اس حال میں ہم دیوانوں سے تم کہتے ہو خاموش رہو!
سرفرازاحمد قاسمی حیدرآباد
گذشتہ کچھ برسوں سے تسلسل کے ساتھ، اخبارات، الیکٹرانک میڈیا اورسوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر مسلمانوں کے تعلق سے نئی نئی خبریں،سرخیوں میں آتی رہتی ہیں،ہر روز ملک کی کسی نہ کسی ریاست اور شہروں سے یہ خبر ضرور آجاتی ہے کہ مسلمانوں کو ہجومی تشدد نے نشانہ بنایا اور انھیں بے دردی سے شہیدکردیا، انکے گھروں کو انتظامیہ نے بلڈوز کرا دیا،حکومت،پولیس اور انتظامیہ مسلمانوں کے ساتھ ظلم و بربریت کا معاملہ کر رہی ہے،اسطرح کی بے شمار خبریں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں،ابھی کل ہی ایک تازہ خبر نظرنوازہوئی کہ گجرات میں مسلمانوں کی سینکڑوں عمارتیں منہدم کر دی گئی،جس میں مذہبی مقامات اور رہائشی مکانات بھی شامل ہیں، گجرات کے بیڈ دیوارکہ میں منہدم کی جانے والی 525 جائیدادوں میں سے بیشتر مسلمانوں کی ماہی گیر برادری کے ارکان کی ملکیت ہیں،ان میں مذہبی مقامات اور رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں،ایک تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے،ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس (اے پی سی آر) کی رپورٹ پیر کے روز احمدآباد میں جاری کی گئی،اس رپورٹ میں کہا گیا کہ بیشتر منہدم کئے جانے والے مکانات مسلمانوں کے ماہی گیر برادری کی ہیں،جبکہ 17 مکانات واگر برادری (ہندو اوبی سی) کی ملکیت ہے، بعض مقامی افراد نے بتایا کہ جب درگاہوں کو منہدم کیا جا رہا تھا تو وہاں موجود افراد نے خوشی سے تالیاں بجائی اور جشن کے نعرے لگائے، رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ حکام نے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران انہدامی کاروائی کرتے ہوئے 52 مقامات کو مسمار کر دیا، جو ایک سرکاری اسکیم پردھان منتری گرامین آواس یوجنا کے تحت تعمیر کئے گئے تھے،جب عہدے داروں کو سرکاری اسکیم کے بارے میں بتایا گیا اور دستاویزات دکھائے گئے تو انہوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی اور دستاویزات کو پھاڑ کر پھینک دیا،رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی کہ گذشتہ 18 جنوری کو اے پی سی آر کے شمشاد پٹھان اور اکرام مرزا پیپلز یونین فار سیول لیبرٹیز (پی یو سی ایل) کے حذیفہ اجینی اور سماجی کارکن الطاف شیخ نے متاثرہ عوام سے ملاقات کی مقامی عوام نے اس ٹیم کو بتایا کہ انہیں نوٹس دئے جانے کے دو دن کے اندر ان کے مکانات منہدم کر دیے گئے، کئی لوگ اپنا ضروری سامان بھی نہیں نکال سکے، بعض کیسس میں نوٹس دینے کے ایک دن بعد ہی مکان منہدم کردیا گیا،ایک متاثرہ خاتون نے بتایا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ حکومت نے ہمارا مکان کیوں منہدم کیا ہے عہدے داروں نے بتایا کہ یہ مکان سرکاری زمین پر تعمیر کیا گیا تھا لیکن ہم یہاں گزشتہ زائد 30 سال سے رہ رہے تھے، اگر ہم سرکاری زمین پر رہ رہے تھے تو حکومت کو ہمارے لیے متبادل مقام کا انتظام کرنا چاہیے تھا، اب ہمارے پاس کوئی گھر نہیں ہے اور نہ کسی کی مدد حاصل ہے میں خیمہ لگا کر کھلے میں رہنے پر مجبور ہوں مقامی عوام غذا حاصل کرنے میں ہماری مدد کر رہے ہیں، ایک بزرگ شخص نے بتایا کہ وہ لوگ ٹیکس اور برقی بل جمع کرایا کرتے تھے کیونکہ وہ گزشتہ 50 سال سے زمین پر رہ رہے تھے،انہوں نے کہا کہ میں اس وقت سے یہاں ہوں جب یہ مقام ناقابل رہائش تھا،حکومت نے اچانک ہمارے آشیانے کو تباہ کر دیا اور ہم سے کہا گیا کہ ہم سرکاری زمین پر رہ رہے ہیں،اگر حکومت اپنی زمین واپس لینا چاہتی تھی تو اسے ہماری باز آباد کاری اور مدد کرنا چاہیے تھا،حکومت نے ہمیں بے سہارا کر دیا ہے ہم ٹیکس اور برقی بل ادا کرتے تھے اب ہمارے پاس کچھ نہیں رہا ہمارے بچے بھی بے گھر ہو گئے ہیں”کہیں سے خبرآتی ہے کہ مساجد شہید کردی گئی،مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی وجہ سے گرفتار کرلیاگیا،ہزاروں مسلم نوجوان بغیر کسی جرم کے برسوں سے جیلوں میں قید ہیں،انکی زندگیاں تباہ کی جارہی ہیں،لیکن اب اسطرح کی خبروں کا کوئی اثر نہیں ہوتا اور نہ متاثرین کو انصاف مل رہاہے،حکومت تو مسلم مخالف ہے ہی،ملک کے دوسرے ادارے بھی اب مسلمانوں کو انصاف دلانے میں یکسر ناکام ہیں،بابری مسجد پر عدالت عظمی کے فیصلے نے اپنا بھرم اور اپنی حقیقت کا اظہار کرہی دیاہے۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ نے درست فرمایا تھا کہ میدان جنگ کے بعد سب سے زیادہ ظلم اور ناانصافیاں عدالتوں میں ہوئی ہیں اور بابری مسجد مقدمہ کا فیصلہ تو ملک میں عدالتی بے انصافی اور ظلم کا شاہکار ہے۔موجودہ دنیا کی تاریخ میں عدالتی ظلم اور بے انصافی کی اس سے بری کوئی مثال نہیں ملتی،اس فیصلے کے آنے سے پہلے مسلم تنظیموں اور انکے قائدین نے اعلان کیاتھا کہ ہم ہرحال میں عدالت عظمی کے فیصلے کو تسلیم کریں گے اور ملک میں امن وامان برقرار رکھیں گے،یہی ہوا عدالت نے جو فیصلہ سنایا وہ حیرت انگیز نہیں تھا،عدالت کو جو فیصلہ سنانا تھا اس نے سنادیا اور مسلمانوں نے اسے تسلیم کرلیا،طلاق ثلاثہ کا معاملہ آیا،پارلیمنٹ میں قانون بنا اور پھر اس قانون کو مسلط کردیاگیا،اسطرح مسلم پرسنل لاء اور شریعت میں حکومت نے دخل اندازی شروع کردی،مسلم تنظیوں نے پورے ملک میں اسکے خلاف دستخطی مہم چلائی اور کروڑوں دستخطیں حکومت کو بھجوائی،لیکن کچھ نہیں ہوا،ملک میں یہ سب کچھ ہورہا ہے لیکن اسکے باوجود کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک میں ابھی تک جمہوریت باقی ہے،اور یہ ملک آزاد ہے،جبکہ حقیقی صورتحال یہ ہے کہ اب یہاں مسلمانوں کا وجود خطرے میں ہے،نہ انکی شریعت محفوظ ہے،نہ انکی جان محفوظ ہے،نہ مال محفوظ ہے اور زمین جائداد محفوظ ہے توپھر یہاں جمہوریت کے کیا معنی ہیں؟آئین و دستور کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،اسکی پامالی عام ہورہی ہے تو پھر ملک کا دستور کیسے محفوظ ہے؟
کانگرس پارٹی کا کہنا یہ ہے کہ حکومت امرانہ انداز میں کام کر کے سب کے وقار کو ٹھیس پہنچا رہی ہے اور لوگوں کے ائینی حقوق پر مسلسل حملہ کیا جا رہا ہے،گزشتہ ایک دہائی میں مذہبی بنیاد پرستی کے مذموم ایجنڈے کے ساتھ ہمارے معاشرے کو تقسیم کرنے کی کوششیں جاری ہیں اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور جو سیکولر ہیں ان کو داغدار کیا جا رہا ہے، کمزور طبقات ایس سی، ایس ٹی، او بی سی غریب اور اقلیتوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ان پر مظالم اور وحشیانہ تشدد عام ہو چکا ہے، ہمارے اداروں کی خود مختاری کو مسلسل ختم کیا جا رہا ہے، خود مختار اداروں میں سیاسی مداخلت معمول بن چکی ہے، جمہوریہ کے وفاقی ڈھانچے کو روزانہ کچلاجا رہا ہے،الیکشن کمیشن کی آزادی چھین لی گئی، پریاگ راج میں جاری مہاکمبھ میلے میں جمع سادھو سنتوں کی ایک ٹیم نے 3 فروری کو ایک ہندو آئین کی نقاب کشائی کرنے کے منصوبوں کا اعلان کردیا ہے،اس دن کو ہندو کیلنڈر میں مقدس سمجھا جاتا ہے، شدت پسند ہندو تنظیمیں ملک کو ہندو راشٹر کے طور پر اعلان کا مطالبہ ایک لمبے عرصے سے کرتی رہی ہیں،یہ اعلان ہندوستان کے آئین کو براہ راست چیلنج کرتاہے،جو سیکولرزم پر مبنی ہے اور اس بات کو یقینی بناتاہے کہ قوم نہ تو کسی مذہب کو فروغ دے اور نہ ہی اس پر پابندی لگائے،ہندوستانی آئین، ذات، نسل، مذہب یا جنس سے قطع نظر تمام شہریوں کو برابر کی ضمانت دیتاہے،تاہم ہندو آئین کے مسودے میں تجویز کردہ’ہندو راشٹر’کا تصور ان سیکولر اصولوں کو مجروح کرتاہے جو ہندوستان کے آئینی نظام کی بنیاد بناتے ہیں،یہ تجویز نہ صرف آئین کی بنیادی روح کے خلاف ہے،بلکہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد کےلئے بھی زبردست خطرہ ہے۔
اترا کھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ عمل میں آچکا ہے۔ اب نکاح طلاق،وراثت وغیرہ کے قانون سب کےلئے برابر ہوں گے،قبائلی،آدیواسی لوگ اس سے مستثنی رہیں گے،دھرم سنسد میں ہندو راشٹر کی بات کی جا رہی ہے،راجستھان کے کئی اردو میڈیم اسکولوں کو ہندی میڈیم میں تبدیل کر دیا گیا ہے،وقف ترمیمی بل میں حزب اختلاف کی ایک نہیں چلی،کچھ معمولی ترمیم کے ساتھ پارلیمنٹ میں اسے دوبارہ پیش کردیاجائے گا،وقف (ترمیمی) بل، 2024 پر ڈرافٹ رپورٹ کا محض چند گھنٹوں میں جائزہ لینے اور اس پر غور و خوض کے لیے طلب کیا جانا ایک انتہائی غیر منصفانہ اور غیر جمہوری عمل ہے۔655 صفحات کی اس رپورٹ کو راتوں رات پڑھنا،اس کے اثرات کو سمجھنا اور اس پر اپنی تجاویز پیش کرنا کسی طور ممکن نہیں،یہ عمل نہ صرف پارلیمانی اقدار کی خلاف ورزی ہے بلکہ کمیونٹی کی رائے کو نظر انداز کرنے کے مترادف بھی ہے،وقف جائیدادیں ہماری مذہبی،ثقافتی،اور سماجی شناخت کی بنیاد ہیں،یہ صرف زمین کا معاملہ نہیں بلکہ ہماری نسلوں کے حقوق اور خود مختاری کا مسئلہ ہے،ایسے اہم معاملات پر فیصلہ سازی میں جلدبازی اور مشاورت کےمواقع کا فقدان حکومت کے عزائم کو مشکوک بناتا ہے،ایک جمہوری حکومت کا فرض ہے کہ وہ تمام کمیونٹیز کو ساتھ لے کر چلے،ان کے خدشات کو سنے،اور فیصلہ سازی کے عمل میں شفافیت کو یقینی بنائے، لیکن موجودہ رویہ اس کے برعکس ہے، حکومت کا یہ طرزِ عمل ایک ایسے قانون کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش ہےاسکے علاوہ اورکچھ نہیں ہے۔
ہندوستان میں جمہوریت اور ائین کی دھجیاں اڑانے کا سلسلہ جاری ہے اور حالیہ وقف ترمیمی بل اس سازش کا تازہ ترین ہتھیار ہے، یہ بل نہ صرف مسلمانوں کے ائینی حقوق پر ایک ظالمانہ حملہ ہے بلکہ حکومت کی جانب سے اقلیتوں کو سیاسی طور پر کچلنے اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی کھلی سازش بھی ہے، گزشتہ دنوں مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے اس بل میں حکومت کی پیش کردہ ترامیم کو منظوری دے کر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہاں جمہوریت کا صرف ناٹک رچایا جارہا ہے،یہ حرکت دراصل فاشزم کی عکاسی کرتی ہے، جو ہندوستان کے جمہوری اور سیکولر ڈھانچے کو برباد کرنے کی سازش ہے،جے پی سی نے حالیہ وقف ترمیمی بل میں حکومت کی پیش کردہ 14 ترامیم کو منظوری دے دی،جبکہ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی 44 ترامیم کو مکمل طور پر مسترد کر دیا گیا یہ قدم نہ صرف اقلیتوں کے حقوق پر حملہ ہے بلکہ ایک واضح اشارہ ہے کہ حکومت اقلیتوں کو کچلنے اور اکثریتی طبقے کو خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے،جوائنٹ پارلیمانی کمیٹی میں اپوزیشن کے صرف 10 ارکان شامل تھے جبکہ این ڈی اے کے ارکان کی تعداد 16 تھی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 572 تجاویز میں سے اپوزیشن کی ایک بھی تجویز کو تسلیم نہیں کیا گیا،یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ حکومت نے جمہوری عمل کو محض دکھاوا بنا کر رکھ دیا ہے، کمیٹی کے چیئرمین جگدم بیکاپال نے تمام ترامیم کو جلد بازی میں منظور کرایا اور اپوزیشن کو بحث کا وقت تک نہ دیا یہ رویہ جمہوری اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے اور اس بات کا اشارہ ہے کہ حکومت کسی بھی اختلافی آواز کو دبانے کے لیے تیار ہے،ترمیمی بل کے تحت وقف بورڈ کے انتظامی ڈھانچے میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں اس میں غیر مسلم ارکان کی بھرتی اور وقف بورڈ کا چیف ایگزیکٹو آفیسر( سی ای او) غیر مسلم مقرر کرنے کی شق شامل ہے،مزید یہ کہ وقف املاک پر مسلمانوں کے دعوے کو غیر قانونی قرار دینے اور ان کے انتظام کو سرکاری افسران کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے،ملک بھر میں تقریبا 6 لاکھ 13 ہزار وقف کی جائیدادیں ہیں جن کی کل مالیت کھربوں روپے ہے، ان جائیدادوں کا تحفظ مسلمانوں کی سماجی مذہبی اور ثقافتی شناخت کا اہم حصہ ہے لیکن اس بل کے ذریعے انہیں ان سے محروم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،حکومت کی سازش کے پیچھے دراصل یہ ایجنڈا ہے کہ اقلیتوں کو ان کے مذہبی حقوق سے محروم کر کے اکثریتی طبقے کے حق میں جھکاؤ ظاہر کیا جائے، اس وقت دہلی اسمبلی انتخابات قریب ہیں اور یہ بل سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی چال معلوم ہوتی ہے، اپوزیشن کے ارکان بہرحال اس بات پر زور دیتے رہے کہ اس مسئلے پر مزید بحث ضروری ہے لیکن ان کی آواز کو مکمل طور پر دبا دیا گیا، جے پی سی کی تشکیل لوک سبھا اور راجہ سبھا کے 31 ارکان پر مشتمل تھی جن میں سے 10 اپوزیشن کے ارکان تھے اپوزیشن نے اس بل پر 44 ترامیم تجویز کی لیکن کمیٹی نے ایک بھی تجویز کو قبول نہیں کیا، اس کے برعکس این ڈی اے کی جانب سے پیش کی گئی 23 ترامیم میں سے 14 کو قبول کر لیا گیا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے جمہوریت کا صرف ناٹک کیا اور اپنی منمانی کو ترجیح دی ہے، اس بل کے ذریعے مسلمانوں کو ان کے مذہبی اداروں مساجد،مزاروں، قبرستانوں اور دیگر وقف جائیدادوں سے بے دخل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے یہ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 25 سے 30 کے تحت فراہم کردہ مذہبی ازادی کے حق پر براہ راست حملہ ہے، ملک کی تقریبا تمام بڑی مسلم تنظیموں نے اس بل کی شدید مخالفت کی ہے اور اسے اقلیتوں کے حقوق کے خلاف ایک منظم سازش قرار دیا ہے،ڈی ایم کے اور دیگر اپوزیشن جماعتوں نے اس بل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے ملک بھر میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو اس بل کے خلاف متحد ہونا ہوگا،یہ مسئلہ محض مسلمانوں کا نہیں بلکہ ہندوستان کے جمہوری ڈھانچے اور آئینی اصولوں کا ہے اگر آج مسلمانوں کو ان کے حقوق سے محروم کر دیا جاتا ہے تو کل دیگر اقلیتوں کی باری ہوگی،حکومت کو یہ پیغام دینا ہوگا کہ ہندوستان میں فسطائیت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے اس بل کو قانون بننے سے روکنا ہندوستان کے آئینی مستقبل کے لیے نہایت ضروری ہے، جس تیزی کے ساتھ یہ بل جے پی سی میں منظور کیاگیا اور جس طرح سے اپوزیشن ارکان کی رائے کو دبا دیا گیا اس کے بعد حکومت کی جانب سے اس پر مزید تیزی سے پیش رفت کے اندیشے ہیں،طے شدہ پروگرام اور منصوبے کے مطابق مشترکہ پارلیمانی کمیٹی نے وقف ترمیمی بل کو منظوری دے دی ہے،گذشتہ روز پارلیمانی کمیٹی کی میٹنگ میں وقف ترمیمی بل پر فائنل رپورٹ منظور کی گئی اور آج صبح اسے اسپیکر اوم برلاکو پیش کردی گئی،اس طرح یہ بل اب پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے لیے تیار ہے،پارلمانی کمیٹی کے اجلاس کے دوران صدرکمیٹی، جگدم بیکاپال پر کسی سے فون پر بات کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ابتدا ہی سے کسی کے اشاروں پر کمیٹی اور اس کے صدر کام کرتے رہے اور اپوزیشن کی آراء کو نظر انداز کر دیا گیا، مسلم پرسنل لاء ا ور دیگر مسلم تنظیموں نے یکساں سول کوڈ اور وقف بل کے خلاف ملک گیر تحریک شروع کرنے کا اعلان کیاہے،بورڈ نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ ہرگز کسی کو یہ اختیار نہیں دیں گے کہ ان کی عبادت گاہوں اور دیگر وقف املاک کو ہڑپنے یا تباہ کرنے کی کوئی منصوبہ بندی کرے، حکومت مسلمانوں کے صبر کا امتحان نہ لے اور ملک کو جمہوریت کے بجائے تاناشاہی کی طرف نہ لے جائیں،اقلیتوں کی جائیدادوں پر قبضہ جمانے کی کوشش سراسر ظلم ہے، جس کو کوئی بھی انصاف پسند گروہ قبول نہیں کر سکتا،ہم حزب مخالف کی سیکولر پارٹیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اگر یہ بل پارلیمنٹ میں پیش کیا جاتا ہے تو متحدہ طور پر اس کی پرزور مخالفت کریں اور حکومت سے بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس ترمیمی بل کو واپس لے اور سابقہ قانون کو برقرار رکھے ورنہ مسلمانوں کے لیے عوامی جدوجہد کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں بچے گا اور نتیجتا جو صورتحال پیدا ہوگی اس کے لیے حکومت ذمہ دار ہوگی،وقف کی املاک کو بچانے کےلئے ہم تمام جمہوری و دستوری ذرائع کا بھرپور استعمال کریں گے جس میں کل ہند احتجاجی تحریک بھی شامل ہے اس کے لئے اگر ہمیں سڑکوں پر آنا پڑے یا جیل جانا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔
زندہ قومیں اپنی زندگی اور زندہ دلی کا ثبوت پیش کرتی ہیں،بھارت کے مسلمان اگر واقعی زندہ ہیں توانھیں اپنے وجود کی بقاکےلئے جنگ لڑنی ہوگی اور قربانی پیش کرنی ہوگی،مسلم تنظیموں نے سڑک پر اترنے اور جیل بھرو تحریک چلانے کا اعلان توکردیا ہے،اسوقت مسلمان اپنی قیادت کے تعلق سے یتیم ہیں،اسکی بڑی مثال تحریک شاہین باغ ہے،جوبغیر کسی قیادت کے شروع ہوئی،اکثرمسلم تنظیمیں بیان بازی اورلیٹربازی تک محدود ہوچکی ہیں،ایسے میں مسلمانوں کی مایوسی فطری ہے،بورڈ بھی صرف لیٹرتک محدودرہتاہے یاپھرکوئی منصوبہ بنداقدام کرتاہے لیکن دیکھنا ہوگا کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھتاہے۔
مشتاق سبقت کی ایک نظم سوشل میڈیا پر ان دنوں کافی وائرل ہورہی ہے،چنداشعارآپ بھی ملاحظہ فرمائیں
جب من کی جمنا میلی ہواور رُوح میں اِک بیزاری ہو
جب جھوٹ کے ان بھگوانوں سے ایمان پہ لرزہ طاری ہو
اِس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
ہم اہلِ حرم ہیں ، اب ہم سے یہ کُفر گوارا کیسے ہو
جب چڑیوں کےان گھونسلوں میں سانپ اُتارے جاتے ہوں
جب مالی اپنے گُلشن میں خود ہاتھ سے آگ لگاتے ہوں
اِس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
جب قلمیں ظالم جابر کی عظمت کا قصیدہ لکھتی ہوں
جب حق کی باتیں کہنے پہ انساں کی زبانیں کٹتی ہوں
اِس حال میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
جس دور میں مُسلم لیڈر بھی کچھ کہنے سے گھبراتے ہوں
جس دور میں سبقت،غیرت کے اسباب عدم ہو جاتے ہوں
اُس دور میں ہم دیوانوں سے تُم کہتے ہو خاموش رہو
(مضون نگار معروف صحافی اورکل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)