بقلم: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى،آكسفورڈ، برطانیہ
سنہ1857م كے بعد جب بر صغير ميں برطانوى استعمار نے اپنا فوجى اور سياسى تسلط مستحكم كر ليا، اور ايك نيا تعليمى وتربيتى نظام رائج كيا تو يہاں كى تہذيب وثقافت ميں ايكـ ايسى تبديلى رو نما ہوئى جس كے لئے علماء ومشائخ تيار نہيں تهے، ان كى توجه كا مركز عيسائى مبلغين اور آريه سماج كى فتنه انگيزى تهى، بلكه خود ہمارے اندر جو مسلكى اختلافات تهے وه اہميت اختيار كرگئے اور ہم مناظره بازى اور ايكـ دوسرے كى ترديد ميں اس طرح لگ گئے كه فرقه واريت كى جڑيں ہمارے اندر راسخ سے راسخ تر ہوتى چلى گئيں۔
جس وقت ہم ان فتنوں كى سركوبى ميں دل وجان سے منہمك تهے اسى عرصه ميں جديد تہذيب نے اپنے بال وپر پهيلانا شروع كرديئے، اور اس نے ايكـ منظم فكر كى شكل اختيار كر لى، اسے ہم سيكولر فكر كہ سكتے ہيں، شروع ميں اس سيكولر فكر سے اعراض برتا گيا، پهر اس كا استہزا وتمسخر كيا گيا، تكفير وتفسيق كے ہتهياروں سے بهى اسے دفنانے كى كوشش كى گئى، دنيا كى تاريخ گواه ہے كه كبهى كسى فكر كو قتل نہيں كيا جا سكا، فكر كا جواب صرف ايكـ متبادل فكر ہى ہو سكتى ہے، اسى احساس كے تحت اسلامى فكر كى بنياد پڑى، شروع ميں يه فكر غير منظم تهى، پهر اس كى تنظيم كا كام شروع ہوا، اور سيكولر فكر كے مقابله ميں ايكـ مكمل اسلامى فكر وجود ميں آئى۔
اس مكمل اسلامى فكر كى تشكيل كرنے والوں ميں ايكـ قد آور شخصيت مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى كى تهى، آپ كى فكر جامعيت اور اعتدال سے متصف تهى، يعنى يه فكر اسلام كے علمى، ثقافتى اور تہذيبى تمام پہلوؤں پر محيط تهى، اور كسى نوع كے وقتى رد عمل اور انتہا پسندانه جذبه سے پاكـ تهى، اس نے جہاں علمى بنيادوں پر مغرب كى مادى اور لادينى گمراہيوں سے پرده اٹهايا، وہيں جديد تہذيب كى مثبت باتوں سے استفاده كى دعوت دى، مولانا ابو الحسن على ندوى سيكولر فكر كى خاميوں كے ناقد مبصر تهے، مگر اس كے اندر جو تنظيمى طاقت اور يكـ گونه علمى سنجيدگى تهى اس كے قدر دان تهے، وه فكر اسلامى كے حاملين ميں وہى تنظيمى طاقت اور وہى علمى سنجيدگى پيدا كرنا چاہتے تهے۔
مشرق سے ہو بيزار نه مغرب سے حذر كر
فطرت كا تقاضا ہے كه ہر شب كو سحر كر
آپ كى فكر ظاہر وباطن، اور جسم وروح كى جامع تهى، آپ نے يه نہيں كيا كه مغرب كے نظام كے مقابله ميں كوئى اسلامى نظام پيش كرديں، بلكه مغربى نظام كى خاميوں كا مطالعه كرنے كے بعد قرآن كريم اور پيغمبروں كى سيرت كى روشنى ميں ايكـ ايسا لائحۂ عمل تيار كيا جس كا امتياز ايمان، اعمال اور اخلاق كو ايكـ دوسرے كا معاون بنانا تها، جس ميں علم صحيح اور عقل سليم كو معيار حق تسليم كيا گيا تها، مختصر لفظوں ميں آپ كى فكر علم، ايمان، احسان اور دعوت وتحريكيت كى جامع تهى۔
در عشق غنچه ايم كه لرزد زباد صبح
در كار زندگى صفت سنگ خارا ايم
اس فكر ميں موجوده دور كے انسانوں كى بيماريوں كا درمان تها، اس ميں سوز وگداز اور بصيرت ومعرفت كا سامان تها، آپ كى فكر كى صحت آپ كى تصنيفات، اور دعوتى اور تحريكى كوششوں سے ظاہر ہوتى ہے، مختلف اہل علم نے آپ كى سوانح لكهكر آپ كى فكر كے خط وخال كو واضح كيا ہے، خود راقم نے آپ كى سيرت وفكر پر عربى اور اردو ميں متعدد كتابيں تصنيف كى ہيں۔
ضرورت ہے كه ہمارے عہد كے ہر مرحله ميں مولانا كے افكار كو نئے رنگ وآہنگ سے سامنے لايا جائے، اس سلسله ميں استاد محترم حضرت مولانا سيد محمد رابع حسنى ندوى رحمة الله عليه كى بعض كتابيں نقوش راه كى حيثيت ركهتى ہيں، ندوه كے موجوده ناظم مولانا سيد بلال حسنى صاحب نے اس كام كو قدرے آگے بڑهايا ہے۔
اسى سلسله كى ايكـ كڑى پيش نظر كتاب "شذرات ندوى” ہے، اس كے مرتب مولانا ضياء الحق عبد الاحد بسام صاحب اردو اور عربى دونوں زبانوں كے ماہر ہيں، ان دونوں زبانوں كے علاوه دوسرى كئى زبانوں سے بهى اچهى واقفيت ركهتے ہيں، وه جامعه دار العلوم كراچى سے فارغ ہيں، اور سر دست جامعه بنوريه عالميه، كراچى كے استاذ الأدب والبلاغة ہيں، موصوف كے اندر علمى متانت ہے، اور مدرسوں كے عام روايتى موضوعات سے بلند ہوكر سوچنے كا عزم وحوصلہ بهى۔
مولانا ضياء الحق صاحب نے مفكر اسلام كى كتابوں كا گہرائى سے مطالعه كيا ہے، وه ان كے شيدائى ہيں اور ان كى جامع ومعتدل فكر كے متبع ہيں، مفكر اسلام سے انہيں كس قدر عقيدت ہے اس كا اندازه ان كے اس بيان سے ہوتا ہے: "چشم فلكـ نے ايسى مرنجاں مرنج، با ہمه اور بے ہمه شخصيت يقينًا نہيں ديكهى ہوگى، بلا شبہ اگر تصوف كى تاريخ مرتب كى جائے تو ہميں سالكين كى قيادت كرتے يہى مرد قلندر نظر آئيں گے، اگر مجددين كى بات كى جائے تو آپ كا نام نامى سر فہرست ملے گا، اگر دعاة كے قافلے پر نظر دوڑائيں تو مشرق ومغرب، عرب وعجم ميں داعيوں كى رہنمائى كرتے نظر آئيں گے، اگر تصنيف وتاليف كى پر خار وادى ميں ديكهتے ہيں وہاں على مياں اپنى البيلى اور شاہكار وبے نظير تصانيف تهامے نظر آئيں گے …” (شذرات ندوى ص )
موصوف محترم نے اس سے پہلے (افكار ندوى) كے نام سے ايكـ كتاب تصنيف كى جسے علمى وفكرى حلقوں ميں غير معمولى مقبوليت حاصل ہوئى، ان كى تازه پيش كش "شذرات ندوى” ہے جس ميں مفكر اسلام كى تصنيفات كے شہ پارے جمع كئے گئے ہيں، يه مجموعه حكمت ودانائى اور تعليم وتربيت كے گران قدر اقتباسات پر مشتمل ہے، جنہيں مولانا كى تحريروں سے منتخب كيا گيا ہے، ان پر مناسب عنوان لگائے گئے ہيں، اور ہر اقتباس كا حواله ديديا گيا ہے، ان اقتباسات سے مفكر اسلام كى شخصيت، ان كے ماحول، مزاج اور فكر كو سمجهنے ميں مدد ملے گى، ساته ہى ان كے ذريعه علماء، جديد تعليميافته حضرات اور طلبه اور عام قارئين اسلامى فكر كے اہم پہلؤوں كا بخوبى ادراكـ كرسكيں گى اور اپنى فكرى وعلمى سطح كو بلند كرنے ميں كامياب ہوں گے۔
اس كتاب كے چند فكر انگيزاور ايمان افروز شہ پاروں كے عناوين بطور نمونه پيش ہيں: "پيدائشى اديب”، "ادبى ذوق”، "ذہانت”، "بے بركتى كا موجب”، "ولايت”، "جذبات انتقام”، "غلامى كى نحوست”، "قرآن وسنت ہى اعتبار كا ذخيره ہے”، "ترقى كے لئے مربى كى ضرورت”، "افتراق وغلو نقصان ده چيز”، "زيارت گاہيں اور قبرستان”، "اسلامى تہذيب”، "صرف كارناموں پر فخر كافى نہيں ہے”، وغيره۔
كتاب ميں اس طرح كے سيكڑوں عناوين ہيں، ان سے اس مجموعه كى اہميت كا اندازه ہوتا ہے، مولانا كى فكر كے تعارف كى يه كوشش بانداز نو ہے، اس كے لئے ہم مولانا ضياء الحق صاحب كے ممنون ہيں، اسے شائع كرنے كا فخر مجلس نشريات اسلام كراچى كو حاصل ہو رہا ہے، اميد ہے كه احيائے اسلام كے لئے متحركـ اصحاب دعوت وفكر اس كا خير مقدم كريں گے۔