مسلم سماج میں کتھا سننے کا چلن پاؤں پسار رہا ہے
✍️ مشتاق نوری
________________
آج زمین ہند پر اہل اسلام کو سیکڑوں مسائل کا سامنا ہے۔اپنے وجود و بقا کی جنگ بھی لڑنی ہے۔ایمان و عقیدے کا تحفظ بھی کرنا ہے۔عوام کا شرکیات و کفریات سے حد درجہ دوری رکھنے کے بجاۓ، بغل گیر ہونا ارباب کلاہ و ریش کے لیے ایک چیلنج ہے۔
ہندو کلچر اور ہندوانہ بو د باش سے قریب رہنے کے سبب عوام کے اندر کئی طرح کی مذہبی و ذہنی خرابیاں پنپ رہی ہیں۔بلکہ گھر کر چکی ہیں۔یہ سب منصوبہ بند طریقے سے کیا کرایا جا رہا ہے۔اسلامی تہذیب کو ڈی گریڈ کر کے ہندو سنسکرتی کو بحال کرنے کی پر زور کوشش ہو رہی ہے۔ہر ممکنہ چالیں چلی جا رہی ہیں۔باباؤں کے پنڈال سے لے کر ٹی وی سیریلز تک، پرنٹ میڈیا کے اخبارات سے لے کر الکٹرانک میڈیا شوز تک ہر جگہ ہندو رسومات و کلچر کو داخل کیا جا رہا ہے۔بالی ووڈ جسے سیکولر اسٹیٹس حاصل ہے اس نے بھی خود پر بھگوا رنگ چڑھا لیا ہے۔۹۰ کی دہائی سے پہلے گنگا جمنی تہذیب پر مشتمل فلمیں بنتی تھیں مگر اب ہر فلم میں ہندو تہذیب کو اعلی و عمدہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔مسلم تہذیب کو ناقص و منفی ثابت کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔بلکہ ہندو سنسکرتی کے مقابل اسلامی تہذیب کو پیش کیا ہی اس لیے جاتا ہے تاکہ اسے ڈی گریڈ کیا جا سکے۔اسے سماج کی صحت کے لیے مضر ثابت کیا جا سکے۔
آج دانشوران ملت و فقیہان امت کو اپنے سارے مباحث و مناظرات لپیٹ کر رکھ دینا چاہیے محض اس پر فوکس کرنا چاہیے کہ افراد ملت کی دینی نشو و نما کیسے ممکن ہو۔ان کی مذہبی شناخت کیسے بحال رہے۔ان کے اندر ایمان و اسلام کیسے راسخ ہو۔وہ کفر و شرک کے جملہ عوامل و عوارض سے کیسے نفرت کریں۔
ہر اگتے سورج کے ساتھ نت نئے طرز کا فتنہ سر اٹھاۓ کھڑا ملتا ہے۔سیکڑوں مسائل کیا کم تھے کہ اب ہندو باباؤں کے مذہبی سبھا میں جا کر مسلمانوں کا کتھا سننے کا فتنہ بڑھ رہا ہے۔ہزاروں لوگ مٹھ یا مندر کے پروگرام میں شامل ہو کر پروچن یا کتھا سن رہے ہیں۔یہ لوگ دین بیزار ہیں یا ضرورت سے زیادہ سیکولر یہ ایک الگ موضوع ہے۔انہیں نماز روزے میں ذہنی سکون نہیں ملتا تو لبرلزم کی بھوک مٹانے کے لیے مٹھوں مندروں تک پہنچ جاتے ہیں۔اس فتنے کے سد باب کے لیے ہمیں سنجیدہ ہونا پڑے گا۔آج یہ رجحان محض ایک زخم کی طرح ہے کل رستے رستے ناسور بن جاۓ گا س قدررطان کا روپ لے لے گا تب اس کا درماں ہو پانا ناممکن ہو جاۓ گا۔
سوچیے کہ حالات کس قدر سنگین موڑ تک آ گئے ہیں کہ
