Slide
Slide
Slide

یہ ہندو کوڈ بل ہے!!

تحریر: شکیل رشید

ایڈیٹر ممبئ اردو نیوز

_____________________

مجلس اتحادالمسلمین کے صدر ، ایم پی اسدالدین اویسی نے بات تو سچ ہی کہی ہے کہ اتراکھنڈ کی حکومت نے یہ جو یکساں سِول کوڈ ( یو سی سی ) کا بِل منظور کیا ہے ، یہ اپنی اصل میں ہندو کوڈ بِل ہے ۔ اگر اس بِل کا ، جو اب اتراکھنڈ اسمبلی میں منظوری کے بعد قانون بن جائے گا ، باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو صاف اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ ساری رسومات اور وہ سارے رواج جو ہندو فرقے میں رائج ہیں ، انہیں یو سی سی کا نام دے دیا گیا ہے ، اور کوشش ہے کہ قانون کی شکل میں اُسے مسلمانوں سمیت دیگر غیر ہندوؤں پر تھوپ دیا جائے ۔ اویسی نے ایک مثال یہ دی ہے کہ اس بِل میں ہندو غیر منقسم خاندانوں کو چھوا تک نہیں گیا ہے ، ان کا سیدھا سوال ہے کہ اگر یہ حکومت وراثت اور جانشینی کے تعلق سے یکساں قانون لاگو کرنا چاہتی ہے ، تو اس نے اس سے ہندوؤں کو کیوں باہر رکھا ہے ؟ ان کا ایک سوال اور ہے کہ اگر یہ قانون اتراکھنڈ ریاست کی اکثریتی آبادی پر لاگو نہیں ہوتا تو پھر یہ یکساں سول کوڈ کیسے ہو گیا ؟ ظاہر ہے کہ اِن سوالوں کے جواب دھامی حکومت کے پاس نہیں ہیں ، اور ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ یہ قوانین ریاست کی پوری آبادی پر لاگو کرنے کے لیے نہیں بنائے گیے ہیں ، یہ ہندوؤں کو اپنے رسومات اور رواجوں پر عمل کی پوری چھوٹ دیتے ہیں ، لیکن دیگر پر ہندو قوانین کو تھوپنے کا کام کرتے ہیں ۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے یو سی سی کی شدید طور پر مخالفت کی ہے ، اور یہ مخالفت صرف برائے مخالفت نہیں ہے ، جو باتیں بورڈ نے سامنے رکھی ہیں وہ مدلل ہیں ۔ مثلاً اس بِل میں لیو اِن ریلیشن شپ کی جو بات کی گئی ہے وہ دستور کے بنیادی حقوق کی دفعات 25، 26 اور 29 سے متصادم ہے کیونکہ یہ دفعات پہلے ہی فرد یا افراد کو مذہبی اور تمدنی آزادی کا تحفظ فراہم کرتی ہیں ، لیکن یہ قانون ان تمام حقوق کو نظرانداز کر دیتا ہے ۔ اس بِل میں وراثت کے تحت لڑکے اور لڑکی کے حصے کو برابر کر دیا گیا ہے ، جبکہ یہ شریعت کے قانونِ وراثت سے متصادم ہے ۔ غرضیکہ اس بِل میں کوشش کر کے ایسی باتیں شامل کی گئی ہیں جو ہندو فرقے کو کسی بھی طرح متاثر نہیں کرتیں مگر دیگر مذاہب پر ہندو قوانین کو تھوپنے کی پوری پوری کوشش کرتی ہیں ۔ اس بِل پر اپوزیشن کی طرف سے یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ اس سے چند آدی واسی قبائل کو مستثنیٰ کیوں رکھا گیا ہے ؟ یکساں سِول کوڈ لانے کا مقصد ساری آبادی کو یکساں قوانین کے تحت لانا ہے ، لیکن جب کچھ لوگ اس بِل سے مستثنیٰ کر دیے گیے ہیں ، تو وہ مقصد اپنے آپ فوت ہو گیا ، اور آئین سازوں نے یو سی سی کو لاگو کرنے کے لیے جو شرائط رکھی تھیں اُن شرائط کو نظرانداز کر دیا گیا ! آئین سازوں کا یہ کہنا تھا کہ یو سی سی اسی وقت لاگو کیا جائے جب اس کے لیے حالات سازگار ہوں اور سارے بھارتی اس پر متفق ہوں ، لیکن یہاں نہ جانے کتنے فرقے اور قبائل اور مذاہب کے ماننے والے ہیں جو یو سی سی کے خلاف ہیں ، اور بی جے پی کی ایک ریاستی حکومت اسے ناقص انداز میں لاکر ، اور اپنی طاقت کے بَل پر لاگو کرکے اپنی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے کہ اس نے اپنا ایک وعدہ پورا کر دیا ! یہ وعدہ پورا کرنا نہیں ہے ، یہ بدترین سیاسی مفاد پرستی ہے ، ایسی مفاد پرستی جو ملک کے مختلف مذاہب کے درمیان نفرت بڑھانے کا کام کرے گی ۔ اتراکھنڈ میں جو یو سی سی لایا گیا ہے وہ ایک تجربہ ہے ، اب اس پر لوگوں کے ردعمل کو دیکھ کر اسے سارے ملک میں لاگو کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے ، لیکن یہ یکساں سِول کوڈ قطعی نہیں ہے ، یہ ہندو کوڈ بِل ہے جیسا کہ اویسی نے کہا ہے ، اور ظاہر ہے کہ کوئی بھی مسلمان ، یا کوئی بھی غیر ہندو شادی اور طلاق و وراثت وغیرہ کے معاملات میں اپنے مذہبی طریقے چھوڑ کر بھلا کیوں ہندو کوڈ بِل پر عمل کرے گا ؟-

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: