۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ملک کی موجودہ صورتحال میں سیاست اور میڈیا کا منفی کردار!

از:   محمد عمر فراہی

اٹھائیس اگست کو یوپی سرکار کے بس کنڈکٹر موہت یادو کی خودکشی کے بعد قومی اخبارات نے سرخی لگائی کہ

"یوپی بس کنڈکٹر جس نے نماز کیلئے بس روکی اس نے خودکشی کر لی "

 جس طرح سے سوشل میڈیا پر اس خبر کو دو مسلمانوں کی نماز کو لیکر عنوان بنایا گیا پہلے ہم نے بھی یہی سمجھا کہ بس میں سوار مسلمان مسافر نے کنڈکٹر سے نماز ادا کرنے کے لئے بس روکنے کی درخواست کی اور بس کنڈکٹر نے رحم کھا کر بس روک دیا ۔

جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے ۔بس خاص طور سے مسلمان‌ مسافر کی نماز کے لئے نہیں رکی تھی ۔

یہ تین جون کا واقعہ لیکن تین مہینے بعد اٹھائیس اگست کو موہت یادو کی خودکشی پر جب اس کی بیوی نے یوپی بس ٹرانسپورٹ کے مینیجر پر موہت کو بار بار ذلیل کرنے کا الزام لگایا تو بجاۓ اس کے کہ بس ٹرانسپورٹ انتظامیہ سے سوال کیا جاتا یا اخبارات میں یہ سرخی لگائی جاتی کہ یوپی بس کنڈکٹر نے بس ٹرانسپورٹ مینیجر کی بدسلوکی سے تنگ آکر خود کشی کر لی لوگوں کی توجہ دو مسلمانوں کی نماز کی طرف موڑ دیا گیا ۔یہ بس بریلی سے دلی کے لئے جارہی تھی اور بریلی سے دلی کا سفر پانچ سے چھ گھنٹے کا ہے ۔لمبے سفر پر چلنے والی سبھی گاڑیاں بیچ میں کہیں نہ کہیں کسی ہوٹل یا چائے وغیرہ کی دکانوں پر رکتی ہی ہیں جسے انگلش میں Pitstop کہتے ۔اگر ہم National Herald کی نامہ نگار تانوی دلوی کی بات مانیں جو انہوں نے ڈرائیور کے پی سنگھ کے انٹرویو کے حوالے سے اسی Pitstop  کی بات لکھی ہے تو بس اپنے معمول کے مطابق کسی ایسے مقام پر رکی تھی جہاں مسافر اور ڈرائیور استنجا وغیرہ سے فارغ ہوتے ہیں یا اسی دوران جن مسافروں کو چاۓ وغیرہ پینا ہوتا ہے پی لیتے ہیں ۔دو مسلمانوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ یہ بس جب کوسمبی کے بازار  میں رکی تو انہوں نے ڈرائیور اور کنڈکٹر سے پوچھ لیا کہ کیا بس اتنی دیر رکے گی کہ وہ نماز پڑھ لیں ۔کنڈکٹر نے کہا کہ پڑھ لیں لیکن بس تین منٹ سے زیادہ نہیں رکے گی ۔تین منٹ کی یہ بات میڈیا میں کہی تو جارہی ہے جبکہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ کہیں پر بس رکے اور مسافر صرف تین منٹ میں اتر کر اپنی حاجت وغیرہ سے فارغ ہو لیں ۔تین منٹ تو بس سے اترنے اور واش روم تک جانے میں لگ جائیں گے اور اگر واش روم کے باہر ایک دو بندے قطار میں ہوۓ تو یہ وقفہ اور بھی بڑھ سکتا ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ بس کسی کھیت یا میدان کے پاس رکی رہے اور مسافر پائجامہ کھول کر open theater والا طریقہ اپنا لیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بار بس کہیں رکتی ہے تو اسے دوبارہ چلنے میں دس منٹ تو لگ ہی جانا ہے ۔اسی دس منٹ میں اگر دو مسلمانوں نے اپنی نماز ادا کر لی تو اس میں نہ ان مسلمان مسافروں کا قصور ہے اور نہ ہی اس کی سزا بس ڈرائیور اور بس کنڈکٹر کو دی جانی چائیے تھی مگر کیا کیا جاۓ مسئلہ بس کے سفر اور نماز کا نہیں ہے ۔مسئلہ سیاست کے سفر کا ہے جو اب زعفرانی رنگ میں رنگ چکا ہے ۔اس وقت ملک کے کونے کونے میں چانکیہ کے نمائندے کیمرہ لیکر کھڑے ہیں ۔وہ جہاں بھی مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے مذہبی عقیدے پر عمل کرتے ہوۓ دیکھتے ہیں اس کی ویڈیو شوٹنگ کر کے اسے غلط رخ دیکر عوام میں غلط فہمی پیدا کرنے کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی سیاست گرم رہے جیسا کہ پچھلے کچھ سالوں سے رام‌ نومی کا جلوس نکال کر مسجدوں پر پتھراؤ کیا جاتا ہے اور جب مسلمان بچے مزاحمت کرتے ہیں تو ان کے گھروں کو بلڈوزر کیا جا رہا ہے ۔

یہ بات کوئی یقین بھی کیسے کر سکتا ہے کہ اس وقت ملک میں جو ماحول ہے خاص طور سے یوپی کے یوگی راج میں کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی مسلمان کسی چلتی ہوئی بس کے ہندو ڈرائیور اور کنڈکٹر سے نماز کے لئے درخواست کرے اور بس  ڈرائیور اور کنڈکٹر آسانی سے مان جائیں ۔جبکہ ہم نے دیکھا ہے کہ اکثر گاؤں دیہات میں بس سے سفر کرتے ہوۓ مسافر اپنے بستی سے گزرتے ہوۓ اسی گاؤں کی سڑک پر ڈرائیور سے بس روکنے کی درخواست کرتے ہیں تو زیادہ تر ڈرائیوروں کا جواب ہوتا ہے کہ ہمیں بس اسٹاپ کے علاوہ کہیں اور بس کو روکنے کا اختیار نہیں ہے ۔اب یہ الگ بات ہے کہ کنڈکٹر کا ہاتھ پہلے سے گرم کر دیا جاۓ تو وہ کہیں بھی روک سکتا ہے ۔

دراصل موہت یادو کی خودکشی کے بعد اس کی بیوی نے بس ٹرانسپورٹ مینیجر پر بدسلوکی کا الزام لگایا ہے کہ وہ موہت کو فون کرکے ذلیل کرتا تھا ۔یہ بھی کہنا ہے کہ وہ بے روزگاری کی وجہ سے مایوسی اور پریشانی کا شکار تھا جس کی وجہ سے مرنے کا فیصلہ کر لیا ۔

یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ٹرانسپورٹ مینیجر کی پہلے سے ہی موہت یادو اور ڈرائیور سے کوئی خلش رہی ہو یا وہ راستے کی آمدنی ایمانداری سے اس مینیجر کے ہاتھ پر نہ رکھتے رہے ہوں اور اس نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ ڈرائیور اور کنڈکٹر دونوں کو معطل کردیا ۔

اس کے برعکس سچائی یہ ہے کہ یو پی میں قانون اور قاعدہ ہے کہاں ۔یوپی کی ٹرینیں گھنٹوں دیر سے چلتی ہیں ۔یہاں تک کہ میل ٹرینیں جب دیہات میں پہنچتی ہیں تو لوگ اسٹیشن سے پہلے زنجیر کھینچ کر اپنی بستی میں اتر جاتے ہیں لیکن انتظامیہ اس کے خلاف کبھی حرکت میں نہیں آتی ۔یوپی میں لمبے سفر کی جتنی بسیں چلتی ہیں انہیں راستے میں ہوٹل والے مفت چاۓ اور ناشتہ کرواتے ہیں جس کی وجہ سے ڈرائیور اور کنڈکٹر جان بوجھ کر ایسے ہوٹلوں پر بس روک دیتے ہیں تاکہ مسافروں سے ہوٹل کا کاروبار چلے ۔کیا یہ بات یوپی سرکاری بس ٹرانسپورٹ انتظامیہ کو نہیں معلوم ۔

بڑی عجیب سی بات ہے کہ  سوشل میڈیا پر کچھ روشن خیال مولویوں نے بھی حقیقت کو جانے بغیر اس معاملے میں اپنا ہی قصور ڈھونڈھ لیا ۔کچھ لوگ سر پیٹ رہے تھے کہ ہاۓ رے وہ مسلمان جن کی نماز موہت یادو کی موت کا سبب بن گئی ۔کیا ضرورت تھی ان مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی ۔کیا یہ اپنے گھر آ کر نہیں پڑھ سکتے تھے ! کچھ لوگ تبصرہ کر رہے تھے کہ یقینا یہ تبلیغی جماعت والے رہے ہوں گے ۔مطلب سلفی ، ندوی اور دیگر مکتب فکر کے لوگوں کے ماتھے پر لمبا گھٹا اور چہرے پر لمبی داڑھی نہیں ہوتی ؟ 

کیا یہ نماز کو سنجیدگی سے نہیں لیتے !

 سوال سرکاروں کی نااہلی اور نکمے پن پر اٹھائیں کہ انہوں نے سونے کی چڑیا کو کتنا بدصورت بنا دیا ہے کہ جن مسلمانوں کی نماز اور جہاد کی بنیاد پر ملک آزاد ہوا آج انہیں مسلمانوں کو نماز کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے !!

آخر بھارتی سیاستدانوں کی گندی سیاست کے سفر کا انجام کیا ہوگا ۔افسوس کہ سیاستدانوں کی اس گندی سیاست میں میڈیا کا اپنا کردار بھی مشتبہ ہے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: