از:- سرفراز احمدقاسمی حیدرآباد
2014 میں آندھرا پردیش کی تقسیم ہوئی اور اس تقسیم کے نتیجے میں تلنگانہ نامی ملک کی ایک نئی ریاست کا اضافہ کیا گیا،جہاں مسلمانوں کی 15 تا 18 فیصد آبادی پائی جاتی ہے،مسلمانوں کی اکثریت پسماندگی کا شکار ہے،اقتدار کے حصول سے قبل کانگریس پارٹی نے اپنے انتخابی منشور میں ریاست کے مسلمانوں سے بے شمار وعدے کئے تھے لیکن برسر اقتدار آنے کے تقریبا 20 ماہ بعد بھی ریاست کی کانگریس حکومت اقلیتوں اور مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے اور رو بعمل لانے میں ناکام رہی ہے،اقلیتی طلبہ، اسکالرس،بے روز گار نوجوانوں،خواتین اور اقلیتوں کے دیگر طبقات کو ایسا لگتا ہے کہ کانگرس نے انہیں دھوکہ دیا ہے،2023 کے اسمبلی انتخابات سے قبل کانگرس نے اقلیتوں کو ہتھیلی میں جنت دکھائی تھی مگر تقریبا ڈیڑھ سال کا عرصہ گذر جانے اور دوسرا سالانہ بجٹ پیش کرنے سے چند دنوں قبل تک اقلیتوں کے مختلف پروگرامز کے لئے فنڈس کے اختصاص اور رقومات کی اجرائی میں کانگریس کے قول و فعل میں تضاد پایا جا رہا ہے،گذشتہ ماہ ایسوسی ایشن فارسوشیو، اکنامکس امپاورمنٹ آف مارجنلائزڈ(aseem) نامی ایک ادارے نے ریاست کے اقلیتوں اور مسلمانوں کے تئیں کانگریس حکومت میں عزم کی کمی کو بے نقاب کیا تھا،ایسوسی ایشن نے حکومت کی جانب سے اقلیتوں سے کئے گئے وعدوں اور یقین دہانیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک رپورٹ جاری کی،جس میں اقلیتوں کے تئیں حکومت کے عزم کی کمی کو اجاگر کیا گیا ہے،اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس پارٹی نے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ کے تحت ٹیوشن فیس کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا، کانگریس نے ایس سی، ایس ٹی، بی سی اور اقلیتی طبقات کے طلباء سے بقایا جات کے ساتھ ٹیوشن فیس کی ادائیگی کا وعدہ کیا تھا،پوسٹ میٹرک اسکالرشپ سے کے تحت ری ایمبرسمنٹ ٹیوشن فیس کی ادائیگی کے لئے مالیاتی سال 2020/21 میں 206 کروڑ روپے مختص کیے گئے جس میں سے 136.99 کروڑ روپے خرچ کئے گئے،اس طرح سال 2021/22 میں 206 کروڑ مختص کئے گئے جن میں 204.99 کروڑ روپے خرچ کئے گئے تا ہم 2024/25 میں کانگرس کے برسر اقتدار آنے کے بعد حکومت نے 300 کروڑ روپے مختص کئے مگر 225 کروڑ روپے ہی جاری کیے گئے ان میں سے بھی جنوری 2025 تک صرف 41.86 کروڑ روپے ہی خرچ کئے گئے،مالیاتی مسائل کی وجہ سے طلباء کو ناقابل بیان مصائب کا سامنا ہے کیونکہ کالجوں کی انتظامیہ ٹیوشن فیس کا حوالہ دیتے ہوئے طلباء کے اسناد کو روک رہے ہیں، اسی طرح چیف منسٹر اوورسیز اسکالرشپس اسکیم کی صورتحال بھی مختلف نہیں ہے،حکومت نے مالیاتی سال 2020/21 کے بجٹ میں اس اسکیم کے لئے62.53 کروڑ روپے الاٹ کئے تھے مگر 2024/25میں حکومت نے بجٹ میں 130 کروڑ تک اضافہ کردیا مگر 130 کروڑ روپے مختص کرنے کے باوجود صرف 97.5 کروڑ روپے ہی جاری کئے گئے،اس میں سے صرف 76.49 کروڑ روپے کی رقم سے استفادہ کیا جاچکاہے،سال 2020/21 میں اس اسکیم کے تحت 94.24 فیصد خرچ ہوئے،سال 2021/22 میں 97.93 خرچ ریکارڈ کیاگیا،مگر مالیاتی سال 2024/25 میں اس اسکیم کے مصارف کم ہوکر 58.84 فیصد رہ گیا،کانگرس دور حکومت میں فنڈس کے استعمال کی یہ واضح صورتحال رہی ہے،بی آر ایس اور کے سی آرحکومت نے غریب اقلیتی مسلم لڑکیوں کی شادیوں میں مالی امداد کے لئے اختراعی شادی مبارک اسکیم متعارف کرایا تھا،اس اسکیم کے تحت غریب لڑکیوں کی شادی کے موقع پر فی کس ایک لاکھ 11 ہزار800 روپے کی مالی امداد دی گئی،جس کا مقصد خاندانوں پر مالیاتی دباؤ کو کم کرنا تھا مگر اس اسکیم کے تحت فنڈس کی اجرائی میں تاخیر کی وجہ سے اہل خاندان کو مشکلات کا سامنا ہے،فنڈس کے حصول کی امید میں کئی خاندان فائنانسر سے سود پر قرض لے چکے ہیں،وقت پر قرض کی عدم ادائیگی پر انہیں فائنانسر کی ہراسانی کا سامنا ہے،اور انہیں ذلت بھی اٹھانی پڑ رہی ہے،مائنارٹیز ویلفیئر بجٹ اقلیتی بہبود کے بجٹ کو بڑھا کر 4 ہزار کروڑ روپے کرنے کے بلند و بانگ وعدے اور دعوے کئے گئے۔اقلیتی سب پلان متعارف کرانے کی بھی یقین دہانی کرائی گئی،ان وعدوں میں مسلم سب پلان کے علاوہ آبادی کی بنیاد پر مسلمانوں کی ترقی و بہبودی کو مدنظر رکھتے ہوئے بجٹ میں زیادہ سے زیادہ رقم مسلمانوں کے لیے مختص کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا۔جبکہ کانگرس حکومت نے اقلیتی بہبود کے لئے بجٹ میں 3 ہزار کروڑ روپے مختص کرنے کا اعلان کیا تھا،بینک سے مربوط سبسیڈی اسکیم کے لئے بجٹ میں 300 کروڑ روپے مختص کیے گئے مگر دسمبر 2024 تک ایک لاکھ روپے بھی خرچ نہیں کیے گئے،جبکہ تنخواہوں کی مد میں تین کروڑ روپے خرچ کیے گئے،بجٹ میں سب پلان کے لیے قانونی حمایت کا فقدان دیکھا گیا،جس کے نتیجے میں منظورہ فنڈز کے مقابلے میں رقومات خرچ نہیں کی جا سکیں۔
سابق میں چندر شیکھر راؤ حکومت کی جانب سے بھی مسلمانوں کو کئی ایک مراعات دئے جانے کے سنہرے اور سبز خواب دکھائے گئے تھے،یہاں تک کہ ریاستی اسمبلی میں مسلمانوں کو تحفظات کی فراہمی کے لیے قرارداد کی منظوری اور مرکزی حکومت کو تلنگانہ حکومت کی بے دام غلامی،نوٹ بندی،صدر،نائب صدر جمہوریہ کے علاوہ بالراست بی جے پی حکومت کی تائید اور مسلمانوں سے کیا ہوا 12 فیصد تحفظات کا وعدہ اور اسکی فراہمی، ریاست تمل ناڈو کے طرز پر شیڈول (3)9 کے تحت 50 فیصد سے تجاوز اور مرکزی حکومت کو منوانے کی ذمہ داری،کے چندر شیکھر راؤ نے لیتے ہوئے اپنے تمام اراکین پارلیمان کو بی جے پی کے حوالے کر دیا تھا اور جب تحفظات سے متعلق چندر شیکھر راؤ سے سوال کیا جانے لگا تو انہوں نے اس مسئلے کو برفدان کی نظر کردیا،جسکے نتیجے میں مسلمانوں کی اکثریت نے ان کے خلاف کانگریس کو اس لیے ترجیح دی کہ کانگریس پارٹی مسلمانوں کے دیرینہ اور حل طلب مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر اہمیت دیتے ہوئے اسے حل کرے گی لیکن کانگریس جہاں حصول اقتدار کے بعدتلنگانہ کے مسلمانوں سے کئے ہوئے وعدوں کو فراموش کر بیٹھی ہے اور جب ریاستی کابینہ میں مسلمانوں کی نمائندگی پر سوالات کئے جانے لگے تو ریونت ریڈی چیف منسٹر، کانگریس ہائی کمان کے اعلی کمان کی دہائی دیتے ہوئے خود ان کے دیے گئے بیانات،اعلانات اور انتخابی منشور میں مسلمانوں سے کیے گئے وعدوں کو نہ صرف بھلادیا بلکہ خود کو اس سے بری الذمہ کرلیاہے،اب تک تلنگانہ کی کانگریس حکومت کی جانب سے وعدوں کو پورا کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی اور نہ اسکے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔بلکہ اس کے برخلاف غیر ضروری طور پر مختلف مسائل کا شکار بناتے ہوئے مسلمانوں کو دیگر چیزوں میں الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کابینہ میں کسی مسلم کو شامل نہ کیے جانے سے مسلمانوں میں ایک غلط پیغام پہنچا ہے،کیا کانگریس بھی بی جے پی کے نقش قدم پر گامزن ہے؟ حالانکہ انتخابات سے قبل کانگریس نے مسلمانوں کی تائید و حمایت حاصل کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا تھا اور ان کا اعتماد حاصل کرنے مائنارٹیز ڈیکلریشن بھی جاری کیا تھا،جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ مسلمانوں نے ریاست میں کھل کر کانگریس پارٹی کا ساتھ دیا، مسلمانوں کو بڑی امید تھی کہ کانگرس کے اقتدار میں آنے کے بعد کم از کم دو مسلم وزراء کابینہ میں شامل ہوں گے، کیونکہ راہل گاندھی یہ کہا کرتے تھے کہ جس کی جتنی آبادی اس کی اتنی حصہ داری ہوگی لیکن ریاست میں کانگرس کے اقتدار حاصل کرنے کے بعد مسلمان بری طرح نظر انداز کئے جانے لگے ہیں،مسلمانوں سے کیا گیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا گیا۔
جبکہ کانگریس پارٹی کے دوسرے قائدین اور خود سی ایم ریونت ریڈی اس بات کا اعتراف کرتے رہے ہیں کہ ریاست میں کانگریس کو اقتدار پر لانے میں مسلمانوں نے کلیدی اور اہم کردار ادا کیا ہے،مسلمانوں کے بغیر کانگریس پارٹی کو تلنگانہ میں حکومت اور اقتدار نہیں مل سکتا تھا لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی حصہ داری کی بات نہیں کی جا رہی ہے اور نہ ان سے کئے گئے وعدوں کو عملی جامہ پہنایا جارہاہے،مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ناانصافی کانگریس حکومت کو مہنگی پڑ سکتی ہے،آنے والے دنوں میں کانگریس پارٹی کو اسکا خمیازہ بھگتنا پڑے گا،دس سال اقتدار میں رہنے کے بعد کے چندر شیکھر راؤ یہ سمجھنے لگے تھے کہ اب یہ کرسی اور اقتدار ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا،یہ اقتدار ہمیشہ ہمارے پاس رہے گا،انکا فرعونی انداز،غرور وتکبر اور ناانصافی و وعدہ خلافی بالآخر اسے لے ڈوبا اور وہ اقتدار سے ہاتھ دھوبیٹے،ریاست کی کانگریس حکومت بھی سابقہ حکومتوں کی انہی غلطیوں کو دہرانے کی کوشش کر رہی ہے،انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ اگر انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ دھوکے بازی،نا انصافی،وعدہ خلافی اورجملے بازی سے کام لیا تو جس طریقے سے بی آریس حکومت کو مسلمانوں نے اقتدار سے باہر کر دیا تھا،کانگریس کو بھی ایک دن یہ سودا مہنگا پڑے گا،کانگریس حکومت کو یہ یاد رکھنا ہوگا کہ اگر مسلمان اقتدار پر بٹھا سکتے ہیں تو پھر کرسی سے اتار بھی سکتے ہیں۔سوشل میڈیا پر یہ بحث ہورہی ہے کہ کیا مسلمان اس سماج کا حصہ نہیں ہے؟مسلمانوں کو ان کے حق کے حصول کے لیے جدوجہد نہیں کرنی چاہیے؟کیا مسلمان سیاسی جماعتوں کے رحم و کرم پر ہیں؟ یا وہ اپنے حقوق حاصل کرنا جانتے ہیں تلنگانہ ریاستی کابینہ میں مسلم وزیر کی عدم شمولیت پر سوشل میڈیا پر اس طرح کے تبصرے عام ہونے لگے ہیں اور کانگریس پارٹی کو راست نشانہ بناتے ہوئے یہ کہا جا رہا ہے کہ تلنگانہ میں حصول اقتدار کے لیے کانگریس نے بھاری تعداد میں مسلم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود مسلمانوں کو کابینہ میں شامل نہ کرتے ہوئے مسلمانوں کو دھوکہ دیا ہے۔
کانگرس نے تلنگانہ میں تشکیل حکومت کے 18 ماہ بعد کی گئی کابینہ کی دوسری توسیع کے دوران ریاست کے مسلمانوں کو کابینہ میں شامل نہ کرنے کے باوجود اسے سماجی انصاف سے تعبیر کرتے ہوئے مسلمانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کا کام کیا ہے،یو پی اے حکومت میں ڈاکٹر منموہن سنگھ نے ملک بھر میں مسلمانوں کی سماجی معاشی اور تعلیمی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی تھی اور جسٹس راجندر سچر کمیٹی نے جب اپنی رپورٹ پیش کی تو یہ رپورٹ ملک بھر میں مسلمانوں کی انکھیں کھولنے کے لیے کافی تھی کیونکہ جسٹس راجندر سچر نے اپنی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر ہے لیکن تلنگانہ میں کانگریس حکومت کی جانب سے مسلمانوں کو کابینہ میں شامل نہ کرتے ہوئے سماجی انصاف کا دعوی کیا جا رہا ہے جبکہ دلتوں کو ریاستی کابینہ میں بھرپور نمائندگی دی گئی ہے،ایکس پلیٹ فارم پر کیے گئے ایک تبصرے میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں کانگریس نے اپوزیشن بی آر ایس سے محض 2.05 فیصد زائد ووٹ حاصل کرتے ہوئے اقتدار حاصل کیا ہے اور زائد از 3.6 فیصد مسلم ووٹ جو کہ بی آر ایس سے کانگریس کی جانب منتقل ہوا جو مجموعی اعتبار سے ایک لاکھ 60 ہزار سے زائد ہیں،اس کے باوجود کانگرس حکومت نے مسلمانوں کو کابینہ میں جگہ فراہم نہیں کی اور یہ باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حکومت نے سماجی انصاف کیا ہے،سوال یہ بھی کیا جارہا ہے کہ تلنگانہ میں کانگریس کی حکومت ہے یا بی جے پی کی سرکار ہے؟ کیونکہ دونوں پارٹیاں مسلمانوں سے ناانصافیاں کررہی ہیں اور ان کے حقوق کو سلب کررہی ہیں، یہ بھی پوچھا جا رہا ہے کہ ریاست کے 50 لاکھ مسلمان اس سماج کا اور اس ملک کا حصہ ہیں یا نہیں؟کیا مسلمان ملک کی سیاسی پارٹیوں کے لئے صرف ووٹ بینک کی حیثیت رکھتے ہیں؟افسوسناک صورت حال یہ ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی پارٹیاں اور سیاسی لیڈران کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں لیکن اقتدار ملتے ہی ان کے تیور یکسر بدل جاتے ہیں،یہ لیڈران اور قائدین ووٹ مانگنے کے لیے دربدر کی ٹھوکریں ضرور کھاتے ہیں ہر ایک شخص خصوصا مسلمانوں کی دہلیز پر اپنی پیشانی رگڑتے دکھائی دیتاہے اور اقتدار ملتے ہی وہ اپنی اصلیت دکھانے لگتے ہیں،یہ خیال غلط نہیں ہے کہ ملک کی ساری پارٹیاں چاہے وہ کانگریس ہو،بی آر ایس ہو یا بی جے پی،تیلگو دیشم،جنتا دل یونائٹیڈ، ایس پی،بی ایس پی،آر جے ڈی یا پھر کوئی اور پارٹی ہو سب ایک ہی جیسی ہیں اور سب مسلمانوں کو پس پشت ڈال دیتی ہیں،سوال یہ بھی ہے کہ سیاسی پارٹیاں بار بار مسلمانوں کو دھوکہ دینے اور اپنے مقصد کے حصول میں کامیاب ہوجاتی ہیں اور مسلمان ہمیشہ دھوکہ کیوں کھاتا رہتاہے؟ آخر اس مسئلے کا حل کیا ہے کیوں مسلمان بار بار دھوکہ کھاتے ہیں جبکہ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاسکتا،پھر کیوں ہم بار بار ایک ہی سوراخ ڈسے جاتے ہیں، جھوٹے وعدے اور جھانسے میں آجا تے ہیں، کیا ہم مسلمانوں کو اس پر غور نہیں کرناچاہئے؟۔
تلنگانہ کابینہ میں مسلم وزیر کی عدم شمولیت پر اردو صحافتی ادارے بھی متحد نظرآرہے ہیں اور اردو صحافتی گوشوں سے مسلمانوں کے ساتھ اس ناانصافی کے متعلق آواز اٹھائی جانے لگی ہے اور کانگرس کے اس اقدام کی مذمت کی جانے لگی ہے،حکومت تلنگانہ کابینی توسیع پر اردو صحافتی گوشوں میں ناراضگی اخبارات میں نمایاں طورپر نظر آنے لگی ہے، کیونکہ کانگریس کے علاوہ کابینی وزراء کی جانب سے گزشتہ دنوں ہونے والے کابینہ کی توسیع کو سماجی انصاف قرار دیا جا رہا تھا، لیکن اردو ذرائع ابلاغ کی خبروں میں حکومت اور کانگریس کے دعوؤں پر استفسار کیا جا رہا ہے کہ آیا اگر یہ کانگریس کا سماجی انصاف ہے تو اس ‘سماجی انصاف’میں مسلمان کہاں ہیں اور مسلمانوں کی شمولیت کے بغیر یہ کیسا سماجی انصاف ہے اوریہ کس طرح ممکن ہے؟اردو صحافت جو ہمیشہ مسلمانوں کے مسائل پر ببانگ دہل آواز اٹھاتی رہی ہے،خواہ وہ مسلمانوں سے جڑا ہوا کوئی مسئلہ ہو،شہرحیدرآباد کی اردو صحافت کو اس بات کا اعزاز حاصل ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کو کوئی مسئلہ درپیش ہوا خواہ وہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی ہو یا پولیس کے مظالم ہوں یا پھر سرکاری محکمہ جات میں مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیاں ہوں اس طرح کی تمام حرکات کے خلاف اردو صحافتی اداروں نے ہمیشہ غیر جانبدارانہ آواز کو بلند کر کے حقائق کو پیش کیا اور ان تفصیلات کو منظر عام پر لانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے،جو یقنا قابل تعریف ہے، جون 2025 کو ریاستی کابینہ کی توسیع میں مسلم وزیر کو نہ شامل نہ کرنے پر اردو صحافتی اداروں نے متحدہ طور پر اس بات پر شدید ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ حکومت نے سماجی انصاف کا نعرہ دینے کے باوجود مسلمانوں کو نظر انداز کرنے کی پالیسی اختیار کی جوقابل مذمت ہے،مسلمانوں کو کابینہ میں شامل کرنے سے گریز پر اخبارات میں شائع خبروں میں انتخابات سے قبل مسلمانوں سے کئے گئے وعدوں پر عمل کے علاوہ دیگر امور کا بھی احاطہ کیا گیا ہے، اردو اخبارات میں شائع خبروں میں دلتوں اعلی ذات،قبائلی اور پسماندہ طبقات کے ساتھ سماجی انصاف اور ان کو کابینہ میں دی گئی جگہ کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ریاست میں مسلمانوں کے سوا دیگر تمام طبقات کے ساتھ سماجی انصاف کیا جانے لگا ہے لیکن مسلمان اس سماجی انصاف کا حصہ نہیں ہے۔ پھر یہ کیسا سماجی انصاف ہے؟