محمد علم اللہ، نئی دہلی
مغربی اور یورپی شوز اور فلموں میں کسی بچے کے ساتھ زیادتی کے مناظر کو اس طرح فلمایا جاتا ہے کہ اس سے یہ تاثر ملے کہ بچے دنیا کی سب سے قیمتی شے ہیں (اور ہیں بھی)۔ان کے ساتھ زیادتی ناقابل معافی ہے۔شوز میں بھی کسی بچے کی بیماری،کامیابی یا محرومی پر آنسو پونچھتی خواتین کو فوکس کیا جاتا ہے۔مقصد یہی اجاگر کرنا ہوتا ہے کہ مغرب کس قدر حساس ہے؟لیکن اب یہ واضح ہوچکا ہے کہ یہ سب بکواس ہے۔جھوٹ ہے۔بناوٹ ہے۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو فلسطینی بچوں کے حق میں مغرب سے آواز اٹھتی۔ جس بڑی تعداد میں روزانہ بچے شہید ہورہے ہیں اور ان کی تصاویر سامنے آرہی ہیں، اس پر جنگ مزید جاری رکھنے کے مشورے مغرب اور امریکہ سے نہیں آتے۔ یہ الفاظ معروف ناول نگار اقبال حسن آزاد کے ہیں، جو انھوں نے اپنی فیس بک وال پر لکھا ہے۔
اب ذرا امریکی کانگریس میں واحد فلسطینی نژاد رشیدہ طلیب کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں، جنھوں نے امریکی ایوان نمائندگان میں اپنی تقریر کے دوران غزہ میں اسرائیلی مظالم پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ہم خاموش نہیں رہیں گے۔ ایوان کے فلور پر تقریر کے دوران انھوں نے امریکی قانون سازوں سے جنگ بندی کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا ’’فلسطینی اور اسرائیلی بچوں کی چیخیں مجھ سے مختلف نہیں ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ فلسطینیوں کی چیخیں آپ سب سے مختلف کیوں ہیں۔ ہم اپنی مشترکہ انسانیت کو نہیں کھو سکتے، جناب صدر!‘‘ طلیب کے سخت تبصرے نے امریکی ڈیموکریٹس کی طرف سے اس کے فلسطینی حامی موقف کی مذمت کرنے کی کوششوں کے جواب کے طور پر بھی کام کیا۔
حالانکہ اس معاملے پر اظہار رائے کی آزادی کو دبانا عام ہو گیا ہے، صحافیوں کو برطرفیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ماہرین تعلیم کو دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور غزہ کے بچوں کو نشانہ بنانے کے خلاف وکالت کرنے والوں کے لیے بلیک لسٹنگ ایک رجحان کے طور پر ابھر رہا ہے۔ غزہ میں ڈیڑھ ماہ سے زائد عرصے سے اندھا دھند اسرائیل کی طرف سے بمباری جاری ہے، جس کے نتیجے میں 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر خواتین اور بچے شامل ہیں۔
غزہ میں نوآبادیاتی آباد کار فوج کے ظلم و ستم کے پیش نظر نہ صرف فلسطینی بچوں سے جینے کا حق چھین لیا گیا ہے بلکہ مغربی دنیا میں اسی نوآبادیاتی آباد کار نظریے کی توسیع سے اظہار رائے، پریس اور بولنے کی آزادی بھی سلب ہو گئی ہے۔ ان پابندیوں کے باوجود، سوشل میڈیا پر ایک خوفناک حقیقت عیاں ہوئی ہے، جس میں غزہ کے بچوں کے خلاف نسلی صفائی کے دستاویزات براہ راست سامنے آ رہے ہیں۔
بچوں کی چیخیں، جیسا کہ طلیب کہتی ہیں، نسل یا پس منظر سے قطع نظر، ایک جیسی ہیں۔ لہٰذا یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ ہر تنازعے میں تمام شہریوں کی زندگیوں کا تحفظ کیا جانا چاہیے۔ فلسطینی بچوں کو نشانہ بنانے والے جدید ترین اسلحے کے سامنے بین الاقوامی برادری کی بے حسی تاریخ کا ایک شرمناک باب ہے۔ بچوں کے ایک گروپ نے منگل کے روز غزہ میں الشفا ہسپتال کے سامنے ایک ’’پریس کانفرنس‘‘ میں کہا: ’’7 اکتوبر کے بعد سے، ہم پوری دنیا کے سامنے نسل کشی، قتل و غارت، نقل مکانی اور ہمارے سر پر بم گرنے کا نشانہ بن رہے ہیں۔‘‘
’’ہم بار بار بم باری کا سامنا کرنے کے بعد ایک محفوظ جگہ کی تلاش میں الشفا ہسپتال آئے تھے۔ ترجمان کے طور پر کردار ادا کرنے والے ایک ننھے بچے نے کہا: ’’ہم حیران تھے کہ الشفا ہسپتال کو نشانہ بنانے کے بعد ہمیں ایک بار پھر موت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہم بچوں کے طور پر چیخنے کے لیے آئے تھے، ہم آپ سب سے اپنی حفاظت کی اپیل کرتے ہیں۔ موت کو روکیں۔ ہم زندگی چاہتے ہیں۔ ہم امن چاہتے ہیں۔ ہم قاتلوں کے خلاف مقدمہ چلانا چاہتے ہیں۔ ہم دوا چاہتے ہیں۔ ہم کھانا چاہتے ہیں۔ ہم تعلیم چاہتے ہیں۔ ہم زندگی چاہتے ہیں۔‘‘
ان بچوں کی بات سن کر کوئی بھی حساس دل تڑپ اٹھے گا کہ ایک نسل مایوسی میں پروان چڑھ رہی ہے اور با اثر بالغوں کی جانب سے اسرائیل کے حملوں کو روکنے کے مطالبے کی افادیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔ غزہ میں، خاص طور پر بچوں کے مصائب کی ترجمانی کے لیے الفاظ بھی نہیں ہیں، یہ ہمیں اس بات پر غور و فکر کرنے پر اکساتی ہے کہ آیا یہ فلسطینیوں کو ان کی زمین سے منقطع کرنے کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے، جو اسرائیل کی جانب سے زیتون کے درختوں کی تباہی کی یاد دلاتا ہے، جو فلسطینیوں کی آبائی زمینوں سے جڑا ہوا ہے۔ ان عناصر کو تباہ کرکے جو کسی سرزمین کو گھر بناتے ہیں، آپ اس سرزمین کے مستقبل کو بھی تباہ کرتے ہیں۔
2014 میں فیس بک پر ایک متنازعہ پوسٹ میں کنیسیٹ ایلیٹ شیکڈ کے اس وقت کے رکن، (موصوف 2015 میں وزیر انصاف کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے تھے) نے آنجہانی اسرائیلی مصنف اوری الیٹزر کے ایک مضمون کا متن پوسٹ کیا، جس میں فلسطینی بچوں کوسنپولے یعنی سانپ کے بچے کہا گیا تھا۔ ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں:
’’وہ سب دشمن کے جنگجو ہیں اور ان کا خون ان سب کے سروں پر ہوگا۔ اب اس میں شہدا کی مائیں بھی شامل ہیں جو انھیں پھولوں اور بوسوں کے ساتھ جہنم میں بھیجتی ہیں۔ انھیں اپنے بیٹوں کی پیروی کرنی چاہیے، اس سے زیادہ منصفانہ کچھ نہیں ہوگا۔ انھیں جانا چاہیے، ان جسمانی گھروں سمیت، جن میں انھوں نے سانپ پال رکھے تھے۔ بصورت دیگر، وہاں مزید چھوٹے سانپ پالے جائیں گے۔‘‘
جب ایک سابق وزیر انصاف کی یہ ذہنیت ہے تو کسی دوسرے وزیر کے لیے غزہ کو ’ایک آپشن‘ کے طور پر دیکھنا تو عام سی بات ہو جاتی ہے۔ اسرائیل کے وزیر ورثہ امیچائی ایلیاہو نے حال ہی میں اسی قسم کی بات کہی۔ انتہائی دائیں بازو کی یہودی پاور پارٹی کے رکن ایلیاہو نے یہ تبصرہ ایک ریڈیو انٹرویو کے دوران ایک سوال کے جواب میں کیا تھا۔ ریڈیو کول برما کے انٹرویو میں کہا گیا کہ: ’’آپ کو توقع ہے کہ کل صبح ہم پورے غزہ پر کسی قسم کا جوہری بم گرا دیں گے، جس سے وہ تباہ ہو جائیں گے اور وہاں موجود ہر شخص کا خاتمہ ہو جائے گا۔‘‘ یہی ایک راستہ ہے، ایلیاہو نے جواب دیا۔
اس پورے معاملے پر عالمی طاقتوں نے جو رویہ اپنایا ہوا ہے، اس سے ایسا نہیں لگتا کہ یہ آگ اتنی جلد ٹھنڈی ہو جائے گی جو اسرائیل نے لگائی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر طاقتور ترین قومیں بھی اس آگ کو بجھانے میں ناکام ہو گئیں تو غزہ کے مظلوم بچوں کی وکالت کون کرے گا؟ کیا قتل یا بے گھر ہونا ہی ان کا واحد اختیار ہے؟ کیا امریکہ، جو اسرائیل کا پرزور حامی ہے، انسانی خدشات کو دور کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گا یا نہیں، یہ ایک بات ہے۔ تاہم اس اندیشے سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ فلسطینی بچوں کے خلاف تل ابیب کی پرتشدد پالیسی آنے والے دنوں میں بائیڈن انتظامیہ کے لیے ایک سیاسی بوجھ نہ بن جائے۔
دنیا اگر ایک تاریخی اور اخلاقی ذمہ داری پوری کرنا چاہتی ہے تو انھیں فلسطینی بچوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے فوری طور پر جنگ بندی کوشش کرنی چاہیے۔ بصورت دیگر اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے اور ظالموں کو اس کے انجام سے دو چار ہونا ہی ہوگا۔
ترکیہ کے ایک معروف انگریزی روزنامے اینی شفق میں ایرسن سیلک نے 23 اکتوبر 2023 کو ’صلیبی جنگیں اور اسلامی فوج‘ کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں بجا طور پر لکھا ہے: ’’اسرائیل نے عیسائی مغرب کے ساتھ مل کر مسلمانوں کے خلاف مذہبی جنگ شروع کر دی ہے۔ وہ اس راستے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کیونکہ ان کی تمام ترغیب، ہمت اور قتل کرنے کی خواہش ان مذاہب سے آتی ہے جن کو انھوں نے خراب کیا ہے۔ ایسی قوت جس کی آنکھیں بند ہوں، صرف طاقت سے ہی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ انسانی حقوق اور خاص طور پر بچوں کے لیے جن حقوق اور اختیارات کی بات مغرب اور اس کے حواری کرتے رہے ہیں، وہ محض ایک دکھاوا ہے اور فلسطین میں سب سے زیادہ بچوں کو ہی شہید کیا جا رہا ہے۔
اسلامی ممالک ایک مشترکہ فوجی قوت تشکیل دیں، اس وقت اس کی روک تھام کا سب سے اہم یہی آپشن ہے۔ کوئی ٹھوس قدم اٹھائے بغیر اور روک تھام کی پالیسی پر عمل درآمد کیے بغیر، اگلا یلغار کا مرحلہ اور بھی بڑا ہوگا۔