ردعمل کی پالیسی ہی کیوں !
مسعود جاوید
مسلم پرسنل لاء ( نکاح، فسخ، طلاق، خلع اور تقسیم وراثت وغیرہ) کا حق آئین ہند نے مسلمانوں کو اسی طرح دیا ہے جس طرح غیر مسلموں کو ہندو پرسنل لاء کا دستوری حق حاصل ہے ۔ اس کے خلاف قانون سازی سے ہندوستان کے متعدد فرقے اور قبائل کے شخصی قوانین رسم ورواج متاثر ہوں گے ۔ وہ لوگ اس کے خلاف آواز نہیں اٹھا رہے ہیں شاید اس لئے کہ :
- – وہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سے صرف مسلمان متاثر ہوں گے!۔
- – وہ سمجھتے ہیں کہ جذباتی مسلمانوں کا احتجاج کافی ہے! ۔
- – مسلمان اپنی شریعت کے تئیں دوسروں کی بنسبت زیادہ حساس ہیں۔
حساس تو ہیں اور یہ قابل ستائش بھی ہے لیکن ردعمل کے طور پر ہی کیوں؟ مسلم پرسنل لاء کے تحت تقسیم وراثت بھی ہے۔
قرآن مجید میں اللہ کی طرف سے تقسیم کردہ وراثت کو کتنے لوگ نافذ کرتے ہیں ؟ میری نظر میں ایسے بڑے بڑے علماء ، دانشور ، اور انسانی حقوق کے علمبردار مسلم معاشرہ میں ہیں جو بہنوں اور پھوپھیوں کے حقوق مار کر بیٹھے ہیں!
اگر یہ مان بھی لیں کہ تین طلاق اور یکساں سول کوڈ وغیرہ کے شوشے انتخابات کے وقت فرقہ وارانہ لائن پر لام بندی کرنے کے لئے چھوڑے جاتے ہیں پھر بھی اپنے معاشرے میں اصلاح کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تین طلاق ہو یا تقسیم وراثت ، کیا علماء و خطباء مساجد کے منبر و محراب سے نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ، جنت، جہنم اور عذاب قبر کی طرح میراث کا وارثوں میں اللہ کے مقرر کردہ حصص دینے پر ترغیب و ترہیب بیان کرتے ہیں ؟ طلاق کا قرآنی نظام یعنی زوجین کے مابین جھگڑے کی صورت میں (١) پہلے زوجین بستر الگ کرلیں تاکہ دو میں سے کسی کو اپنی غلطی کا احساس ہو اور وہ مصالحت کی پہل کر کے معاملہ رفع دفع کر لیں. اس سے بات نہیں بنی تو دونوں کے گارجین کو بلایا جائے اور وہ زوجین کی شکایتوں کو سن کر جس کی غلطی ہو اس کی سرزنش کر کے معاملہ حل کر دیں۔ یہ ترکیب بھی کام نہیں آئے تو شوہر طہارت میں (پریڈ کے دوران نہیں) ایک طلاق دے اور اس دوران اگر شوہر یا بیوی یا دونوں کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے اور دو میں سے کوئی ایک مسکرا کر دیکھ لے یا چھو لے تو وہ طلاق باطل ہو جائے گی۔ اسی طرح کچھ وقت دیا جائے اور کونسلنگ کی جائے تو بیوی فسخ کی درخواست واپس لے سکتی ہے۔
کیا آپ کو نہیں لگتا کہ بعض لوگ نادانی کی بناء پر تین طلاق کو مذاق سمجھتے ہیں! سالن میں مرچ مصالحہ تیز ہونے پر ایک دو تین بیس تیس پچاس طلاق منہ سے نکالتے ہیں! ۔زمین کے نیچے اور آسمان کے اوپر کی باتوں کے علاوہ دین اسلام کے انسانی پہلوؤں کو بھی جمعہ کی تقریروں اور خطبوں کا موضوع بنایا جائے۔
مظلومیت اور بعض عناصر کے نشانے پر رہنے کی باتوں میں صداقت کے باوجود ہمیں پہلے اپنا گھر درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کے سماجی پہلوؤں کو عام کرنے سے ہم مسلمانوں کے ذہنوں میں بھی دین راسخ ہوگا اور دوسرے بھی متاثر ہوں گے۔
العیاذ باللہ ۔۔ میں ہی کیا کوئی بھی مسلمان یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی شخصی آزادی کے قوانین پر پابندی لگائے۔
لیکن جیسا کہ دو روز قبل بھی لکھا کہ شخصی قوانین کے تحفظ کے لئے مسلم پرسنل لاء بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا یہ اسی کا دائرہ عمل ہے ہم سب فردا فردا احتجاج کی بجائے بورڈ کے ذمہ داروں پر زور ڈالیں کہ وہ اس بابت بلا تفریق مسلک و مشرب و مکتب فکر تمام مسلمانوں کا مشترکہ نمائندہ وفد ارباب اقتدار اور اپوزیشن کے لیڈروں سے ملاقات کریں۔
ہم حکومت سے پہلے اپنی ذمہ دار تنظیم کو جوابدہ بنائیں۔