سخت مشکل ہے توازن میں تماشہ ہونا…
تحریر:زین شمسی
اسلام کی موڈریت شبیہ کو دنیا کے روبرو کرنے کی پہل یوں تو نئی نہیں ہے، لیکن اس کی باضابطہ شروعات تب ہوئی جب 2017میں سعودی عرب کے نئے فرمانروا شاہ سلیمان نے ملک میں موجود کچھ روایتی اور قدیم قوانین و ضابطوں میں ردو بدل کرتے ہوئے اسے عالمی سیاسی ، سماجی اور معاشی تناظر کے مدمقابل کرنے کی کو ششیں شروع کیں۔ گویا جدید عالمی سروکار اور قدیم اسلامی روایات میں توازن برقرار رکھنے کے لئے انہوں نے کچھ اسلامی قوانین کی تجدید کاری کا بیڑہ اٹھایا جسے دور قدیم کے وسائل و مسائل کو سامنے رکھ کر بنایا گیا تھا چونکہ اس دور میں جب وہ وسائل اور مسائل ختم ہو چکے تھے تب بھی وہ جاری تھے۔ تجزیہ نگار بتاتے ہیں کہ انہوں نے اس تبدیلی کی ضرورت اس لئے محسوس کی کہ ایک طرف دنیا صنعتی اور تکنیکی انقلاب کے گھوڑے پر سوار ہو کر بہت تیزی کے ساتھ ترقی کے منازل طے کر رہی تھی اور اسلامی دنیاآج بھی صحرائوں میں گھوڑوں کی زین پکڑے یاد رفتگاں کی فتوحاتی کامیابیوں کے نشان ڈھونڈنے میں مصروف رہی۔ یاد ماضی کے ان سراغوں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے اسلامی دنیا پسماندگی کے اس پڑائو پر پہنچ گئی جہاں اس کے لئے دہشت گردی کا ایک مایا جال بن دیا گیا۔یعنی سیاسی طور پرپوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد کہا جانے لگا اور سچائی یہ ہے کہ پوری دنیا میں سماجی طور پر مسلمان دہشت میں ہیں۔ اب یہ جال کیسے اور کیوں بنا گیا اس بحث میں جانا مقصود نہیں ، مگر اتنا ضرور ہے کہ اس حال تک پہنچنے کا ذمہ دار صرف غیر قوم کے پالیسی سازوں کو نہیں دیا جا سکتا اس میں ہماری بھی کہیں نہ کہیں غلطی ضرور ہے خیر!
موڈریٹ اسلامی پہل کو آگے بڑھانے کے لئے شاہ سلمان کے سابق وزیر اور مسلم ورلڈ لیگ کے سکریٹری جنرل ڈاکٹر محمد عبدالکریم العیسٰی کا دہلی کے انڈیا اسلامک کلچرر سینٹر میں والہانہ استقبال کیا گیا۔اس سے پہلے العیسٰی اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کی کئی اہم مسائل پر گفت و شنید بھی ہوئی، جسے بھارت-سعودی عرب کے کاروباری استحکام کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر میں ان کے ساتھ بھارت کے این ایس اے سربراہ اجیت ڈوبھال بھی موجود تھے اور کئی نامور دنشوران کی شرکت یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ یہ ایک اہم اور ضروری معاملے پر تبادلہ خیال کرنے والا اسٹیج تھا۔ اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے العیسٰی نے کہا کہ اب وقت آچکا ہے جب دنیا کو اسلام کے اصل روح سے آگاہ کیا جائے اور اسلاموفوبیا میں مبتلا لوگوں کے نزدیک اسلام کی اصل شناخت کو سامنے رکھا جائے اور یہ بتایا جائے کہ اسلام دہشت گردی کے سخت خلاف ہے اور یہ مذہب امن و آشتی اور بھائی چارے کی تبلیغ کرتا ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ مسلمانوں کو غیر اسلامی مذاہب کے ساتھ رواداری کا برتائو کرنا چاہئے اور ساتھ مل کر ترقی کی راہ بنانی چاہئے۔گویا ان کے اس بیان سے یہ موقف نکالا جا سکتا ہے کہ ہمیں دنیا کے دیگر مذاہب کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلنا ہوگا اور ان کا اعتبار حاصل کرنا ہوگا۔اس لئے ہمیں ماڈرن سوچ کے ساتھ ایسے کچھ فرسودہ افکار و خیالات کو نظر انداز کرنا ہوگا جس سے مسلمانوں پر کٹرتایعنی رجعت پسند کا الزام عائد ہوتا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی تصور موڈریٹ اسلام کا ہے اور اگر ایساہے تو اس پر صرف ہنسا ہی جا سکتا ہے، کیونکہ ایسا کرنا اپنے آبا و اجداد کے ان عقائد اور اصولوں کو توڑنا ہے جس پر آج سے پہلے وہ نہ صرف قائم تھے بلکہ پوری تندہی کے ساتھ اس پر عمل پیرا تھا، دوسرے یہ کہ کیا کسی ایسی روایت کو ترک کردینا یا اسے نظر انداز کر دینا اتنا آسان ہوگا، کیونکہ مسلمانوں میں جو بھی روایت و عقائد ، اصول و ضوابط راہ پاگئے ہیں وہ ان کی تعلیمات کی بنیاد پر نہیں بلکہ علما و صاحب علم کی تشہیر و تبلیغ کی بنا پر ہیں۔ اب بھی مسلمانان ہند کسی بھی مسائل کا حل کتابوں کے درس سے نہیں بلکہ علما کے بیان سے نکالتے ہیں۔ ایسے میں کیا علما ایسی فہرست نکال پائیں گے جو انہیں فرسودہ اور غیر ضروری محسوس ہواور یہاں پر سب سے بڑا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ العیسٰی کی تقریب ہندوستان کے عالم دین سے خالی رہی۔اگر یہ اتنا ہی اہم پروگرام تھا توان تمام علما کو مدعو کیا جانا تھا جو قدیم اسلامی روایت کو جدید اسلامی روایت تک لے جانے کی کوشش کر سکتے تھے، مگر مدعو کرتے بھی تو کتنے مسالک کے علما کو مدعو کرنا پڑ جاتا ہے۔ دراصل جب ہم موڈریٹ اسلامی روایت کی بات کرتے ہیں تو ہم اس عقیدہ کی بات کرتے ہیں جو برسوں سے ہمارے یہاں رائج ہے اور یہ عقیدہ کس نے رواج دیا۔ قرآن اور حدیث کے بعد خلفا راشدین کی پیروی، پھر چار اماموں کی پیروی، اس کے بعد صحیح اور غریب حدیث کی نشاندہی، گویا اتنے عقائد و اصولوں میں یکسانیت پیدا کرنا ہی ایک چیلنج ہے تو پھر اسے متروک قرار دینا آسان ہے کیا؟پھر نئی اسلامی زندگی کو اپنانے کے لئے کس طرح کااتفاق یا اختلاف بنے اس پر اتفاق رائے بننا آسان ہے کیا۔؟لیکن ہاں بات شروع ہوئی ہے تو اسے جا ری رکھنا چاہئے۔
دراصل اگر ماڈرن اسلام کا تصور دین و دنیا کے علم میں توازن پیدا کرنا ہو تو یہ کام آسان ہو سکتا ہے، مگر فرسودہ روایتوں میں سے ایک روایت اس طرح قائم ہے کہ دنیا کا علم ثانوی چیز ہے۔ دینیات کا علم ہی اصل علم ہے کیوں کہ یہ جہاں دارفانی ہے ، ایک دن سب کچھ ختم ہو جانا ہے اور بس نام باقی رہے گا اللہ کا ۔ اس لئے دنیا کو ثانوی درجہ دیا جانا چاہیے اور اس پر اتنا ہی وقت سرف کرنا چاہئے کہ آپ کی روٹی روزی کا انتظام ہو سکے۔اس التزام نے مسلمانوں کو دنیا سے بے گانہ کر دیا۔ اس لئے قوم کالجز سے زیادہ مدرسوں کی اہمیت کو سمجھنے لگے۔ یہ بات کسی نے نہیں سمجھائی کہ آخرت میں نماز ، روزہ اور تقویٰ کا حساب کتاب ہوگا تو اعمال کا بھی ہوگا اور اعمال کا سیدھا تعلق دنیا سے ہے۔ اگر دنیا کو بہتر نہیں کیا گیا تو دین بھی بہتر نہیں ہوگا۔ اسی روایت کو اگر توڑنے کی کوشش کی جائے تو اسے ہی موڈریٹ اسلام کی شکل دی جا سکتی ہے۔اسلام کی اصل روح تو اس کی تعلیم پر ہی منحصر ہے اور یہ تعلیم دینی اور دنیاوی دونوں ہے۔مختصراً یہ کہ ماڈرن اسلام کا تصور ارکان دین کے ساتھ ساتھ اعمال دنیا بھی ہونا چاہئےاور دنیا کو ثانوی قرار دینے کا عقیدہ ہی فرسودہ عقیدہ ہے۔ اسے ختم کرنے کی کوشش ہو تو موڈریٹ اسلام کی بات درست ہو سکتی ہے ورنہ اسے بھی سیاسی اسٹنٹ ہی تسلیم کیا جانا چاہئے۔
اپنی بات راشد طراز کے اس شعر پر ختم کرنا چاہوں گا کہ
سخت مشکل ہے توازن میں تماشہ ہونا
حلقہ ہوش کے مابین دوانا ہونا