Slide
Slide
Slide
بات ’ اوپن ہائمر ‘ کے تنازعے کی

بات ’ اوپن ہائمر ‘ کے تنازعے کی

شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

ہالی ووڈ کے معروف فلمساز کرسٹوفر نولن اگر کرسٹوفر اسلام ہوتے ، تو اُن کی فلم ’ اوپن ہائمر ‘ میں مباشرت کے ایک سین میں ’ گیتا ‘ کا شلوک پڑھنے کے خلاف ، شاید اب تک ملک کے کئی سنیما گھروں پر مظاہرے ہو چکے ہوتے ، اور مسلمانوں کو ہندو دھرم کا دشمن کہہ کر خوب نفرت پھیلائی جا چکی ہوتی ! لیکن آج اُن سنستھاؤں ، اُن اندھ بھکتوں اوراُن دھرم گروؤں کی زبانیں بند ہیں ، جو فلم ’ پٹھان ‘ میں دیپکا پڈکون کی گیروے رنگ کی چڈّی کو اپنے دھرم پر حملہ قرار دے رہے ، اور دھمکا رہے تھے کہ شاہ رُخ خان اور دیپکا پڈکون کے سر تن سے جُدا کر دیں گے ۔ اتنا ہی نہیں ، بات بے بات فلموں پر پابندی لگانے کی دھمکیاں دینے والے مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا ، جو مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے مسمار کرنے کو ’ راج دھرم ‘ سمجھتے ہیں ، خاموش ہیں ۔

 فلم ’ پٹھان ‘ کے ساتھ اگر شاہ رُخ خان کا نام وابستہ نہ ہوتا ، تو نہ اُس فلم کے خلاف کوئی مظاہرہ ہوتا ، اور نہ ہی اُس فلم پر پابندی لگانے کے لیے آواز اٹھتی ، اِس کا ثبوت فلم ’ آدی پُرش ‘ ہے ، جس میں ہندوؤں کے بھگوان رام اور ماں سیتا کو اس قدر بے ڈھنگے پَن سے دکھایا گیا ہے ، اور رام بھکت ہنومان کے کردار کو اس قدر مضحکہ خیز بنا دیا گیا ہے ، کہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ۔ فلم کے خلاف آواز تو اٹھی ، لیکن نہ ہی سنیما ہالوں پر مظاہرے ہوئے اور نہ ہی فلمساز اور ہدایت کار کے سر تن سے جُدا کرنے کی دھمکی دی گئی ۔ ہاں ! لوگوں نے صبر اور ضبط سے کام لیا ، اور شور شرابہ کرنے کی بجائے فلم کو نہ دیکھنے کا فیصلہ کر کے اُسے فلاپ کر دیا ۔ یہ ایک اچھا فیصلہ تھا ، فلم ’ پٹھان ‘ کے وقت بھی ایسا فیصلہ کیا جا سکتا تھا ، ویسے ’ پٹھان ‘ کو کامیاب کرکے فلم بینوں نے خود ہی نفرت کے پرچارکوں کی ہوا نکال دی تھی ۔ ویسے کرسٹوفر نولن کی فلم میں واقعی میں ’ گیتا ‘ کے شلوک کے ساتھ فحش سین دکھایا گیا ہے ، اور اگر اس سین سے ہندوؤں کے مذہبی جذبات متاثر ہوتے ہیں ، تو وہ غلط نہیں ہیں ۔ مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر نے فلم کے متنازع منظر پر ، غم و غصے کا جو اظہار کیا ہے ، اور سینسر بورڈ کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا جواشارہ دیا ہے ، وہ اس میں حق بجانب ہیں ، اور حکومتِ ہند کے ’ انفارمیشن افسر ‘ ماہورکر نے ،کرسٹوفر نولن کو مکتوب لکھ کر جویہ مطالبہ کیا ہے ، کہ فلم دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی ریلیز ہوئی ہے ، وہاں وہاں سے مذکورہ متنازع منظر حذف کیا جائے ، تو وہ بھی اپنے مطالبے میں غلط نہیں ہیں ۔

یہ بھی پڑھیں:

لیکن سوال یہ ہے کہ جب کسی متنازع فلم پر  ایسا ہی مطالبہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی طرف سے کیا جاتا ہے ، اور یہ درخواست کی جاتی ہے کہ فلاں فلاں فلم میں فلاں فلاں منظر جذبات کو مجروح کرنے والا ہے ، تب کیوں انوراگ ٹھاکر کو بھی اور انفارمیشن افسر کو بھی ، ان کی شکایات پر کان دھرنے کی فرصت نہیں ملتی یا کیوں ان شکایتوں کو ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیا جاتا ہے ؟ کیوں یہ بہانہ کر دیا جاتا ہے کہ فلم کو سینسر بورڈ نے پاس کیا ہے ، ہم کچھ نہیں کر سکتے ؟ مثال کے طور پر ’ کیرالا اسٹوری ‘ اور ’ ۷۲ حوریں ‘ نام کی دو فلمیں لے لیں ، اِن فلموں میں مسلم اقلیت کو دہشت گرد کے طور پر پیش کیا گیا ہے ، ایک فلم کے ذریعے یہ پروپگنڈا کیا گیا ہے کہ مسلمان جو ہیں ، عورتوں کو اغوا کرکے ان کا برین واش کرتے ہیں ، اور ان سے دہشت گردی کرواتے ہیں ، اور دوسری فلم کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ مسلمان ۷۲ حوروں کے چکّر میں بے قصوروں کے خلاف جہاد کرتے ہیں ۔ یہ فلمیں خالص اسلامو فوبک تھیں ، لیکن سارا بھگوا پرچار تنتر ان فلموں کی تشہیر کر رہا تھا ، پی ایم مودی تو کرناٹک کے الیکشن میں ’ کیرالا اسٹوری ‘ کو الیکشن مہم کا حصہ بنائے ہوئے تھے ، عدالت نے کہہ دیا تھا کہ سینسر بورڈ فلموں کو پاس کر چکا ہے ، ان پر پابندی نہیں لگ سکتی ۔ قصور مسلمانوں کا بھی ہے ، انہیں چاہیے کہ ایسی کسی بھی فلم کے بائیکاٹ کا نہ نعرہ لگائیں نہ ہی پابندی کا مطالبہ کریں ، خاموش بیٹھیں اور وہ فلم دیکھنے سے باز رہیں ، پھر وہ دیکھیں گے کہ وہ فلم چند ہی روز میں تھیٹروں سے اتر گئی ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے احتجاج ہی سے ہندوؤں نےاحتجاج کا طریقہ سیکھا ہے ، ورنہ وہ پہلے کبھی احتجاج نہیں کرتے تھے ۔ یہ بات نصف صحیح ہے ، اور نصف غلط ۔ عام ہندوؤں نے نہیں ، بھگوا ٹولی نے احتجاج کا طریقہ اپنایا ہے ، بلکہ اسے ایک سیاسی آلے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا ہے ۔ اس کا توڑ ہے ؛ خاموشی ۔

 اس سارے معاملے پر غور کیا جائے تو کئی حقائق سامنے آتے ہیں ، مثلاً یہ کہ بھگوا ٹولی اور بھگو سیاست داں ایسی فلم کے خلاف شور مچاتے ہیں ، جس سے کسی مسلم اداکار ، فلمساز یا ہدایت کار کا نام وابستہ ہوتا ہے ، مقصد ہندو مسلم  نفرت کو ہوا دینا ہوتا ہے ، ایسی حالت میں شور مچانے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے ۔ دوسرا یہ کہ کچھ اسلامو فوبک فلمیں صرف پروپگنڈا اور سیاسی فائدے کے لیے بنائی جاتی ہیں ، ان کے خلاف شور مچا کر مسلمان یا دوسری اقلیتیں ، بھگوائیوں کو نفرت پھیلانے کا ، اور لوگوں کو فلم کی طرف متوجہ کرنے کا ذریعہ نہ بنیں ۔ مزید یہ کہ جو دھرم کا مذاق اور دھرم کی توہین کی بات کرتے ہیں ، ان کی بات بس ہوا ہی میں ہوتی ہے ۔ دیکھ لیں کہ ہالی ووڈ کی اس فلم ’ اوپن ہائمر ‘ سے ان کے جذبات بس وقتی مٹاثر لگتے ہیں ، کیونکہ یہ فلم ساری دنیا میں کمائی کے لحاظ سے ، اسی کے ساتھ ریلیز ہونے والی فلم ’ باربی ‘ کے مقابلے دوسرے نمبر پر ہے ، لیکن ہندوستان میں یہ ’ باربی ‘ کے مقابلے پہلے نمبر پر ہے ، لوگ اسے خوب دیکھ رہے ہیں ، کسی کے جذبات مجروح نہیں ہو رہے ہیں ۔ ممکن ہے کہ مذکورہ سین ڈالا ہی اس لیے گیا ہو ، اور یہ ذرا سی آواز اٹھائی ہی اس لیے گئی ہو کہ فلم دھوم سے چلے ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: