از:- ڈاکٹر تسلیم رحمانی
وقف ترمیمی ایکٹ ملک میں لاگو ہو چکا ہے ہرچندہ کہ سپریم کورٹ نے اس کی دو شقوں پر اگلی سنوائی تک پابندی لگا دی ہے لیکن بقیہ پورا قانون فی الحال نافذالعمل ہے کورٹ کے باہر قانون کی حمایت اور مخالفت میں تحریک جاری ہے اپنے تمام تنظیمی وسائل، میڈیا، سوشل میڈیا اور دیگر پروپیگنڈا ہتھیاروں کا بہترین استعمال کر رہا ہے۔ دوسری جانب اس کی مخالفت میں حزب اختلاف کی تمام پارٹیاں اور مسلم تنظیمیں بھی میدان میں متحرک ہیں۔ بل پاس ہونے سے قبل بھی میں نے مختلف میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا پر واضح کیا تھا کہ اس معاملے میں مسلم تنظیموں اور مسلم پرسنل لا بورڈ کو براہ راست سامنے نہیں آنا چاہیے بلکہ حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتوں کو اس کی جگہ عوامی تحریک کی قیادت کرنی چاہیے۔ مسلم تنظیمیں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس کی مخالفت کریں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قانون محض مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ ملک و ملت کے مروجہ دستور سےنبرد آزما ہے۔ حکمراں جماعت جو گزشتہ پارلیمانی انتخابات میں یہ عندیہ دیتی رہی ہے کہ 400 سے زائد سیٹیں ملیں تو دستور میں ترمیم کرنا آسان ہوگا مگر یہ خواب پورا نہیں ہو سکا اب حکمران جماعت براہ راست دستوری ترمیم کی متحمل تو ہو نہیں سکتی ایسے میں اس کے پاس متبادل یہی ہے کہ یکے بعد دیگرے سیکولر کردار کے حامل قوانین کو تبدیل کرتی رہے مسلمانوں سے متعلق قوانین کی تبدیلی کو اولیت دینے میں حکومت کو فائدہ یہ ہے کہ ایک طرف اس سے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت کا ماحول پیدا کرنا آسان ہوتا ہے جس سے انتخابات جیتنے کی امید بڑھ جاتی ہے اور دوسری طرف ہندوتوا کا ایجنڈا بھی قانون شکل لیتا رہتا ہے اور ملک کے دستور میں ترمیم کی ان کی خواہش بھی پوری ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں سے متعلق قوانین کی تبدیلی کے بعد ایک نظیر قائم ہو جائے گی جس سے دوسرے طبقات سے متعلق قوانین میں تبدیلی کی راہ بھی ہموار ہو جائے گی۔ اس لیے یہ خالصتا دستوری مسئلہ ہے جس سے سیاسی فوائد بھی حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ تو اگر یہ دستوری اور سیاسی مسئلہ ہے تو پھر سیاسی جماعتوں کا ہی میدان کارزار ہے مذہبی تنظیموں کا نہیں۔
بل پاس ہونے سے قبل بھی مسلم تنظیمیں ہی میدان میں اتریں اور کوشش کرتی رہیں کہ حکمراں اتحاد کے حلیف جنتا دل یو اور چندر بابو نائڈو پر دباؤ بنا سکیں مگر وہ ناکام رہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل اپنے سیاسی نفع و نقصان کا حساب کتاب ضرور لگاتی ہیں۔ مسلمانوں کے نفع و نقصان کا حساب بعدمیں کرتی ہیں۔ بہار میں جہاں اگلے چند ماہ میں انتخابات ہونے ہیں وہاں نتیش کمار کی سیاسی حالت اس وقت پتلی ہے۔ 2020 کے اسمبلی انتخابات میں اور پھر 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کی بھرپور کوشش تھی کہ حلیف ہونے کے باوجود نتیش کمار کو جس حد تک ممکن ہو نقصان پہنچا سکیں اورکسی حد تک اس میں کامیاب بھی رہی لیکن کمزور ہوجانے کے باوجود سیاسی توازن کے طور پر نتیش نے اپنا جلوہ برقرار رکھا اور بی جے پی کو مجبور ہونا پڑا کہ ریاست میں وہ ان کی قیادت کو برقرار رکھے۔ واضح رہے کہ آزاد بھارت کی تاریخ میں ابھی تک ایک بار بھی بی جے پی بہار میں اکیلے اپنے دم پر حکومت سازی نہیں کر سکی۔ اب 2025 میں بی جے پی کو قوی امید تھی کہ وہ حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی ایسے میں اگر نتیش کمار بل کی مخالفت کرتے تو انہیں این ڈی اے سے الگ ہونا پڑتا۔ اکیلے وہ انتخابات لڑکے کامیاب نہیں ہو سکتے اور جی ڈی یو کے ساتھ مل کر ایک بار پھر اتحاد قائم کریں تو اس بار تیجسوی یادو خود وزیر اعلی بننے پر اصرار کریں گے۔ اس حالت میں بھی جدیو کو سیاسی نقصان اٹھانا پڑتا اور غالبا پارٹی ٹوٹ جاتی جبکہ بل کی حمایت کرنے سے ان کو بہار کی سیاست میں نئی زندگی مل سکتی ہے کیونکہ بی جے پی نے ان کو مزید کمزور کرنے کی کوشش کی تو بعد از انتخابات مرکزی سرکار لڑکھڑا جائے گی جس کی بی جے پی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 12 ممبران پارلیمنٹ کی طاقت کے بل بوتے نتیش کمار ایک لمبے عرصے تک بی جے پی کو بلیک میل کر کے اپنا کام نکالتے رہیں گے۔ رہا سوال مسلمانوں کے ووٹ کا تو پچھلے انتخابات میں بھی ان کے پاس محض 7 فیصد مسلم ووٹ تھا۔ یہ ووٹ گھٹ کر اب زیادہ سے زیادہ دو فیصد رہ جائے گا اس طرح پانچ فیصد مسلم ووٹ کا نقصان ہونا ممکن ہے۔ مگر یہ ووٹ نتیش کمار دوسرے ذرائع سے حاصل کر سکتے ہیں ۔ مثلا گزشتہ اسمبلی انتخابات میں چراغ پاسوان کی پارٹی نے بی جے پی کی شہ پر جدیو کے تمام امیدواروں کے سامنے اپنے امیدوار کھڑے کر کے طاقت کے ساتھ الیکشن لڑا تھا اور جدیو کے بہت ووٹ کاٹ کر بہت سی سیٹوں پر انہیں ہرا دیا تھا۔ اس بار ایسا نہیں ہوگا کیوں کہ جد یو اور پاسوان مل کر انتخاب لڑیں گے۔ اسی طرح بی جے پی کا ووٹ بھی پولرائز ہوگا تو نتیش کمار کے امیدواروں کو فائدہ ہوگا۔ یہ وہ انتخابی ریاضی ہے جس کا ہر سیاسی جماعت اپنے اہم فیصلوں سے قبل تجزیہ کرتی ہے۔ نتیش کمار بہت کھیلے کودے سیاستدان ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ ان کا کس وقت کیا عمل ہونا چاہیے۔ اسی طرح چندر بابو نائڈو کو اگلے چار سال تک اقتدار کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے ویسے بھی آندھراپردیش میں مسلم ووٹ محض پانچ فیصد کے قریب ہے اور گزشتہ انتخاب میں اس کا بھی بیشتر حصہ انڈیا اتحاد کو ملا تھا۔ ایسے میں چندر بابو نائڈو مرکزی حکومت سے اپنے تعلقات کیوں خراب کریں گے، ان کی ریاست کو مرکز سے اچھے خاصے فنڈز بھی مل رہے ہیں اور ان کی پارٹی کے ممبران مرکزی وزارت میں بھی اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں، سرکار پر دباؤ بھی اچھا خاصا ہے۔ چار سال بعد جب انتخاب ہوگا اس وقت کی صورتحال کے مطابق کوئی بھی جذباتی مسئلہ کھڑا کر کے ایک بار پھر مسلم ووٹ کو مخاطب کرنے کی کوشش کر لیں گے، ٹوپی پہن کر جماعت کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے اور کھجور کھلادیں گے۔ اس کے علاوہ یہ بھی قابل غور ہے کہ اگر آج نتیش کمار اور نائڈو بی جے پی چھوڑ کر انڈیا اتحاد میں شامل ہو بھی جائیں تو بھی کانگرس ایک مستحکم حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جلد یا بدیر انڈیا اتحاد کی حکومت گر ہی جائے گی ان حالات میں دونوں حلیف پارٹیاں کوئی جوکھم اٹھانے کی اٹھانے کی حالت میں نہیں ہیں۔ ایسے میں مسلمانوں کا ان پارٹیوں سے شکوہ کناں ہونا سیاسی حقیقت
پسندی کے متضاد ہے۔ مسلم تنظیموں کی جانب سے ان رہنماؤں کے گرد طواف کرنا بھی غیر ضروری تھا۔ اس کے برعکس انڈیا اتحاد کی شریک جماعتوں کی قیادت کو نتیش کمار اور چندر بابو نائیڈو سے رابطہ کرنا چاہیے تھا اور ان کو یقین دہانی کرانی چاہیے تھی کہ بل کی مخالفت کی صورت میں ان کے سیاسی مفادات محفوظ رکھنے کے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ مثلا ممتا بنرجی کے چندر بابو نائڈو سے بہت اچھے تعلقات ہیں لیکن ہمیں ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ ممتا بنرجی نے اس مسئلے پر چندر بابونائیڈو کی حمایت حاصل کرنے کے لیے کوئی کوشش کی ہو۔ اسی طرح نتیش کمار سے بھی انڈیا اتحاد میں شامل بہت سی جماعتوں اور لیڈروں کے ذاتی طور پر اچھے تعلقات ہیں۔ تیجسوی یادو بھی پہل کر سکتے تھے کہ بل کے مخالفت کی صورت میں ان کے ساتھ سیاسی پیکج ڈیل کیا جاسکتا ہے مگر کسی نے ایسا نہیں کیا۔ مسلم تنظیموں کو اس سیاسی صورتحال کو سمجھنا چاہیے اور اپنی ہمنوا سیاسی جماعتوں کے توسط سے ہی ان ریاستی حکمرانوں سے رابطہ کرنا چاہیے تھا، لیکن شاید ان تنظیموں کے ’’ارباب حل و عقد‘‘ میں اپنی قوت کے تعلق سے کوئی خوش فہمی رہی ہے۔
اب قانون بن جانے کے بعد بھی اس صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہے حکومت کے ہر ممکن کوشش شروع سے رہی ہے کہ وہ اس دستوری اور سیاسی مسئلے کو فرقہ وارانہ مسئلے کی صورت میں ملک کے سامنے پیش کرے اور فرقہ ورانہ پولرائزیشن کا فائدہ اٹھائے۔ چنانچہ ٹی وی مباحثوں میں ہندو فریق اور مسلم فریق کی اصطلاح استعمال کی جا رہی ہے جبکہ اس کا ہندو فریق سے تو کوئی تعلق ہی نہیں ہے۔ اسی طرح مغربی بنگال کے قابل مذمت تشدد کے واقعات کو ’’وقف تشدد‘‘ کہا جا رہا ہے حالانکہ اس فساد کی تحقیق ہونی ابھی باقی ہے کہ اس کے اصل ذمہ داران کون ہیں۔ نیز ممتا بنرجی یہ اعلان کر چکی ہیں کہ وہ اس قانون کی مخالف ہیں اور وہ ایسے میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بنگال میں کوئی بھی احتجاج ٹی ایم سی کے بینر سے کیاجاتا تاکہ بی جے پی کو اس معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی جرات نہ ہوتی۔ لیکن حیرت انگیز امر یہ ہے کہ ریاست کی کسی بھی سیاسی جماعت نے اس احتجاج کی قیادت نہیں کی۔ اسی طرح ممتا بنرجی نے ائمہ اور موذنین کی میٹنگ تو بلائی جس میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذمہ داران بھی شریک ہوئے مگر بہتر ہوتا کہ وہ اپنی پارٹی کی میٹنگ بلاتیں اور بل کی مخالفت کا روڈ میپ تیار کرتیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیکولر سیاسی جماعتیں بھی معاملے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتیں۔ بی جے پی لیڈروں کے عوامی بیانات بھی یہی تاثر دے رہے ہیں گویا اوقاف کی جائیدادیں ہندو برادران سے لوٹی گئی جائیدادیں ہیں جو اب موجودہ سرکار ان کو واپس دلا رہی ہے۔ اس قسم کی نفرت انگیز تحریک کا خدشہ پہلے سے ہی تھا۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنے غیر مسلم لیڈران، کیڈر اور ارکان کے ساتھ عوامی تحریک چھیڑتیں تو اس میں مسلمان بھی برابر کے شریک ہوتے اور یقینا صورتحال مختلف ہوتی۔ پارلیمنٹ کے اندر حزب اختلاف کی جماعتوں نے جس اتحاد کے ساتھ اس قانون کی مخالفت کی اور جس طرح عدالتوں میں یہ جماعتیں فریق بن کر کھڑی ہوئی ہیں ایسے ہی عوامی تحریک کے قیادت کرنے میں بھی کیا حرج تھا۔ حالانکہ ہمارا ماننا ہے کہ پارلیمنٹ کی بحث میں بھی ان جماعتوں کے مقررین نے زیادہ تیاری کے ساتھ گفتگو نہیں کی، لیکن پھر بھی ایک مخالفت تو ایوان میں درج کی ہے۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ خود کو سیکولر کہنے والی سیاسی جماعتیں اب بھی ہندو رد عمل کے خوف سے آزاد نہیں ہو پائی ہیں۔ حالانکہ انتخابی نفع نقصان سے زیادہ ضرورت اس وقت دستور بچانے کی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جبکہ سپریم کورٹ کے رخ کے بعد حکمران جماعت ہزیمت محسوس کر رہی ہے اور اس کے سینیئر لیڈران بھی عدالت عظمی اور اس کے ججوں پر رکیک حملے کر رہے ہیں نیز سوشل میڈیا پر بھی ان کے ٹرول بہت بھدے طریقے سے ججوں پر تبصرے کر رہے ہیں سیکولر پارٹیوں کا جوش بڑھنا چاہیے اور بجائے اس کے کہ وہ مسلم تنظیموں اور بورڈ کے احتجاجی جلسوں میں نمائشی شرکت کریں اور مسلمانوں کے کندھوں پر بندوق رکھ کر داغیں، ضروری ہے کہ وہ خود سامنے آ کر اس احتجاج کی قیادت کریں تاکہ وقف کے نام پر بی جے پی کے فرقہ وارانہ ایجنڈے
کو بروئے کار لانے کی سازش کو ناکام بنایا جا سکے۔ مسلمانوں کی قیادت اور ان کے نام سے چلنے والی تنظیموں کی تنہا تحریک دراصل بی جے پی کے ایجنڈے کو ہی تقویت پہونچانے کے مترادف ہے۔