کتھا پنڈالوں میں جا کر بعض لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہمیں کتھا سن کر ذہنی سکون ملتا ہے۔ بعض کہتے ہیں اسلام اور ہندو دھرم میں کوئی فرق نہیں ہے۔بعض کتھا سن کر کہتے ہیں کہ میں بیک وقت اسلام اور ہندو دھرم دونوں کو فالو کرنا چاہتا ہوں۔بعض رادھے رادھے کرنا چاہتے ہیں۔ تو بعض رام بھکت ہونے کا فخریہ اظہار کرتے ہیں۔
یہ لوگ جو ہندو کتھا پروگرام میں شامل ہو رہے ہیں انہیں آپ ہلکے میں نہ لیں۔یہ بہت ہی خطرناک جراثیم کی طرح ہیں۔یہ کسی سڑے ہوۓ ٹماٹر کی طرح، آس پاس کے دین سے غافل لوگوں کو بھی متأثر کر دیں گے۔ان کا بھی ایمان و عقیدہ لے ڈوبیں گے۔اس خیال کے لوگ اسلام کے چہرے پر بد نما داغ ہیں۔اسلام کی خدائی حد بندیوں سے الگ دنیا بسانے کی ہوس ہے۔یہ ان کا صرف ذہنی دیوالیہ ہے۔
یہاں ہم خود سے ایک سوال کریں کہ آخر یہ لوگ ملک میں ہورہے ہزاروں جلسے اور خانقاہی اعراس چھوڑ کر ہندو کتھا سننے کے لیے مندر و مٹھ کی طرف کیوں کوچ کر رہے ہیں؟ اس فعل شنیع میں وہ اکیلے ذمے دار ہیں یا ہم بھی اس گناہ کے حصے دار ہیں؟
مذکورہ بالا سوال کے جواب میں غیر اسلامی رجحانات کے کئی اسباب گناۓ جا سکتے ہیں۔یہاں ایک تجربہ بیان کرتا ہوں شاید اس سے کچھ مسئلہ سمجھ میں آۓ۔
لگ بھگ ڈیڑھ مہینے پہلے میں اپنے بازار چوک (برنی ہاٹ)پر سبزی خریدنے گیا۔سبزی فروش جو میرے پڑوسی گاؤں (حسن پور) کا رہنے ہے ہندو ہے اس کا نام امیر چند ہے۔اس دن بازار کے پاس ہی جلسہ سج رہا تھا۔تو جلسے پر بات نکل گئی۔اس سبزی فروش نے کہا کہ "مولبی ساب آپ لوگ اپنے جلسوں میں آرام سے بھاشن کیوں نہیں دیتے ہیں؟ جو بھی آتا ہے بس چیخنا چلانا شروع کر دیتا ہے۔آگے کہنے لگا کہ دھرم کی بات ٹھہر ٹھہر کر کرنے سے سب کی سمجھ میں آۓ گی۔باہر س۶ سننے سے ایسا لگتا ہے کہ کسی سے جھگڑا کر رہے ہیں”
قسم سے میں اس سبزی فروش کی باتیں بس سنتا رہا۔میرے پاس ایسا کوئی جواب نہیں تھا۔میں ایسے مضامین پر لاجواب ہو کر بھی لاجواب تھا۔اس عامی ہندو کے حقیقت پسندانہ تجزیہ سے میں دیر تک سوچتا رہا۔جلسوں میں چیخنے چلانے کا احساس ایک ہندو سبزی فروش کو ہے مگر ہمارے مداری ڈمرو باز مولویوں کو نہیں ہے۔سلجھے ہوۓ پڑھے لکھے لوگ پہلے ہی جلسوں سے کٹ گئے تھے اب عام لوگ بھی کٹ کر کتھا کے پنڈالوں کی طرف جا رہے ہیں، ذمے دار کون ہے؟
اگر آپ کو اس فتنے کی نزاکت و منفی صورتحال کا احساس نہیں ہے تو یوٹیوب پر جائیں اور پچھلے پانچ مہینے کے کتھاؤں کا رکارڈ دیکھ لیں آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔ہم اپنے جلسوں میں عوام کو کیا دے رہے ہیں کچھ بھی نہیں۔اور وہ اپنے بھگوت کتھا، ہنومان چالیسا، و راماین لے کر ہمارے گھروں میں گھستے جا رہے ہیں۔