Slide
Slide
Slide

زوال پذیر انسانی معاشرہ اور ہمارا سیاسی نظام !

زوال پذیر انسانی معاشرہ اور ہمارا سیاسی نظام !

از :محمد عمر فراہی

سپریم کورٹ کے ایک جج نے اپنے ایک مقدمے کی سنوائی کے دوران کہا کہ” زیادہ تر طلاق کے معاملات پیار محبت کی شادیوں کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں "۔جج کے اس تبصرے پر دلی کی ایک لبرل خاتون وکیل اور سوشل اکٹیو یسٹ نے اپنے انسٹا گرام اسٹوری پر  طنزیہ جملہ پوسٹ کیا ہے کہ ” اور جو زیادہ تر اموات  arrange marriages کی وجہ سے ہوتی ہیں اس کے بارے میں کیا کہیں گے ؟

 

اسی دلی میں کل ایک پچیس سالہ نوجوان نے ایک سولہ سالہ لڑکی کو اس کے گھر کے سامنے پہلے تو بیس بار چاکو سے مار کر زخمی کیا پھر اس نے پتھر سے مار کر اس کا سر کچل دیا ۔کسی نے لکھا ہے کہ لوگ دیکھتے رہے مگر کسی نے اس نوجوان کو روکنے کی ہمت نہیں کی سواۓ ایک کتے کے جس نے اس نوجوان کے پیچھے بھونک بھونک کر اپنا احتجاج درج کروایا !

دیکھتے ہیں پولیس کی تفتیش میں اس قتل کی وجہ کیا سامنے آتی ہے، لیکن اندازہ یہی لگایا جاسکتا ہے کہ اس قتل کے پیچھے بھی پیار محبت اور عشق میں بے وفائی کا معاملہ ہو سکتا ہے ۔کچھ لوگ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی اس بے راہ روی کی وجہ موبائل اور سوشل میڈیا کو بھی قرار دے سکتے ہیں ۔

اتفاق سے ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر مخالف گروہ کسی بھی معاشرتی فساد اور بگاڑ کی بنیادی وجہ اور اس کا حل ڈھونڈھنے کی بجائے اس ہتھیار کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کردیتا ہے جس کی وجہ سے خون بہتا ہوا نظر آتا ہے ۔ یہ اسی طرح کا معاملہ ہے جو برصغیر میں آج بھی زیر بحث ہے ۔یغنی پاکستان میں جب مہاجروں پر ظلم ہوتا ہے تو بھارت میں مسلمانوں کا ایک گروہ ہندو پاک کی تقسیم کو غلط اور ابوالکلام آزاد صاحب کی رائے کو صحیح ٹھہرانا شروع کردیتا ہے اور جب بھارت میں مسلمانوں پر حالات تنگ ہوتے ہیں تو پاکستانی کہتے ہیں کہ اچھا ہوا ہم الگ ہوگئے اور محمد علی جناح کا فیصلہ صحیح تھا !

سوال یہ نہیں ہے کہ تقسیم کا فیصلہ صحیح تھا یا غلط ۔سوال یہ نہیں ہے کہ رشتوں کیلئے پہل عورت کی طرف سے کی جاتی ہے یا مرد کی طرف سے یا دونوں کے سرپرستوں کی مفاہمت  سے نکاح عمل میں آتا ہے ۔سوال یہ ہے کہ جب دو مختلف اور متضاد فکر کے حامل افراد مفاہمت اور محبت کے ساتھ  نہیں رہ سکتے تو وہ چاہے بھائی ہوں یا قوم یا میاں بیوی انہیں ایک ساتھ رہ کر اپنی زندگی جہنم بنانے سے بہتر ہے کہ ایک دوسرے کا حق ادا کر کے آزاد ہوجائیں۔

لیکن غور کرنے کی ضرورت یہ بھی ہے کہ طلاق ، جدائی ، تقسیم یا پیار محبت اور بے وفائی کی وجہ سے قتل کے یہ معاملات پہلے اتنے زیادہ کیوں نہیں ہوتے تھے ۔سات سو سالوں تک مسلم حکمرانوں نے بکھرے ہوۓ حصوں کو یکجا کیا مگر انگریزوں کی سو سالہ حکومت کے بعد لوگوں کے درمیان تفریق کی سوچ کیوں شدت اختیار کر گئی ۔

طلاق ہو یا پیار محبت میں بے وفائی کی وجہ سے قتل کے معاملات ابھی تیس پینتیس سال پہلے تک بھی اتنے نہیں تھے ۔

آخر بیسویں صدی کے بعد ہی سارے معاشرتی فتنے کیوں سر ابھار رہے ہیں ۔کچھ باتیں ہم اپنے پچھلے مضمون "چالیس سال پہلے اور اب کے معاشرے کے فرق میں " لکھ چکے ہیں اور اس کی اہم وجہ نئے دور کے معاشرے کی سیاسی تعلیمی اور اخلاقی تربیت کا بگڑا ہوا جدید نظام ہے ۔یاد رہے نسلوں کی تربیت صرف والدین یا استاد ہی نہیں کرتے تربیت ایک پورے پورے معاشرے اور قوم کی بھی ہوتی ہے اور معاشرے کی اس تربیت میں سیاسی حالات ،قانون قاعدے اور طرز حکمرانی کےغلبے کا اہم کردار ہوتا ہے ۔آج جو گروہ نیو ورلڈ آرڈر کے ذریعے  عالمی سیاست پر حاکم یا غالب ہے  وہ اپنے طریقے سے مختلف عالمی اداروں کے ذریعے پورے کرہ ارض کی تربیت کا عزم  کر چکا ہے اور اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب بھی ہے ۔یہ سیاسی قبیلے اپنی مرضی کے مطابق لوگوں کی ذہن سازی اور تربیت کیلئے لوگوں کے دروازوں کو نہیں کھٹکھٹاتے اور نہ ہی فردا فردا تبلیغ کرتے ہیں ۔ اور نہ ہی یہ اپنے مخالف نظریات کے حامل کسی ڈاکٹر انجینیر اور سائینٹسٹ کے خلاف کسی مسجد یا مدرسے میں ادیان باطل کے عنوان سے کوئی اجلاس یا تقریب منعقد کرتے ہیں  ۔ان لوگوں نے نیو ورلڈ آرڈر کے تحت پورے کرہ ارض کے تعلیمی اور معاشی نظام کو تبدیل کر دیا ہے اور ہم تعلیم کے نام پر لاکھوں روپئے خرچ کر کے اپنی نسلوں کو ان کے اداروں میں داخل کر رہے ہیں ۔ان طاقتوں نے ترقی کے نام پر اپنے دین اور معاشرے کو لوگوں کا خواب بنا دیا ہے اور لوگوں نے اس خواب کو خریدنے اور بیچنے کیلئے کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے ۔یہ خواب کچھ اور نہیں لوگوں کی ضروریات ،مفاد اور روز مرہ کے مادی ضروریات کی حصولیابی ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان طاقتوں کے ناپاک عزائم کو ناپاک بھی سمجھتے ہیں ؟

مفاد بری چیز نہیں ہے لیکن جب لوگوں کا مفاد اپنی ذاتی خواہشات تک محدود ہو جاۓ اور لوگ لوگوں کے حقوق سے غفلت برتنا یا حق تلفی کرنا شروع کر دیں تو فساد تو ہونا ہی ہے اور نئی تہذیب کے علمبردار فساد ہی پھیلانا چاہتے ہیں !

شادیاں وہ چاہے پیار محبت کی ہوں یا دو خاندانوں کے ذریعے مفاہمت سے انجام دی جائیں ان کے ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ دونوں طرف سے لوگوں میں قربانی کے جذبات کا فوت ہو جانا اور اپنے مفاد کو ترجیح دینا ہے ۔یہ سوچ نبوی تحریک اور فکر کے بالکل متضاد ہے ۔بلکہ یوں کہیں کہ اٹھارہویں صدی سے پہلے تک یہ سوچ اکثریت پر غالب نہیں تھی تو اس لئے کہ اس وقت تعلیم کےمقاصد میں لوگوں کے فلاح و بہبود کا نظریہ غالب تھا جبکہ اب تعلیم کا مقصد عیش عشرت کی زندگی سے آراستہ ہونا ہے ۔ پہلے لوگ لوگوں کے حق اور حقوق کیلئے قربانیاں دینے کو تیار رہتے تھے اب اکثریت اپنے مفاد کی غلام ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آج بھی کچھ اللہ کے بندے ہیں جو اسی حق کیلئے سرکاری عتاب کا شکار ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ تعدادِ بہت ہی کم ہے ۔

خیر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ وہ چاہے ازدواجی زندگی کی الجھنیں ہوں یا دوست احباب رشتہ دار اور پڑوسی کے ساتھ ہونے والے معاملات میں پیش آنے والی مشکلات اور تنازعے جب ہر معاملے میں لوگوں کو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہوگا اور لوگوں میں صبر اور برداشت کی قوت فوت ہو جائے گی تو فساد لازمی ہے  ۔مسئلہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے بیشتر حکمراں عوام کو اچھے دنوں کا خواب تو دکھاتے ہیں اور بظاہر فلاح وبہبود کا پروپگنڈہ بھی ہو رہا ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ شرافت کے دور سے بے حیائی اور بے شرمی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں ‌۔ جہاں دیکھو تعلیم کا اشتہار تو لگا ہوا ہے لیکن سیکولر نظام تعلیم میں نسلوں کی اخلاقی تربیت کا کوئی معقول نظم  نہ ہونے کی وجہ سے اب جاہلوں سے زیادہ تعلیم یافتہ معاشرہ وہ چاہے اہل ایمان کا معاشرہ ہی کیوں نہ ہو انسانوں کی تباہی اور انتشار کا سبب بن رہا ہے ۔کچھ لوگ اس لبرل معاشرے میں بھی اگر اب بھی اچھے پاۓ جاتے ہیں تو صرف اپنی خاندانی شرافت کی وجہ سے مگر آنے والی نسلوں میں کیا یہ شرافت بھی باقی رہ پائے گی کم سے موجودہ لبرل سیاسی نظام میں اس کی پیشنگوئی کرنا تو بہت مشکل ہے کیوں کہ اب صرف انسانوں میں ہی نہیں زمینوں اور ہواؤں میں بھی زہر پھیل چکا ہے ۔ہاں کوئی نبی صفت انسان دوبارہ پیدا ہوکر کوئی انقلاب برپا کر دے تو الگ بات ہے !

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: