راستے تلاش کرنا ایک اہم اور بنیادی ضرورت ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب معاشی حالات روز بروز مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ صرف مسجد یا مدرسے کی ملازمت پر انحصار کرنے سے مالی مسائل کے حل کے امکانات محدود ہو جاتے ہیں، اور طلباء میں مایوسی پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لیے وسیع تر امکانات کا جائزہ لیں اور ان مواقع کو اپنائیں جو ان کی زندگی کو بہتر اور باوقار بنا سکیں۔ جدید علوم حاصل کرنے سے نہ صرف ان کی شخصیت میں وسعت آئے گی بلکہ وہ بدلتے ہوئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو سکیں گے۔ اسی طرح فنی مہارتیں سیکھنا اور پیشہ ورانہ ہنر اپنانا ان کے لیے خود کفالت کا ذریعہ بنے گا۔ تجارت کو اپنانا ایک اور بہترین راستہ ہے، جس سے وہ اسلام کے اصولوں کے مطابق مالی آزادی حاصل کر سکتے ہیں اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔

سب سے بڑھ کر یہ کہ مدارس کے فارغ التحصیل طلباء کو دین اور دنیا کے درمیان ایک خوبصورت امتزاج پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں دینی خدمات کے لیے خود کو محدود نہ کرتے ہوئے دوسرے شعبوں میں بھی دین کی خدمت کا ذریعہ بننا چاہیے۔ اس طرح وہ نہ صرف اپنی زندگی کو کامیاب بنا سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے ایک مثالی نمونہ بھی بن سکتے ہیں۔ یہ امتزاج نہ صرف ان کے مالی مسائل کو حل کرے گا بلکہ انہیں دین کی خدمت کے لیے زیادہ مواقع فراہم کرے گا۔ اس طرح وہ ایک ایسی زندگی گزار سکیں گے جو دین و دنیا دونوں کے تقاضوں کو پورا کرتی ہو اور آخرت میں کامیابی کا ذریعہ بھی بنے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: