اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا پہلا قدم
اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا پہلا قدم
تحریر: مسعود جاوید
ایک وہ دور تھا جب والدین بچوں کو بکروں کی طرح کھلا پلا کر روزانہ وقت مقررہ پر مدرسہ یا اسکول بھیجتے تھے اور جب بچے واپس آتے تھے تو انہیں کھانا پینا دے کر اطمینان ہو جاتے تھے کہ بچہ پڑھ رہا ہے۔ بالکل اسی طرح جس جانوروں کے مالک ہر صبح جانوروں کی رسی کھول دیتا ہے اور شام کو واپس آنے کے بعد اسے باندھ دیتا ہے۔ والدین اس دور میں کبھی اس کی زحمت نہیں کرتے تھے کہ بچہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیوں!
( امارات میں اپنے بچوں کی تعلیم کے تعلق سے کچھ ذکر کرنا شاید بے جا نہیں ہوگا ۔ داخلہ کے وقت ہی ان کے اسکول کی پرنسپل نے یہ تاکید کی تھی کہ اگر اس اسکول میں داخلہ کرانا چاہتے ہیں تو پہلے ہمیں یہ یقین دلائیں کہ آپ اپنی بچیوں کو روزانہ وقت دیں گے۔ داخلہ کے بعد ان کی استانیاں بالخصوص کلاس ٹیچر وقتا فوقتاً میری کلاس لے لیتی تھی کہ کل آپ نے بچیوں کو شاید وقت نہیں دیا ۔ ان کے یہاں نظام تھا کہ والدین میں سے کسی ایک کا بچوں کے نوٹ بک میں دستخط ہو کہ ماں یا باپ نے ان کا کلاس ورک دیکھا ہے۔ اس اسکول میں ٹیوشن کرانے کو ناپسند کیا جاتا تھا ۔ ان کا کہنا تھا کہ بچے خود کوشش کریں اور جہاں دقت ہو والدین مدد کریں ۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹیوٹر عموماً بچوں کو ہوم ورک کرا دیتے ہیں انہیں جانے کی جلدی ہوتی ہے اس لئے گھڑی گھڑی وہ گھڑی دیکھتے رہتے ہیں اسی وجہ سے بچے اپنے ذہن پر زور نہیں دیتے۔ جبکہ والدین کہتے ہیں خود کوشش کرو۔ )
اس کے بعد وہ دور آیا جب والدین کا شعور قدرے بالیدگی کو پہنچا اور انہوں تعلیم کی اہمیت افادیت اور ضرورت کو محسوس کرنا شروع کیا۔ چنانچہ انہوں نے بچوں کو اچھے اسکولوں میں داخلہ دلانا شروع کیا۔ تاہم انگلش میڈیم اسکولوں میں داخلہ دلانے کے پیچھے کوئی خاص مقصد نہیں ہوتا تھا سوائے اس کے کہ اس سے معاشرہ میں وہ باوقار سمجھے جائیں۔ بالفاظ دیگر یہ ان کی پرسٹیج کا مسئلہ ہوتا تھا۔ اس لئے بچہ ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں کہ اچھے اسکولوں کا انتخاب اور ان میں داخلہ کی پلاننگ ہونے لگتی تھی۔ ان کی ضرورت سے زیادہ شوق کے مد نظر Play school وجود میں آیا اور دو ڈھائی سال کی عمر سے ہی بچے کی تعلیم زندگی کا اہم ترین مقصد قرار پایا۔
تاہم جو کام والدین کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے وہ ہے دسویں کلاس میں بچے کا رجحان اور ریزلٹ کو سامنے رکھتے ہوئے گیارہویں کلاس میں اس کے لئے اسٹریم کا تعین۔ اگر سائنس سبجکٹس میں اس کے نتائج اچھے ہیں تو گیارہویں کلاس میں اسے طے کرنا ہے کہ اسے کس اسٹریم؛ سائنس یا کامرس یا آرٹس پڑھنا ہے۔ مستقبل یعنی بارہویں کلاس کے بعد اسے کس اسٹریم میں جانا ہے اس کا تعین ابھی سے ہی ہو جاتا ہے۔ سائنس اسٹوڈنٹس اگر میتھمیٹکس میں اچھا ہے تو انجنیرنگ اور اگر بایولوجی میں اچھا ہے تو میڈیکل یا بایو سائینس یا بایوٹیکنالوجی ۔
زبان زد عام وخاص انجنیرنگ اور میڈیکل کے علاوہ بھی بہت سارے job oriented کورسز ہیں جس میں بارہویں کلاس کے بعد داخلہ لے کر اور گریجویشن کر کے اعلیٰ تعلیم اور کیریئر بنایا جا سکتا ہے۔
یہ وقت کالجوں میں داخلہ کا ہے اس لئے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں اور بچیوں کی اس بابت کونسلنگ کرائیں اور بہتر سے بہتر لائن کا انتخاب کریں۔
ایک اور اہم بات کہ معلومات کی کمی کی وجہ سے بچے بہت سے سرکاری اداروں میں داخلہ لینے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اسکول کی سطح پر Jawahar Navodaya Vidyalaya مفت رہائشی اسکول ہے۔ اسی طرح دیگر اسکول کے علاوہ گریجویشن و پوسٹ گریجویشن کالجز اور ریسرچ انسٹیٹیوٹ ہیں ۔
جواہر نوودے اور سینک اسکول وغیرہ میں داخلہ امتحان سخت یعنی مقابلہ جاتی ہوتا ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ بھیڑ چال چلتے ہیں کسی تنظیم، ادارہ یا شخصیت نے UPSC آئی اے ایس, آئی پی ایس کی تیاری کرانے کے لیے کوچنگ شروع کی تو دوسروں نے بھی اسی جانب توجہ دی کسی نے NEET میڈیکل اور JEE انجنیرنگ میں داخلہ کے اہل بنانے کے لئے کوچنگ انسٹیٹیوٹ قائم کیا تو دوسرے بھی اسی جانب! ۔۔۔۔۔ کالج اور یونیورسٹی کے قیام کے لیے باتیں کی جاتی ہیں مگر بنیادی تعلیم کے لئے اچھے انگلش میڈیم معیاری اسکول کھولنے یا نوودے جیسے اسکولوں میں داخلہ کے اہل بنانے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی ہے۔. جبکہ Rock solid foundation کے بعد اچھے کالجز میں بچے خود داخلہ لے سکتے ہیں ۔ ایسے ذہین بچوں کو باوقار اداروں کے talent search والے داخلہ کی سفارش کرتے ہیں اس لئے ایسے بچوں سے ان کے تعلیمی درجہ گریڈ اچھا ہوتا ہے۔