تحریر: مولانا ناصرالدین مظاہری
جوں جوں قربانی کاوقت قریب آرہاہے میرے دل کی دھڑکنیں تیزترہورہی ہیں،تیزتراس لئے ہورہی ہیں کہ مسلمان قربانی تو شان کے ساتھ کرتے اورمناتے ہیں لیکن اس شان کے چکرمیں اسلام کی’’ آن‘‘ اوراسلامی تعلیمات کی ’’جان‘‘ نکال کررکھ دیتے ہیں۔میں سب کی بات نہیں کررہاہوں ،بہت سے سنجیدہ حضرات ایسے بھی ہیں جوقربانی اس کے تمام ترتقاضوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ لیکن ایک بڑی تعدادایسے نافہموں کی بھی ہے جوقربانی کے سلسلہ میں اسلام اورمسلمانوں کوہی بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں ،مثلاً قربانی کے جانورلانے لے جانے میں سرکاری احکامات کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی جاتی ہے،جس گاڑی میں دوتین جانوروں کی گنجائش ہے اس گاڑی میں ٹھونس ٹھونس کرکئی کئی جانوربھردیتے ہیں، جانوروں کے ساتھ ایساسلوک کرتے ہیں کہ زبان پرلانے یاقلم سے لکھنے کی بھی ہمت نہیں ہورہی ہے۔
ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک میں ہماری تعدادتیس کروڑکے لگ بھگ ہے لیکن تقریباًایک ارب لوگ ایسے بھی رہتے ہیں جو مسلمان نہیں ہیں،انھیں ہمارے مذہب سے بالکل محبت نہیں ہے،نہ ہی ہمارے مذہبی شعارات سے انھیں کوئی تعلق ہے ،بلکہ حالات اتنے خراب کردئے گئے ہیں کہ اب بات بات میں بات کابتنگڑ بنانے کی کوشش اورسازش آئے دن کامعمول بن چکاہے ،نوبت یہ آگئی ہے کہ ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس ‘‘ والی کہاوت سچ ثابت ہوتے دکھائی دیتی ہے ،ایسے حالات اورماحول میں خودہمیں پھونک پھونک کرقدم رکھناچاہئے، ہماری کوشش ہونی چاہئے کہ حکومت کویااپنے کسی بھی پڑوسی کوکوئی تکلیف نہ پہنچے۔اب جانوروں کاگوشت کھلے عام منتقل کرنے پرپابندی لگ گئی ہے ،اسلام کی تعلیم توشروع ہی سے یہی ہے کہ کھانے پینے کی تمام چیزیں چھپاکرلائی جائیں۔حکومت صفائی کاحکم دیتی ہے توکیاغلط کرتی ہے اسلام میں صفائی کی جس قدرتائید اورتاکید کی گئی ہے اتنی توکسی بھی مذہب میں نہیں کی گئی ہے۔جانوروں کے ساتھ اچھے سلوک کی ہدایت حکومت بھی دیتی ہے اوراسلام نے توسختی کے ساتھ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کی تعلیم دی ہے۔ہمارے والدماجد مرحوم نظام الدین صاحب ذبیحہ کے خون ،اس کی ہڈیاں حتی کہ رسی بھی زمین میں دبادیتے تھے اورکہتے تھے کہ قربانی کاخون بھی لائق احترام ہے اسے یوں عام نالیوں میں نہیں بہاناچاہئے ۔ قربانی کے دنوں میں آپ مسلمانوں کے حسن انتظام کے مظاہر اور مناظر خود دیکھ سکتے ہیں،کہیں کتے گوشت لے کربھاگے جارہے ہیں کہیں ہڈیاں سڑکوں پربکھری نظرآرہی ہیں،یہ سب حکومت کی ہدایات کی خلاف ورزی توہے ہی ساتھ ہی اسلامی تعلیمات اورعقل کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔
ذبح کے وقت جانورکو کم سے کم تکلیف پہنچے ۔یہ ہمارے نبی کی تعلیم ہے اورہم قربانی کے وقت جانورکے ساتھ رویوں کواپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔حکومت کی ہدایت ہے کہ قربانی کھلے میں نہ کی جائے اپنے گھروں میں صرف اُن جانوروں کی قربانی کی جائے جوممنوع نہیں نہیں ۔ کچھ احمقوں نے حکومت کی ہدایت پرعمل توکیالیکن قربانی کے وقت کے تمام مناظراپنے موبائل میں محفوظ کرکے ان کوسوشل میڈیاپراپلوڈکردیا،سوچیں اگرآپ کھلے میں قربانی کرتے توممکن تھادس پانچ لوگ ہی دیکھتے لیکن اب سوشل میڈیاپردیکھنے والوں کی کوئی حد نہیں رہی۔اس قسم کے لغوکام کچھ بے وقوف کرکے اسلام اورمسلمانوں کی رسوائی،جگ ہنسائی اورفتنہ پروری کاذریعہ بنتے ہیں پھرجب حکومت ایکشن لیتی ہے، مجرموں کوجیل بھیجتی ہے توکچھ خیرخواہ چیخناشروع کردیتے ہیں کہ جمعیۃ کیاکررہی ہے،ارے بھائی جمعیۃ تمہارے الٹے سیدھے کاموں کے لئے ہی رہ گئی ہے کیا؟اس کے پاس اوربھی غم کیاکم ہیں۔
جن جانوروں کے ذبح پر پابندی ہے: یعنی گائے اوربیل کی قربانی ملک کے بعض صوبوں میں ممنوع ہے ،تومسلمانوں کوایسے ممنوعہ جانوروں کی قربانی ممنوعہ علاقوں میں کرنے سے احتیاط کرنی چاہئے۔یہی اپیل دارالعلوم اورمظاہرعلوم کی طرف سے ہرسال کی جاتی ہے چنانچہ مدرسہ مظاہرعلوم (وقف )سہارنپورکے کتابچہ’’احکام عیدالاضحی‘‘میں صراحت موجودہے کہ ’’قانوناًگائے اوراس کی نسل کاذبیحہ بندہے‘‘۔ ظاہرہے ہمیں اس بندش کالحاظ اورخیال رکھناچاہئے اوربقیہ جانوروں کی ہی قربانی کرنی چاہئے۔قربانی کے ناقابل استعمال تمام اجزاء بشمول خون،ہڈیاں،بال وغیرہ سب کودفنادیناچاہئے ۔
یہ مہنگائی کازمانہ ہے۔لیدریعنی چمڑے کی بنی چیزوں کی قیمتیں آسمان کوچھورہی ہیں بلکہ چمڑے کے جوتے اورچپل کاتصورغریب اوردرمیانے درجے کے لوگ نہیں کرسکتے۔اس کے باوجودقربانی اوربڑے جانوروں کی کھالیں اتنی سستی ہوچکی ہیں کہ جلدی فروخت نہیں ہوتی ہیں اگرفروخت ہوگئیں توان کے حصول میں آنے والے صرفہ کونکال کرکچھ بھی نہیں بچتاہے ،غورکیجئے کھالیں سستی ہیں اورکھال سے بنی چیزیں نہایت مہنگی ہوچکی ہیں وجہ یہ ہے کہ ان جانوروں کی کھالیں دست بدست غیرمسلم فیکٹری مالکان تک پہنچتی ہیں وہاں چمڑے کاسامان تیارہوکرمنہ مانگی قیمت سے فروخت ہورہاہے یعنی ایک طبقہ کازبردست نقصان ہے تودوسرے طبقہ کازبردست فائدہ ہے ،ایک کی اقتصادی کمرتوڑی جارہی ہے دوسرے کواقتصادی فائدہ پہنچایاجارہاہے۔
ایسی صورت میں بہترتویہ تھاکہ جمعیۃ یاامیرلوگ خوداپنی فیکٹریاں لگائیں ،اس میں چمڑے کاسامان تیارکرائیں اوراس سے تجارت کوفروغ دیں۔دارالعلوم اورمظاہرعلوم بھی یہ کام کرسکتے ہیں اوراگرنہ کرسکیں توکسی کوبھی اس کام کے لئے حکمت کے ساتھ کھڑا کرسکتے ہیں ۔