مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی،نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
سماجی برائیوں میں ایک بڑی بُرائی چغل خوری ہے، شریعت کی نظر میں یہ گناہ کبیرہ ہے، اسے عربی میں ھمزہ، قتات اور نمیمہ نیز چغل خور کو ہماز اور نمام کہتے ہیں، کسی کی بات اس شخص کو یاجماعت کو نقصان پہونچانے، فساد وبگاڑ پیدا کرنے کی غرض سے دوسروں تک پہونچانا چغل خوری ہے، امام نووی نے شرح مسلم میں یہی تعریف کی ہے، قرآن کریم میں ایسے لوگوں کو ھماز کہا گیا ہے، اللہ رب العزت نے ایسے لوگوں کے بارے میں سورۃھمزۃ اتاری ہے، احیاء العلوم (۳/۲۹۱) میں امام غزالی نے بھی ھمزہ کے معنی چغل خور ذکر کیا ہے، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ نے ھُمَزَۃ اور لُمَزَۃ کا ترجمہ طعنہ دینے اور عیب چننے والے سے کیا ہے، حضرت مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے اس آیت کے معارف ومسائل میں لکھا ہے کہ ھُمَزَۃ اور لُمَزَۃ چند معانی کے لئے استعمال ہوئے ہیں، اکثر مفسرین نے جس کو اختیار کیا ہے وہ یہ ہے کہ ھُمَزَۃ کے معنیٰ غیبت یعنی کسی کے پیٹھ پیچھے اس کے عیوب کا تذکرہ کرنا ہے، چغلی میں بھی عموماً پیٹھ پیچھے عیوب کا تذکرہ ہوتا ہے، اس لئے کئی مفسرین نے ھُمِزۃ کا ترجمہ چغل خوری سے کیا ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ چغل خور جنت میں نہیں داخل ہوگا(بخاری شریف:۴/۵۱۱، حدیث نمبر۶۰۶) مسند احمد کی ایک روایت ہے کہ انتہائی بدترین لوگ وہ ہیں جو چغلی کھاتے ہیں اور دوستوں میں جدائی کراتے ہیں،الترغیب والترہیب (۳/۵۲۳، حدیث نمبر:۰۱) میں چغل خور اور پاکباز لوگوں پر عیب لگانے والے کا حشر کتوں کی شکل میں ہونے کی بات بھی کہی گئی ہے۔
غیبت اور نمیمہ بعض اعتبار سے متحد المعنی ہیں اور بعض اعتبار سے مغائر، حافظ ابن حجرؒ نے ترجیح، مغایرت کو دیا ہے اور منطقی اصطلاح میں دونوں میں نسبت عموم وخصوص من وجہ کی بیان کی ہے، ان کے نزدیک کسی کے شخصی احوال کو فساد وبگاڑ پیدا کرنے کی نیت سے بغیر اس کی رضامندی کے ذکر کرنا چغل خوری ہے، جس کے بارے میں بات کہی جارہی ہے اس کا اس بات سے باخبر ہونا ضروری نہیں ہے اور غیبت پیٹھ پیچھے کسی کے عیب کو بیان کرنا ہے، جس کے بیان میں اس شخص کی رضامندی شامل نہیں ہوتی، معلوم ہوا کہ چغل خوری میں فساد پھیلانے کا ارادہ ہوتا ہے، جبکہ غیبت میں ایسی کوئی قید نہیں ہوا کرتی غیبت میں جس کے بارے میں کیا جارہا ہے، اس کی غیبوبت بھی ضروری ہے (فتح الباری شرح صحیح البخاری)حضرت سلیمان بن داؤد نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت کی کہ بیٹا چغلی سے بچ کر رہنا، اس کی کاٹ تلوار سے بھی تیز ہے“ (روضۃ العقلاء، ص:۶۷۱)
غیبت اور چغل خوری میں نقطہئ اشتراک یہ بھی ہے کہ چغل خور اور غیبت کرنے والے جو بات دوسروں تک پہونچاتے ہیں، یہ اگر واقعتا اس شخص میں موجود ہے تو یہ غیبت اور چغل خوری کے ذیل میں آئے گا اور اگر اس شخص میں موجود نہیں ہے تو یہ تہمت کہلائے گا اور شریعت میں تہمت لگانے والوں کی سزا اسّی کوڑے مقرر کی گئی ہے۔
اللہ رب العزت نے سورہ قلم میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے شخص کی بات ماننے سے روکا ہے جو بہت قسمیں کھانے والا ہو، بے وقعت، طعنہ دینے والا ہو، چغلیاں لگاتا پھرتا ہو، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے چغل خوروں کے بارے میں صاف صاف ارشاد فرمایا کہ چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا، یہ روایت بخاری، مسلم اور الترغیب والترہیب میں مذکور ہے، ایک طویل حدیث میں مذکور ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر قبرستان سے ہوا، آپؐ نے دو قبر کی طرف اشارہ کرکے فرمایا کہ ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے، ایک کو اس لئے عذاب ہورہا ہے کہ وہ پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرے کو اس لئے کہ وہ اپنی زبان سے لوگوں کو تکلیف پہونچاتا تھا اور لوگوں کے درمیان چغلیاں کھاتا پھرتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ وعید بھی بیان کی کہ حسد کرنے والا، چغلی کھانے والا اور کاہن مجھ میں سے نہیں ہے، حضرت کعبؓ سے ایک روایت مروی ہے، جس میں انہوں نے بنی اسرائیل کا واقعہ نقل کیا ہے کہ قحط کے زمانہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کئی بار بارش کی دعا کی، لیکن دعا قبول نہیں کی، اللہ رب العزت نے حضرت موسیٰؑ کو وحی کیا کہ جب تک تمہارے درمیان چغل خور موجود ہے اور مسلسل چغلی کیے جارہا ہے، اس وقت تک تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی، اللہ نے اس شخص کا نام نہیں بتایا، لیکن سب نے مل کر توبہ کیا، پھر دعا قبول ہوئی، معلوم ہوا کہ چغل خوری ایسی خراب چیز ہے کہ دعا کی قبولیت میں بھی یہ مانع بن جاتی ہے، بعض بزرگوں نے لکھا ہے کہ چغل خور کا عمل شیطان کے عمل سے زیادہ نقصان پہونچانے والا ہے، اس لئے کہ شیطان بدعملی کا خیال دلوں میں ڈالتا ہے، جب کہ چغل خور آمنے سامنے پوری جرأت کے ساتھ اس عمل کا ارتکاب کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ چغل خوری کی حرمت اور اس کے گناہ کبیرہ ہونے پر علماء امت کا اجماع ہے۔
چغل خوری میں متعلقہ شخص کی بُرائی ضرر پہونچانے کی نیت سے ہوا کرتی ہے، چغلی کرنے والے، جس سے وہ چغلی کر رہا ہے، اپنے تئیں عقیدت ومحبت کا اظہار اور قربت کے حصول کے لئے ایسا کیا کرتا ہے، وہ اپنے مخدوم کے مقابل اس کو کمتر ثابت کرنا چاہتا ہے، بعض لوگوں کو اس قبیح عمل کے ارتکاب سے حظ نفس ہوتا ہے اور اسے یک گونہ مسرت ہوتی ہے، بعض لوگوں کا مقصود اس سے دو خاندان کو آپس میں لڑا دینا، میاں بیوی کو جھگڑوں کے لائن پر ڈال دینا ہوا کرتا ہے، ایسا شخص دو رخا ہوتا ہے، ہر ایک کے پاس دوسرے کو خوش کرنے کے لئے لگا بجھا کرتا ہے اور لڑائی کی آگ بھڑکا کر ہی دم لیتا ہے۔
میں نے چغل خوری کی نحوست کا کھلی آنکھوں مشاہدہ کیا ہے، ایک صاحب استاذ سے زیادہ قریب تھے، چنانچہ وہ دوسرے استاذ کی شکایت ان سے کیا کرتے تھے، وہ اپنے محبوب استاذ کی برتری کو اس عمل سے ثابت کرتے رہتے تھے، ہمارے درسی ساتھی تھے، صلاحیت بھی اوسط تھی، یہ عمل ان کا فراغت تک جاری رہا، جب تدریسی میدان میں داخل ہوئے تو عربی کی ابتدائی کتابوں کی تدریس بھی ان کے بس کی نہیں رہی، حالاں کہ اس قدر استعداد تو ضرور تھی کہ وسطیٰ درجات کی کتابیں وہ پڑھا سکتے تھے، لیکن چغل خوری کے اس مذموم عمل نے ان کی تدریسی خدمات میں رکاوٹ ڈالی، مواقع بہت ملے، لیکن ہرجگہ ناکامی رہی، بالآخر وہ اپنے خاندانی پیشہ کپڑا بننے میں لگ گئے اور یہی ان کا ذریعہ معاش قرار پایا۔
اور یہ واقعہ تو آپ سب نے سن ہی رکھا ہوگا کہ ایک شخص نے ایک ایسے غلام کو خرید لیا، جس کی عادت چغل خوری کی تھی، اس نے پہلے اس کی بیوی سے کہا کہ تمہارا شوہر دوسرا نکاح کرنا چاہتا ہے، بیوی بہت گھبرائی، اس نے غلام سے کہا کہ کوئی ترکیب بتاؤ، اس نے جھٹ یہ تجویز رکھ دی کہ اپنے شوہر کی داڑھی کے چند بال استرے سے مونڈ کر لاؤ، میں اس پر ترکیب کردوں گا، شوہر کے دل سے نکاح کا خیال ہی جاتا رہے گا، پھر غلام اس کے شوہر کے پاس گیا اور کہا کہ تمہاری بیوی تمہارے علاوہ کسی کو چاہتی ہے، آج رات اس کا ارادہ تمہیں ذبح کرنے کا ہے، وہ رات کو استرہ لے کر اس کام کے لئے تمہارے پاس جائے گی، تاکہ وہ تمہاری موت کے بعد اپنے محبوب سے نکاح کرسکے، شوہر نے اس کی بات کو سچ مان لیا، رات کو سونے کا بہانہ کرکے لیٹا رہا، عورت داڑھی کے بال مونڈنے استرہ لے کر پہونچی تو اسے پورا یقین ہوگیا اور اس نے اسی استرے سے بیوی کو ذبح کردیا، بیوی کے خاندان والوں نے شوہر کو قتل کردیا، دیکھا آپ نے، چغل خوری کی اس لعنت نے کس طرح خاندان کو تباہ کردیا۔
یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی آپ سے چغلی کرے تو آپ کو کیا کرنا چاہئے؟ علامہ ذہبی نے الکبائر میں لکھا ہے کہ ایسے لوگوں کی بات پر یقین نہ کیا جائے، اس لئے کہ چغل خور اس گناہ کبیرہ کی وجہ سے فاسق ہوجاتا ہے اور فاسق کی گواہی کسی شخص کے حق میں مقبول نہیں ہوا کرتی، چغل خور کو شرعی انداز میں تنبیہ کی جائے اور اسے بتایا جائے کہ یہ عمل جنت میں دخول سے محرومی کا بڑا سبب ہے، اپنی ذات کی حد تک اسے یہ بھی کرنا چاہئے کہ وہ متعلقہ شخص سے بدگمان نہ ہو اور نہ ہی چغل خور کی بتائی ہوئی باتوں کی تحقیق میں پڑے اور نہ ہی اسے دوسروں سے نقل کرے، اس لیے کہ جہاں اس نے دوسروں سے اسے نقل کیا وہ خود بھی چغل خور کے زمرے میں آجائے گا۔
اس لئے ہرمسلمان کو چغل خوری سے بچنا چاہئے، تاکہ سماج اور خاندان میں فتنہ وفساد برپا نہ ہو اور اب تک جو بے راہ روی ہوتی رہی اس کے لئے توبہ واستغفار کرنا چاہئے اور اگر چغل خوری کے نتیجے میں سماج یاخاندان کو کسی ضرر کا سامنا کرنا پڑا ہو تو اس کی تلافی کی عملی شکلوں پر بھی غور کرنا چاہئے اور آئندہ پورے طورپر اس سے احتراز کا عزم بالجزم کرنا چاہئے۔