Slide
Slide
Slide
Alamullah

کیا مسلمان دیوار نوشتہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں؟

محمد علم اللہ، نئی دہلی

 سچر کمیٹی (2005)کی رپورٹ کے بعد یہ بات کہی جا رہی تھی کہ مسلمانوں نے مجموعی طور پر کافی ترقی کی ہے لیکن یک بعد دیگرے متعدد تحقیقی اداروں کے سرویز اور رپورٹوں سے چونکا دینے والے انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان میں مسلمانوں کے تعلق سے معروف انگریزی روزنامہ’ ہندوستان ٹائمز ‘نے اپنے 30 جون 2023 کے شمارے میں ایک انتہائی چشم کشا رپورٹ شائع کی ہے۔اس میں آل انڈیا ڈیٹ اینڈ انویسٹمنٹ سروے (اے آئی ڈی آئی ایس) اور پیریڈک لیبر فورس سروے (پی ایل ایف ایس) کی تحقیقات کے مطابق ملک میں اسلام کے پیروکاروں کو اہم مشکلات اور مسائل کا سامنا ہے۔ان کے یہاں ملک کے دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں اثاثوں اور کھپت کی سب سے کم سطح ہے۔ رپورٹ کے مطابق  مسلمانوں کو ہندوستان میں سب سے زیادہ معاشی طور پر پسماندہ مذہبی گروہ سمجھا جاتا ہے، اور وہ ملک کی غریب آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔

 اس جائزاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 15 فیصد سے بھی کم ہونے کے باوجود، یہاں کی سڑکوں پر تقریبا 25 فیصد بھکاری مسلم قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ حیرت انگیز تفاوت  ملت  کو درپیش معاشی مشکلات کو اجاگر کرتا ہے، جو ہندووئوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو درپیش مشکلات سے کہیں زیادہ ہے۔دنیا بھر کے  رہنماؤں اور تنظیموں کو ان کے انتہائی اہم مسائل کو حل کرنے میں مدد کرنے والے ’ابوظہبی گیلپ سینٹر ‘نامی ایک عالمی تجزیاتی ادارینے حال ہی میں بتایا ہے کہ دیگر مذہبی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے مقابلے میں ہندوستانی مسلمانوں کومستقبل قریب میں مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکلیفوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 ہندوستانی مسلمانوں کے لیے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ 2010ء میں نیشنل کونسل فار اکنامک ریسرچ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا تھا کہ ہندوستان میں 31 فیصد مسلمان خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ سال 2013ء میں حکومت ہند کی وزارت شماریات اور پروگرام نفاذ کے تحت ایک تنظیم کی جانب سے کین گئے سروے میں اس بات کی تصدیق کی گئی تھی کہ مسلمان ملک میں معاشی طور پر سب سے زیادہ پسماندہ طبقوں میں سے ایک ہیں۔ اس طرح کی ریسرچ واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ مسئلہ اس سے کہیں زیادہ گہرا ہے جتنا ہم دیکھیا سمجھ پارہے ہیں۔ ’کوارٹز‘ایک ڈیجیٹل میڈیا کمپنی جسے اپنی جدید کاروباری خبروں کی کوریج اور تجزیہ کے لئے جانا جاتا ہے اس نے 2018 میں نشاندہی کی تھی کہ 1990ء کے بعد سے تقریباً 170 ملین افراد کو غربت سے نکالنے میں ہندوستان کی پیش رفت کے باوجود، مسلمانوں نے سب سے کم ترقی کی۔یہ ایک تشویشناک نشاندہی ہے۔

 ابھیشیک جھا اور روشن کشور جیسے چوٹی کے صحافیوں نے ’ہندوستان ٹائمز‘ میں اپنی تجزیاتی رپورٹ میں لکھا ہے کہ ہندوستان میں دیگر مذہبی گروہوں کے مقابلے میں مسلمانوں کی آبادی تیزی سے بڑھنے کے بارے میں اکثر گمراہ کن دعوے کیے جاتے رہیہیں۔ اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ یہ دعوے درست معلومات پر مبنی نہیں ہیں۔ تاہم، یہ سچ ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ ان کی آبادی کے حصہ کے مقابلے میں غریب ہے۔ وہ زیادہ تر ہندوستان کی آبادی کے نچلے نصف حصے میں مرکوز ہیں۔ مسلمانوں میں غربت کا یہ ارتکازموجودہ ہندوستانی نظام کے غیر منصفانہ تعصبات کو نمایاں کرتا ہے۔

 ایسی بہت سی رکاوٹیں ہیں جو ہندوستان میں مسلمانوں کے لیے معاشی طور پرترقی کی راہ کو مشکل بناتی ہیں۔ انہیں مختلف چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس میں تعلیم کے میدان میں محدود رسائی اور اپنے مذہب کی وجہ سے امتیازی سلوک شامل ہے۔مذہب کی بنیاد پر امتیازی سلوک کی تازہ ترین مثال اتراکھنڈ میں دیکھنے کو ملی جہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیزمہم میں ریاستی اورمرکزی حکومت کے کردار کو ہم نے کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ کوارٹز کے محققین نے نشاندہی کی ہے کہ مسلمانوں کو ملک بھر میں مستقل تعصب کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے پالیسیاں نہیں ہیں۔ سیاسی نظام کی طرف سے بھی انھیں کوئی خاطر خواہ حمایت نہیں ملتی ہے۔ وہ کہتے ہیں مسلمانوں کے ساتھ اکثر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا ہے۔ حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق، ہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک تاریخ ہے۔ 2017ء اور 2021ء کے درمیان اس طرح کے تشدد کے تقریباً 3000واقعات درج ہوئے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی اور سماجی صورتحال انتہائی سنگین ہے اور ان کو بہتر بنانے کے لیے بنیادی طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن ہر سطح پر ایسا لگتا ہے کہ بہروں کا بسیرا اور اندھوں کا پہرا ہے۔

 بعض تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لینے کی شرح سب سے کم ہے۔ اس فرق کو مختلف عوامل سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ ایک اہم وجہ مسلم اکثریتی علاقوں میں ناکافی تعلیمی انفراسٹرکچر ہے، جو اسکولوں اور تربیتیافتہ اساتذہ کی کمی کا شکار ہے۔ یہ مسلم بچوں کے لیے معیاری تعلیم کی دستیابی کو محدود کرتا ہے۔ غربت اور امتیازی سلوک جیسے سماجی و اقتصادی عوامل  مسلمانوں  کے لیے درپیش چیلنجوں کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں، جس سے تعلیمی مواقع میں اضافی رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔اس سے بھی زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ مسلم طلبہ کے اندراج کی تعداد میں 8 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسلمان وہ واحد طبقہ ہے جنہیں مطلق کمی کا سامنا ہے، جبکہ دیگر  فرقوں نے اندراج میں مجموعی طور پر اضافہ دیکھا ہے۔ کمی میں سب سے آگے اتر پردیش، جموں و کشمیر، مہاراشٹر، تمل ناڈو، گجرات، بہار اور کرناٹک جیسی ریاستیں ہیں۔ محققین کے مطابق ضروری نہیں کہ ہندوستان میں بہتر ملازمتوں میں مسلمانوں کا کم حصہ ملازمت کے عمل میں امتیازی سلوک کا نتیجہ ہو، بلکہ یہ ملازمت کے متلاشی مسلمانوں میں تعلیمی قابلیت کے لحاظ سے پیچھے رہنے کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔تعلیمی قابلیت روزگار میں بہت بڑا کردار کرتیہے۔ رپورٹ کے بقول فرقہ وارانہ سیاست ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش اقتصادی رکاوٹوں  کے تعین میں براہ راست کردار ادا نہیں کرتی ہے بلکہ وہ پردے کے پیچھے سے اپنا کام کرتی رہتی ہے۔

 ہندوستانی حکومت میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں نمایاں کمی واقع ہو رہی ہے۔ 2022ء میں، حکمراں جماعت اپنی تاریخ میں پہلی بار کسی مسلمان رکن پارلیمنٹ (ایم پی) کے بغیر رہ گئی، جس نے سیاسی طورپر بھی مسلمانوں کی کم ہوتی ہوئی نمائندگی اور سیاسی حیثیت کو اجاگر کیا۔ اس وقت مرکزی سطح پر مسلم وزراء کی غیر حاضری موجودہ سیاسی نظام کا چونکانے والا عمل ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں تاہم کوئی بھی جماعت، حتٰی کہ مسلمانوں کے ووٹوں پر انحصار کرنے والی علاقائی جماعتیں بھی، پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنے کے تئیں مخلص دکھائی نہیں دیتی ہیں۔آپ ذرا غور کیجئے کہ ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ملک میں2011ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد14.5 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پارلیمنٹ میں ان کی تعداد محض ساڑھے تین فیصد ہے۔

 حکومت مسلسل 15فیصد آبادی کو نظر انداز کررہی ہے۔ اس کی وجہ سے مسلمانوں کوکیسی کیسی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کسی مہنگے اور معیاری علاقے میں مناسب رہائش تک رسائی سے، جو کسی کے مجموعی معیار زندگی کا تعین کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مسلمانوں کو محروم کر دیا جاتا ہے۔ انہیں کرایہ اور  تھوک اسٹیٹ مارکیٹ تک میں امتیازی سلوک کا سامناکرنا پڑتا ہے، جس کے سبب وہ خود کو غیر محفوظ اوراچھوت محسوس کرتے ہیں۔ ان حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے ابھیشیک جھا اور روشن کشور نے لکھا ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی تعلیمی اور معاشی حیثیت کو بہتر بنانے کے لئے جامع اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔ ان کے بقول یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ کیا ہندوستان میں اکثریتی سیاست کی طرف موجودہ تبدیلی نے مسلمانوں کی معاشی خوشحالی پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کی شناخت ہی ان کے لیے سب سے بڑا جرم بن گئی ہے؟۔

 اس طرح کی رکاوٹیں ہندوستانی مسلمانوں کو درپیش معاشی نقصانات میںمسلسل اضافہ کررہی ہیں، جس سے ان میں غربت کا ایک ایسا  حصار بن کر تیار ہوگیا ہے جس سے باہر نکل پانا فی الحال مشکل لگتا ہے۔ ان زنجیروں کو موثر طریقے سے توڑنے کے لئے، ایک جامع نقطہ نظر ضروری ہے، جس میں موجودہ حالات میں کردار ادا کرنے والے سماجی، اقتصادی، ثقافتی اور سیاسی عوامل شامل ہوں۔ جامع پالیسیوں کو نافذ کرکے، تعلیم اور روزگار تک مساوی رسائی کو فروغ دے کر، دقیانوسی تصورات کو چیلنج کرکے، اور منصفانہ نمائندگی کو یقینی بناتے ہوئے، ہندوستان ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے کی کوشش کرسکتا ہے جہاں ہندوستانی مسلمانوں سمیت تمام شہریوں کو پھلنے پھولنے کے مساوی مواقع حاصل ہوں۔ صرف ایک جامع اور مربوط کوشش کے ذریعے ہی ہم ان رکاوٹوں کو صحیح معنوں میں ختم کرسکتے ہیں اور سب کے لئے زیادہ منصفانہ اور خوشحال مستقبل کی راہ ہموار کرسکتے ہیں۔

 موجودہ حالات میں حکومت سے کسی مثبت اقدام یا مدد کی توقع کرنا اول درجے کی حماقت اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا اگر ملت کا دم بھرنے والے، خواہ ان کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو، جب تک مل بیٹھ کر کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کرتے کسی بہتری کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ غربت ہر طرح کی کمزوریاں ساتھ لے کر آتی ہے۔ جس قوم میں نہ تعلیم ہوگی نہ  اس کے پاس  ہنر اور وسائل ہوں اس کی اگلی نسل کی’’گھر واپسی‘‘بہت آسان ہوجائے گی اور موجودہ نسل صرف یکساں سول کوڈ پر آنسو بہاتے اس دنیا سے رخصت ہوجائے گی اور آئندہ نسلوں کو غیر تعلیم یافتہ اور معاشی پسماندگی کی دلدل میں ڈوبتا ہوا چھوڑ جائے گی۔ کوئی پوچھے کہ جس ملت کے پاس کروڑوں روپئے کی وقف املاک موجود ہوں اس کے امام اور موذن تک معمولی تنخواہوں کے لئے ترستے رہیں، اس کے بچے بنیادی تعلیم سے محروم رہیں اور نوجوان بے مقصد زندگی گزارنے پر مجبور ہوں اس کا مستقبل خوفناک حد تک تاریک ہونے میں کسی شبہ کی گنجائش ہے۔ ابھی تک تو حکومت اور آثار قدیمہ نے تاریخی مساجد کوزبردستی غیر آباد کروایا ہوا ہے مگر  حالات اسی طرح پستی کی جانب جاتے رہے تو ایسا نہ ہو کہ ہماری خوبصورت مساجد کسی اور کام کے لئے استعمال ہونے لگیں۔ خدارا جاگئے اور سوچئے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: