ہتھیاروں کے سودا گر
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ
ہتھیار کے سودا گروں کو ہمیشہ ایک ایسی زمین کی تلاش رہتی ہے جو دفاعی اعتبار سے کمزور ہو اور جس کے پاس ہتھیار کی قلت ہو، یہ سودا گر پہلے ایسے ملکوں پر حملہ کراتے ہیں اور پھر دونوں ملکوں کی پیٹھ تھپتھپاکر ان ملکون کے ہاتھ ہتھیارفروخت کرتے ہیں، ایک ہوتی ہے مارکیٹنگ، جس کا مطلب ہوتا ہے کہ مارکیٹ بنایا جائے اور ایک ہوتا ہے مارکیٹ جو ضرورتوں کی تکمیل کے لیے ہوا کرتا ہے، مارکیٹنگ میں سامان پہلے بنتا ہے اور اس کی فروختگی کے لیے زمین بعد میں ہموار کی جاتی ہے، مارکیٹ میں ضرورت ہوتی ہے، تو سامان بنایا جاتا ہے، یہی وہ فارمولہ ہے، جس کو معاشیات کے ماہرین ”ضرورت ایجاد کی ماں“ ہے، سے تعبیر کرتے ہیں۔
ہتھیار بنانے والے ممالک ہتھیاروں کی مارکیٹنگ کرتے ہیں،ا نہیں اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا کہ ان ہتھیاروں سے بستیاں کس قدر تباہ ہوتی ہیں، بے گناہوں کا خون کس قدر بہتا ہے، زمینیں کس طرح بانجھ ہوجاتی ہیں، ان میں قوت نمو اور زر خیزی کا خاتمہ ہوجاتا ہے، بھوک، افلاس، دہشت اور وحشت بھری زندگی کس طرح گذاری جاتی ہے، انہیں اپنا دھندھا کرنا ہے اور اس کے لیے وہ کچھ بھی کر گذرنے سے باز نہیں آتے، نئے ہتھیاروں کی صلاحیت جانچنے کے لیے انہیں میدان کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ میدان بغیر جنگ کی آگ بھڑکائے انہیں مل نہیں سکتا، جہاں ان ہتھیاروں کا تجربہ کیا جا سکے، پھر جو ذخیرے ہتھیار کے جمع ہیں، بڑی مدت گذرنے کے بعد وہ ناکارے بھی ہو سکتے ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ جنگ چھیڑی جائے اور جمع شدہ ہتھیاروں کو بڑی قیمت پر جنگ زدہ ممالک کو فروخت کر دیا جائے، امریکہ، اسرائیل اور روس کو اپنے ہتھیاروں کے تجربہ کے لیے اس وقت دوآسان زمین مل گئی ہے، ایک یوکرین اور دوسرا غزہ اور جو حال دونوں ملکوں کا ہورہا ہے وہ اہل فکر ونظر سے پوشیدہ نہیں ہے، یہ ممالک ایسی جنگ کی تشکیل کرتے ہیں جو دوسروں کی زمین پر لڑی جا سکے، وہ اپنی دادا گیری جنگ کے ذریعہ دکھاتے رہتے ہیں، کمزورملکوں کے پاس عام تباہی کے ہتھیار اور ایٹم بم نہیں ہیں اس لیے آسانی سے وہ اس کی زد میں آجاتے ہیں، اگر فلسطین اور غزہ کے پاس بھی ایٹم بم ہوتا تو یہ اس پر حملے کی جرأت نہیں دکھاتے، آج شمالی کوریا اس لیے بچا ہوا ہے کہ سب جانتے ہیں کہ وہ عراق نہیں ہے اور اس کے پس نیوکلیائی ہتھیار ہے۔
اس وقت ہتھیار سپلائی کرنے والے جو دس ملک سر فہرست ہیں، ان میں علی الترتیب امریکہ، فرانس روس، چین، اٹلی، جرمنی، برطانیہ، اسپین، اسرائیل اور پولینڈ ہیں، امریکہ اب بھی پہلے نمبر پر ہے، اس نے 14515ملین یعنی 14ارب51کروڑ پچاس لاکھ ڈالر کے ہتھیار اکسپورٹ کیے، جب کہ باقی کے نو ملکوں نے مجموعی طر پر 14.9ملین یعنی 14ارب ترانوے کروڑ ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے، جو دس ممالک کو خاص کر ہتھیار سپلائی کرتے ہیں،جو ممالک ہتھیار بر آمد کرتے ہیں ان میں علی الترتیب ہندوستان، قطر، یوکرین، سعودی عرب، کویت، پاکستان، جاپان، ناروے، امریکہ اور اسرائیل ہیں، اس کا مطلب ہ کہ امریکہ اور اسرائیل ہتھیاروں کی در آمد اور بر آمد دونوں کام کرتے ہیں، امریکہ کی در آمد کا 14515ملین امریکی ڈالر ہے، جب کہ وہ ہتھیار 837ملین کا ہی بر آمد کرتا ہے، یہی حال اسرائیل کا ہے، اس کی در آمد اور بر آمد میں زیادہ فرق نہیں ہے، وہ 831ملین ڈالڑ کا ہتھیار سپلائی کرتا ہے، جب کہ دوسرے ملکوں سے 829ملین کے ہتھیار خریدتا ہے، اور آپ جانتے ہی ہیں کہ ایک ملین دس لاکھ کا ہوا کرتا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI)کی ۵/ دسمبر ۲۲۰۲ء کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کے ہتھیاروں کا کاروبار 2021میں 592ارب ڈالر تھا،جو 2020میں ہوئے ہتھیاروں کی خرید وفروخت کے مقابلے 1.9فی صد زائد تھی۔
امریکہ چاہتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کو ہتھیاروں کی سپلائی کی بڑی منڈی کے طور پر استعمال کرے، اس لیے مسلم ملکوں کو ہوشیار رہنا چاہیے، غزہ، شام، یمن اور لبنان ابھی ان کی زد میں ہیں دوسرے ممالک بھی دیر سویر تختہئ مشق بنیں گے، کیوں کہ یہ ممالک اسلحہ سازی بند نہیں کریں گے اور اسلحے بنیں گے تو استعمال اور تجربہ کے لیے زمین بھی چاہیے۔