مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر مسلم پرسنل لا بورڈ
جسمانی لذت کی ایک اہم صورت صنف مخالف سے جسمانی لذت اُٹھانا ہے، جو مردو عورت ایک دوسرے سے حاصل کرتے ہیں، قدرت نے اس دنیا میں بھی مردو عورت کے ازدواجی رشتہ کے ذریعہ انسان کو یہ نعمت عطا فرمائی ہے، جو اس کے لئے وجہ سکون ہے، آخرت میں یہ نعمت بھی اسے زیادہ مکمل طور پر دی جائے گی، دنیا میں جو شوہر وبیوی ایک دوسرے کے شریک حیات ہوتے ہیں وہ آخرت میں زیادہ بہتر صورت اور قوت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے، عورت کے لئے چوں کہ ایک سے زیادہ شوہر کا ہونا عارکی اور بے حیائی کی بات ہے؛ اس لئے جنتی عورتوں کے لئے ان کا شوہر تو ایک ہی ہوگا؛ لیکن اس کی قوت مردمی بہت بڑھی ہوئی ہوگی، بعض حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مرد کو دنیا کے مردوں کے اعتبار سے سو مردوں کی طاقت دی جائے گی،(مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۹۲۸۹) اور مردوں کو ان کی دنیا کی بیوی کے علاوہ جنت کی ایک خاص نسوانی مخلوق ’’ حوریں‘‘ بھی دی جائیں گی، قرآن مجید میں تو صرف ایک حور کا ذکر آیا ہے: بحور عین (دخان:54) مگر امام بخاریؒ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہر جنتی کو دو حوریں عطا کی جائیں گی: لکل امرء منھم زوجتان من الحور العین (صحيح البخاري،حدیث نمبر: 3254)
بعض روایتوں میں ۷۲؍ حوروں کا اوربعض میں اس سے زیادہ کا بھی ذکر آیا ہے، یہ بخاری ومسلم کی روایات میں تو نہیں ہے؛ لیکن سنن ترمذی اور بعض دوسری کتب حدیث میں موجود ہیں؛ لیکن یہ روایتیں ایسے راویوں سے خالی نہیں ہیں، جن کا معتبر ہونا محدثین کے نزدیک مشکوک ہے، علامہ ابن قیمؒ نے لکھا ہے کہ صحیح احادیث میں دو ہی حوروں کا ذکر ہے، اس سے زیادہ کا نہیں ہے: والأحادیث الصحیحۃ انما فیھا أن لکل منھم زوجتین ولیس فی الصحیح زیادۃ علیٰ ذلک(ارشاد الساری شرح صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ : ۵؍ ۲۸۲)، تاہم اگر اس سے زیادہ حوریں بھی دی جائیں تو باعث تعجب نہیں ؛ کیوں کہ آخرت کے نظام کو دنیا کے نظام پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ، ایسا سوچنا ہاتھی کو چیونٹی پر قیاس کرنا ہوگا ۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اور ظالم کے ظلم کا مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جانا بہت بڑا عمل اور عظیم الشان عبادت ہے؛ لیکن ایسا نہیں ہے کہ حور کی بشارت صرف شہید ہونے والوں کو دی گئی ہے، یہ بشارت ہر نیکو کار جنتی کے لئے ہے؛ اس لئے جو تأثر اس وقت دیا جا رہا ہے کہ بہتر حوروں کی خوش خبری دے کر نوجوانوں کو یا کسی گروہ کو دہشت گردی پر اُکسایا جار ہا ہے،محض جھوٹ اور پروپیگنڈہ ہے، کسی بھی نیک عمل کی جزاء کے طور پر جو جنت کا حقدار ہوگا، اس کے حصہ میں حور جیسی نعمت بھی آسکتی ہے اس کے لئے شہید ہونا ضروری نہیں ؛ اس لئے سچائی یہ ہے کہ نہ دہشت گردی کا نام جہاد ہے اور نہ آخرت میں حور کا ملنا صرف جہاد کا ثواب ہے؛ البتہ یہ اعزاز واکرام آخرت کے لحاظ سے ہے، جہاں کا ماحول اور زندگی کا عیش وآرام اور نعمتوں کی فراوانی دنیاوی نعمتوں سے بالکل مختلف ہوگی۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنت اور اس کے انعام کا تصور صرف اسلام میںہی نہیںہے،بلکہ خود ہندو مذہب میں بھی ہے،اتھروید میں کئی مقامات پر سورگ کے لیے سکرتام،دیویاکم وغیرہ الفاظ استعمال ہوئے ہیں،نیز ویدوں میں بیشتر مقامات پر جہاں’’ سورگ‘‘ کا ذکر ہے اس سے پہلے لفظ’’ لوک‘‘ آیا ہے، جس کے معنیٰ مقام یا جہان کے ہیں، یعنی یہ کسی دوسرے جہان کا ذکر ہے، جہاں تمام خواہشات پوری کی جائیں گی اور انسان اپنی من پسند زندگی گزارے گا، چنانچہ بہشت اور اس کے انعامات کا تذکرہ ملاحظہ ہو:
’’تیسرے لوک (عالم) جہاں ہزاروں نہریں بہتی ہیں، طاقت اورناقابل شکست ہے، اولاد پیدا کرنے کے لیے بھیجے گئے چار مہربان دیویاں جن کا مقام بہشت کے نیچے ہے گھی سے ٹپکتے ہوئے آب حیات کا تحفہ لائیں‘‘۔ (رگوید منڈل۹سوکت ۴۴منتر۶)۔
’’ یقیناً آدمی وہاں جو چاہے گا حاصل کرے گا، بیویاں اپنے شوہروں سے چپکی رہیں گی اور ان کے آغوش میں لپٹی رہیں گی، دونوں محبت کی فرحت حاصل کریں گے‘‘۔(رگوید منڈل۱،سوکت۱۰۵،منتر۹)
نیز ہندو مذہب میںمذہبی جنگ میں مارے جانے والوں کے لئے ایک ہزار اپسرائیں (حوریں) دئیے جانے کا بھی ذکر موجود ہے؛ چنانچہ ایک مقام پہ کہا گیاہے:
ہزاروں اپسرائیں اس کےلیے جو کہ جنگ میں مارا جاتا ہے دوڑ کر یہ کہتی ہوئی آتی ہیں کہ آپ میرے خاوند بن جائیں۔(مہا بھارت، اشانتی پرومنڈل۱۲، باب ۹۸ ، اشلوک ۴۶ ، بحوالہ ہندو دھرم اور اسلام کا تقابلی مطالعہ، ازمحمد شارق سلیم)
اور آخرت میں متعدد بیویوں کا ملنا ہر گز قابل تعجب نہیں؛ کیوں کہ بعض مذاہب کے مطابق تو دنیا میں اچھے لوگوں کو یہ نعمت حاصل رہی ہے؛ چنانچہ مہابھارت میں ہے:
اس دنیا میں ظاہر ہوئے بھگوان واسو دیو کی سولہ ہزار ایک سو رانیاں ہوئیں، ان میں رکمنی، ستنہ بھاماں، جامونی، چاروہاسی وغیرہ آٹھ رانیاں مشہور ہوئی ۔ (مہا بھارت: ۴– ۱۵)
اسی طرح شری کرشن کی جو سات رانیاں تھیں، ان کے نام کالندی، متراوندا، سیتا، کام روپڑی، جاموروتی، روانی، مدراجنتابھدرا، استراجت منا، ستیہ بھامان خوبصورت بالیں والی لکشمن بہت خوبصورت تھی، ان کے علاوہ شری کرشن کی سولہ ہزار رانیاں تھیں (مہابھارت انش: ۵-۸۲)
فرانسیسی مؤرخ گستاؤلی بان نےہندوستان کے ایک راجہ کی اکیس بیویوں کا ذکر کیا ہے:
’’ ہندوستان میں راجاؤں کے لئے یہ رسم تھی کہ ان کی کل بیویاں ان کی لاش کے ساتھ جلادی جاتی تھیں، ابھی بھی اودے پور میں سنگرام سنگھ اور اس کی اکیس رانیوں کا مقبرہ موجود ہے، جو ۱۷۳۳ء میں راجہ کے ساتھ جلی تھیں‘‘ (تمدن ہند:۲۹۹)
اگر ہم ابراہیمی مذاہب کا جائزہ لیں تو بائبل میں حضرت داؤد علیہ السلام کی چھ بیویوں( احینوعم ،Ahimoam ، معکہ، Maachah، ابیجبل ، Abigil، ابیطال، Abital، میل بنت ساؤل، Michal، حجیت،Haggith، کا ذکر آیا ہے) (گنتی:۲۷:۸) اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے بارے میں تورات میں ہے کہ ان کی سات سو بیویاں اور تین سو حرم تھیں (سلاطین: ۱: ۱۱: ۳) عیسائیوں کے یہاں بھی ایک جنتی کے لئے دس بیویوں کا اشارہ ملتا ہے؛ چنانچہ انجیل میں ہے:
اس وقت آسمان کی بادشاہت ان دس کنواریوں کی مانند ہوگی، جو اپنی مشعلیں لے کر دولہا کے استقبال کے لئے نکلیں، (انجیل منی:۵۱:۱)
عیسائی مذہب چونکہ اپنی اصل کے اعتبار سے تورات ہی کی شریعت پر ہے؛اس لئے سمجھنا چاہئے کہ اصلا عیسائی مذہب میں بھی تعدد ازدواج کی اجازت ہے۔ تو جب دنیا میں محدود صلاحیت، محدود طاقت اور محدود گنجائش کے باوجود متعدد بیویوں کا ذکر مذاہب کی کتابوں میں اور مذاہب کے رہنماؤں کے لئے ملتا ہے اور سلاطین اور بادشاہوں کے لئے بہت ساری بیویوں کا تذکرہ ہے، تو اگر آخرت میں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کو ایک یا دو یا اس سے زیادہ حور عطا فرما دیں تو اس میں کون سی بات باعث تعجب اور لائق اعتراض ہے؟