Slide
Slide
Slide
مسعود جاوید

ریہڑی پٹری والوں کو قرض اور معیاری نوودے و دیگر اسکولوں میں داخلے کی تیاری

تحریر: مسعود جاوید

پچھلی اپنی دو تین تحریروں میں ملی جماعتوں کے ارباب حل وعقد،  ملت کے درد مندوں ،  صاحب حیثیت عام مسلمانوں کی توجہ اس جانب مبذول کراتے ہوئے لکھا تھا کہ مسلمان بھیڑ چال چلتے ہیں – تعلیمی بیداری کا بیڑہ اٹھایا تو ہر جانب عصری تعلیم کے ادارے، مرکزی نوکر شاہی IAS, IPS اور ریاستی نوکر شاہی BPSC, JPSC وغیرہ میں کوالیفائی کرنے کے لئے کوچنگ سینٹرز، میڈیکل اور انجینئرنگ ‌NEET, JEE کے لئے کوچنگ سینٹرز کے علاوہ حافظ پلس ڈاکٹر اور حافظ پلس انجنیئر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ 

لیکن جیسا کہ اس سے قبل لکھا تھا کہ ملت کی حقیقی تعمیر و ترقی کے لئے ہمہ جہتی بیداری کی ضرورت ہے۔ لیکن افسوس مسلمانوں کی معیشت بہتر کرنا نہ جانے کیوں ہماری ترجیحات میں نہیں ہے۔ 

میں نے لکھا تھا کہ ملی تنظیمیں ریہڑی پٹری والوں کو قرض دے کر انہیں empower بااختیار بنائیں۔

بات اسکالر شپ کی ہو، حکومت کی قرض کی اسکیم کی ہو یا معاشی پسماندگی کے شکار لوگوں اور ضعیفوں کو ماہانہ سرکاری وظائف کی، مسلمان سب سے بڑی اقلیت ہونے کے باوجود ان سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھانے میں دوسری کمیونٹی سے بہت پیچھے رہ جاتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ بروقت معلومات کی کمی اور ان لائن اپلائی کرنے کے پروسیس سے عدم واقفیت ہوتی ہے ۔ 

ہماری کل ہند ملی تنظیمیں یہ کام آسانی سے  کر سکتی ہیں اس لئے کہ  ظاہر ہے کل ہند تنظیم کا مطلب ہے کہ ان کے دفاتر ملک کے ہر شہر و قصبے میں ہیں۔ وہ سرکاری اسکیموں کی مانیٹرنگ کرتے رہیں اور اپنی کمیونٹی کے مستحق اشخاص کو اپلائی کرنے میں مدد کریں۔ 

اگر یہ ملی تنظیمیں قرض نہیں دے سکتیں تو کم از کم حکومت کی طرف سے قرض کی پیشکش سے مستفید ہونے میں مستحقین کی مدد کریں۔ 

ریہڑی پٹری اور اسٹریٹ وینڈر کو قرض دینے کے لئے پردھان منتری یوجنا( حکومت کی اسکیم) کے تحت دس ہزار 10,000 روپے سے لے کر 50,000 روپے تک کا قرض دیا گیا۔ لیکن دی پرنٹ کے مطابق 32 لاکھ 26 ہزار مستفیدین میں صرف 331 مسلم مستفیدین ہیں۔ 

اس کی وجہ پوچھے جانے پر بتایا گیا کہ جتنے مسلم درخواست دہندگان ہیں ان میں اترپردیش میں صدفیصد کو ملا تو دوسری ریاستوں میں 60 سے 70 فیصد لوگوں کو ملا ۔

ظاہر ہے مسلم  درخواست دہندگان کی کمی کے باعث تناسب کا اتنا بڑا فرق ہے ! 

ایسا ہی کچھ حال اعلیٰ معیاری سرکاری اسکولوں جواہر نوودے ودیالیہ اور کیندریہ ودیالیہ میں مسلم بجے بچیوں کے داخلے کا ہے یہ وہ رہائشی سرکاری اسکول ہیں جہاں کوالیفائی کرنے والے بچے بچیوں کا سارا خرچ بوٹ پالش اور ٹوتھ برش اور پیسٹ تک سارا خرچ مرکزی حکومت اٹھاتی ہے‌۔ ان اسکولوں میں داخلہ کے لئے سخت امتحان انٹرنس ٹیسٹ ہوتا ہے۔ افسوس مالی اعتبار سے کمزور بچوں کے لئے ملی تنظیموں کی جانب سے کوچنگ کا نظم نہیں ہوتا ہے۔ 

آج کل نوودے ودیالیہ میں داخلہ کے لئے بیداری مہم بعض حضرات نے شروع کی ہے اور بتا رہے ہیں کہ رجسٹریشن کی آخری تاریخ دس اگست 2023  ہے لیکن کیا اس کے انٹرنس ٹیسٹ کی بابت بھی بیداری مہم چلی ! ۔  

ایسا ہی کچھ حال اسکالر شپ حاصل کرنے والوں کا ہے کہ دوسری اقلیتیں متحرک رہ کر بروقت اپلائی کرتی ہیں مگر مسلمان پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اور اب تو حکومت نے ہی اقلیتوں کے لیے اسکالرشپ میں کٹوتی کر دی ہے۔ 

ضرورت ہے ایک متحرک اور فعال شعبہ کی جو اس طرح کی سرکاری اسکیموں کی مانیٹرنگ کرے اور بروقت مستحق لوگوں کو نہ صرف مطلع کرے بلکہ استفادہ کرنے میں معاون ہو۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: