۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

وہ دعا: دعا نہیں ہے جو بدل نہ دے نصیبہ

محمد قمرالزماں ندوی

      دعا عبادت کا مغز جوہر اور خلاصہ ہے۔ دعا عین عبادت ہے ۔ عبادت کی حقیقت چونکہ اللہ کے حضور میں خضوع تذلل اور اپنی بندگی و محتاجی کا مظاہرہ ہے اور دعا کا جزو و کل اور اول و آخر بھی اور ظاہر و باطن یہی ہے اس لئے دعا اس اعتبار سے یقینا عبادت کا مغز اور بنیاد ہے ۔ حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : لیس شئی اکرم علی اللہ من الدعاء” کہ اللہ کی یہاں کوئی چیز اور کوئی  عمل دعا سے عزیز نہیں ہے ۔ ( ترمذی/ سنن ابن ماجہ) 

      اللہ تعالی سے اگر بندہ طلب نہیں کرتا ۔ اس کے حضور ہاتھ نہیں پھیلاتا ،اس کے سامنے دست سوال نہیں دراز کرتا ہے، تو اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں ۔ چنانچہ ترمذی شریف کی روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : من لم یسائل اللہ یغضب علیہ ” جو اللہ سے نہ مانگے اس پر اللہ ناراض ہوتا ہے ۔

                  اللہ تعالٰی اپنے بندے کی دعا کو قبول کرتا ہے ۔ وہ جب اللہ کو پکارتا ہے تو وہ اس کی پکار کو ضرور سنتا ہے ۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں کو تاکید کرتا ہے کہ تم مجھے پکارو میں تمہاری سنو گا تمہاری دعا کو قبول کروں گا ۔  (وقال ربکم ادعونی استجب لکم)  
 

 علماء نے لکھا ہے کہ وہ دعاء لوٹائی نہیں جاتی جس میں بندہ اپنی ہستی اور ذات کو انڈیل دیتا ہے جس کا تحمل آسمان و زمین بھی نہ کرسکیں ۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب دعا محض زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ نہیں ہوتی بلکہ وہ ایک شخص کے پھٹنے کی آواز ہوتی ہے اس وقت خدائی رحمتیں جوش میں ہوتی ہیں اور بندے پر ٹوٹ پڑتی ہیں ۔ قادر مطلق اپنے عاجز مطلق کو اپنی آغوش میں لے لیتا ہے ۔ آج ایمان والوں کو اپنی دعاؤں میں یہی کیفیت، عاجزی اور سوز پیدا کرنے کی ضرورت ہے ۔ شاعر نے بالکل درست کہا ہے :

جو نہ عرش کو ہلا دے وہ صدا صدا نہیں ہے 

جو بدل نہ دے نصیبہ، وہ دعا دعا نہیں ہے

دعا  در اصل وہی ہے جو دل کی گہرائی سے سے اس یقین کی  بنیاد پر ہوکہ زمین و آسمان کے سارے خزانے صرف اللہ کے قبضہ و اختیار میں ہیں ،اور وہ اپنے در کے سائلوں ،مانگنے والوں کو عطا فرماتا ہے ،اور مجھے جب ہی ملے گا جب وہ عطا فرمائے گا،اس کے در کے سوا میں کہیں نہیں پاسکتا ۔اس یقین اور اپنی سخت محتاجی اور کامل  بے بسی کے احساس سے بندے کے دل میں جوخاص کیفیت پیدا ہوتی ہے ،جسکو قرآن کریم میں اضطرار سے تعبیر کیا گیا ہے ،وہ دعا کی روح ہے اور واقعہ یہ ہےکہ بندہ جب اس اندرونی کیفیت کے ساتھ کسی دشمن کے حملہ سے،یا کسی بلا اور آفت سے بچاؤ کے لیے ،یا وسعت رزق یا اس قسم کی کسی دوسری عام و خاص حاجت کے لیے اللہ تعالٰی سے دعا کرے ،تو اس کریم کا عام دستور ہے کہ دعا قبول فرماتا ہے،اس لئے بلا شبہ دعا ان  بندوں کا بہت بڑا ہتیار ہے جن کو ایمان و یقین کی دولت اور دعا کی روح و حقیقت نصیب ہو۔( ۔معارف الحدیث )

  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعا کے بارے میں ہدایات دیتے ہوئے فرمایا ؛ جب اللہ تعالٰی سے دعا مانگو تو اس یقین کے ساتھ دعا کرو کہ وہ ضرور قبول کرے گا،اور عطا فرمائے گا اور جان لو اور یاد رکھو اللہ تعالٰی اسکی دعا قبول نہیں کرتا جس کا دل دعا کے وقت یاد خدا غافل اور بے پرواہ ہو (سنن ترمذی )

چونکہ دعا عبادت ہے ،بلکہ عبادت کی اصل اور مغز ہے،دعا کرتا ہوا بندہ اللہ تعالٰی کی نظر میں محبوب اور پسندیدہ ہوتا ہے اور خدائے واحد کی توجہ اور عنایت حاصل کرنے کے لیے دعا سب سے زیادہ کار گر طریقہ ہے،اس لیے دعاؤں میں یہ ضروری ہے کہ آدمی اپنی خواہشات و مرضیات کا واضح تصور رکھتاہو،الفاظ و کلمات کے انتخاب پر بھی قادر ہو ۔قرأن و حدیث کے ذریعہ جو دعائیں ہم تک پہنچی ہیں ان کا خاص وصف اور امتیاز یہ ہے کہ وہ الفاظ و کلمات اور اسلوب کے نقطئہ  نظر سے مثالی اور معجزاتی دعائیں ہیں۔ان دعاؤں میں ادبی سرمایہ بھی ہے،مختصر لفظوں میں مافی الضمیر ادا کرنے کی اس سے بہتر  شکل ممکن نہیں ہے۔۔دعا کے لفظی معنی تو پکارنےاور مانگنے کے ہیں.شریعت کی نظر میں دعا انسان کا صرف اپنے خالق کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور ان سے ہی مانگنا دعا کہلاتا ہے ۔۔

                    آئیے !  ہم سب اپنی ذات اور ہستی کو خدا کے حضور عاجزی و انکسار کے ساتھ انڈیل کر یہ دعا کریں بار الہا !

  • ہم سب کو ایسی توفیق عطا فرما کہ ہمارا جینا اور مرنا خالص تیرے لئے ہو،ہماری ساری آرزوئیں، خواہشیں تمنائیں اور ارادے تیری مرضی کے تابع ہوجائیں ۔ رب العزت ہمیں خود دار اور غیرت مند بنا غیرت ایسی عطا فرما کہ شرک و کفر کے ادنی شائبے کو ہم برداشت اور گوارا نہ کرسکیں ۔ تیرے پیارے نبی کی سنت اور اسوہ ہماری زندگی کی پہچان اور علامت بن جائے ۔ تیرے نبی کی زندگی ان کا اسوہ ہماری زندگیوں کا موضوع فکر ہی نہیں معیار عمل بھی بن جائے ۔ سنت کے مقابلے میں بدعت سے اور شرعی عمل اور  رسم و رواج سے نفرت پیدا ہوجائے ۔ بدعت کو دیکھ کر ہمارے اندر اسے ختم کر دینے ،مٹا دینے کا سچا جذبہ اور حوصلہ پیدا ہو اور بدعت اور جاہلانہ رسم و رواج سے سخت کرب و اضطراب اور بے چینی محسوس کریں ۔ خدا وندے قدوس! ہم سب میں اخلاص و للہیت پیدا فرما ۔ ہماری نیتوں میں خلوص و صداقت پیدا فرما۔ کہ ہم کوئی بھی نیک کام اور صالح عمل تیرے سوا نہ تو کسی سے قدر شناسی اور اجر و ستائش کی امید و تمنا رکھیں اور نہ کسی سے خوف کریں ۔ تیرے ذکر سے ہمارے قلوب حلاوت و اطمنان محسوس کریں ۔ 
  • رب العالمین!  جب ہم قیامت میں تیرے حضور پیش ہوں تو اس پیشانی پر تیری غلامی چاکری اور بندگی کے سوا اور کسی در اور آستانے کے غبار کا ایک ذرہ بھی لگا نہ ہو ۔ بار الہا ! پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کو غلبہ اور عزت و سر بلندی  نصیب فرما۔   اور غداروں سے منافقوں سے ملت اسلامیہ کو نجات دے اور ملت کا سربراہ اور حاکم ان کو بنا جو تیرے دین و شریعت کو سربلند کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں جن کی زندگی کا مقصد یہ ہو کہ 

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی 

میں اسی لئے مسلماں میں   اسی   لئے نمازی  

  • یا اللہ!  تیری عبادت و بندگی اور اطاعت و فرمانبرداری یہ سب ہم صرف تیرے لئے خالص رہنے دیں اس میں کسی اور کی غلامی و محکومیت شامل نہ ہونے پائے کسی اور کی حکمرانی شریک نہ ہونے پائے ۔ جو تجھ سے ہمارا عبد اور معبود کا رشتہ ہے اس میں ہے وہ دنیا میں کسی سے نہ ہونے پائے ۔ ہم صرف تیری چشم کرم کے امیدوار تیرے در کے محتاج اور تیرے آستانے کے فقیر اور تیرے کوچے کے بھکاری ہیں ۔ ہم سب یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم تیرے سوا ہر کسی کی بندگی اور معبودیت سے بغاوت کا اعلان کرتے ہیں۔ عبادت و پرستش اور بندگی کے لائق صرف تیری ذات ہے ۔ تیری خدائ میں ربوبیت میں، معبودیت میں اور قدرت و اختیار میں کوئ شریک و سہیم نہیں ۔ تیرے حکم اور فیصلے کے آگے کسی کو مجال اور جرآت نہیں ۔ تیرے ہی اختیار میں عزت و ذلت ہے ۔ دنیا کا سارا نظام اور سارا کارخانہ تیرے حکم سے چل رہا ہے ۔ 
  • خدایا ! ہم پر ظالم حکمراں مسلط نہ فرما ۔ ایسی حکومت سے ہماری حفاظت فرما جو ہم پر ترس نہ کھائے ۔ ہم پر رحم نہ کرے ۔ ہماری  عزت و آبرو کا خیال نہ رکھے ۔ اللہ ہم سب کے لئے سفر اور حضر سب آسان فرما ۔ ہجومِی  تشدد اور حملہ سے ہم سب کی حفاظت فرما ۔ ان ظالموں کو ایمان کی دولت نصیب فرما ۔ ان کو ہدایت فرما ۔اگر ان کی قسمت میں ہدایت نہیں ہے تو اے خدا تو اس سے خود نپٹ لے ۔ 
  • اے اللہ! بحیثیت مسلمان ہم پر جو فرض ہے جو ہماری ذمہ داریاں ہیں ان کو صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرما ۔ اے اللہ مستقبل میں ہمارے خلاف دشمنوں کے اور بھی خطرناک منصوبے ہیں اس سے ہم سب کی حفاظت فرما ۔ دشمنوں کی سازشوں اور منصوبوں سے حفاظت فرما۔ 
  • اے وہ ذات کہ تیرے جلالت و کبریائی سے نبی و رسول لرزاں و ترساں رہتے تھے ۔ ہمہ سب تجھ سے رحمت و مغفرت کی بھیک مانگتے ہیں تیرے عفو و کرم اور رحمت کے طالب ہیں حال میں بھی مستقبل میں بھی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ۔  آمین یا رب العالمین

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: