:عین الحق امینی قاسمی معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
پہلی قسط یہاں کلک کرکے پڑھیں: ترجمان امارت شرعیہ”ہفت روزہ نقیب” کے نناوے سال
دوسری قسط:
امارت شرعیہ کی تاریخ میں امیر شریعت رابع ؒ حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ صاحب حمانی بانی مسلم پرسنل لا بورڈ کا دور ،امارت شرعیہ کی نشاة ثانیہ کا دور کہلاتا ہے ،ان کا دور امارت ،جو 24 / مارچ 1957 سے شروع ہوکر 20/مارچ 1991 تک رہا ہے ،اس پوری مدت میں غیر معمولی بدلاؤ آیا ، بہت سے نئے شعبے قائم ہوئے ، امارت شرعیہ کو مستقل جگہ ملی، زمانے کے مزاج وضرورت سے ہم آہنگ عمارتیں تعمیر ہوئیں ،ہسپتال قائم ہوئے،دارالقضا کا نظام پھیلا ،نقباءاور قضاة حضرات کی تربیت ہوئی، کثرت سےمکاتب قائم ہوئے،بیت المال کا استحکام عمل میں آیا،ان جیسے کئی اہم کام ہوئے جس سے امارت کی ملک وبیرون ملک امتیازی شناخت قائم ہوئی ۔اسی طرح حضرت امیر شریعت رابع نے ہفتہ وار نقیب پر بھی خصوصی توجہ دی اور اس اردو جریدے کوقابل ذکر سطح پر معیار واعتبار بخشاگیا۔نقیب کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ پندرہ روزہ کی بجائے ہفت روزہ کیا گیا ،اس طرح 1962ء تک کبھی پندرہ روزہ اور کبھی ہفت روزہ کا سلسلہ بدستور جاری رہا ،مگر 1963ء سے تا ہنوز بطور "ہفت روزہ” شائع ہوتا چلا آرہا ہے ،دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ مدیر بدل گئے ،1962ءسے مولا نااصغرامام فلسفی مدیر بنائے گئے ،مولانا اصغر امام فلسفی کا تعلق کاروان صادق پورپٹنہ سے تھا ،فکری ،سیاسی اور سماجی مسائل میں انہیں بصیرت حاصل تھی،آزادی وطن کے لئے بھی ان کی قربانیاں بے مثال رہی ہیں،وہ ملک کی آزدی کے لئے جیل کی کال کوٹھری تک کو آباد کرچکے تھے،تقریبا ً پانچ سے چھ تک سال ان کی ادارت میں حسب سابق نقیب شائع ہوتا رہااس د رمیان امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی صاحب ؒ جب دارالعلوم دیو بندسے علمی فراغت حاصل کر لوٹ لوٹے توامیر شریعت رابع ؒنے انہیں بھی نقیب کی ادارت سے وابستہ کردیا ،یہ زمانہ اگر چہ آزادی کے بعد کا تھا ؛مگر مسلم مسائل کم وبیش ماقبل ازادی جیسے ہی تھے ،مولانا محمد ولی رحمانی ؒکی گرما گرم تحریریں نقیب میں شامل اشاعت ہورہی تھیں ،فلسفی صاحب زمانے کی گردشوں کو جھیلے ہوئے تھے ،اس لئے وہ بچتے بچاتے اور تحفظات کو راہ دے کر لکھنے کا ذہن رکھتے تھے، ایک وقت وہ بھی آیا جب انہوں نے امیر شریعت رابع ؒسے صاف صاف عرض کردیا کہ” مولانا محمد ولی رحمانی کی تحریروں سے مجھے ڈر لگ رہا ہے ،میں صاحب اولاد آدمی ہوں ،اس لئے یا تو انہیں اس سے روکیں یا پھر میں اس سے دست بردار ہوتا ہوں "حضرت امیر نے اس موقع سے مولانا محمد ولی رحمانی کو مونگیر بھیج دیا اور وہ جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر میں تدریسی خدمات پر مامور ہوگئے ،مگرانہیں ہر ہفتہ ایک مضمون لکھ کر بھجتے رہنے کا حکم بھی دیا، مضمون تو وہ بھیجتے رہے ،مگر مدیر اعلی کی "مصلحت آمیز” پالیسی سے وہ متفق نہیں تھے ،مولانا محمد ولی رحمانی میں خاندانی،تحریکی اور مخلوق کی لعنت وملامت سے پاک خون دوڑ رہا تھا ،وہ ہندو احیا پرستی اور فسادات کے ذریعے زمین پر تخریب کاری کرنے والوں کے آگے کسی بھی مصلحت آمیزی کے قائل نہیں تھے،آزادی کے بعد ہندستان میں بسنے والے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور موجودہ جھارکھنڈ کے دارالحکومت رانچی وگردونواح وغیرہ میں قتل وغارت گری پھیلاکر مسلم لاشوں پر کڑکیاں مارنے والے بلوائیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ،اس لئے مولانا محمد ولی رحمانی کے قلم میں بھی وہی جوش وجنون اور حساسیت قائم تھی جو ماضی میں مجاہدین آزادی علی برادران ،مولانا حامد الانصاری غازی ،مولانا آزاد اور مولانامفتی محمد عثمان غنی کے قلم کا رنگ ومزاج تھا،مولانا محمد ولی رحمانی جب تک نقیب کے لئے لکھتے رہے مرتب ،مدلل اور زمینی حقیقتوں سے ہم آہنگ ،سنگھیوں کے خلا ف ملک ودستور اور مسلمانوں کے حق میں پوری قوت سے لکھتے رہے۔ معاصرین سے بھی لکھواتے رہے اور حکومت وافسران کے لئے چیلنج بھی بنے رہے۔ایک موقع پر آپ نے آندولن کاری جے پرکاش نارائن کے ایک بیان کے خلاف مولانا انظر شاہ کشمیری سابق شیخ الحدیث وقف دارلعلوم دیوبند سے بھی مضمون لکھوایا تھا ،حضرت کشمیری ؒجو کہ ممتاز زبان قلم کے نہ صرف آبروتھے ؛بلکہ ملک کی صورت حال پر بھی وہ گہری نظر رکھتے تھے ،انہوں نے رب حقیقی سے دل درد مند فکر ارجمند پایا ہوا تھا ،اس لئے قلم میں بھی قومی جگر سوزی کی جھلکیاں صاف دیکھا ئی پڑتی تھیں۔ان کے مضمون کا عنوان تھا ” پوچھا جاسکتا ہے جے پرکاش نارائن سے“بعد کے دنو ں میں فلسفی صاحب کی ادارت میں ہی یہ مضمون بھی ہفت روزہ نقیب میں شائع ہوا ،بڑے پیمانے پراس کے اثرات محسوس کئے گئے۔
فلسفی صاحب کے دور ادارت میں مولانا رحمانی نے حضرت امیرشریعت رابع کے سامنے نقیب کے ماضی اور اس کے روشن کردار کو مضبوطی سے پیش کیااور اس کے موجودہ مصلحت پسندانہ نرم رویئے پر سخت تنقید کی ، تب امیر شریعت رابع نے فرمایاکہ کسی اچھے لکھنے والے کو تلاش کریں، مولانا رحمانی بنارس سے ایک منجھا ہوا صحافی شاہد رام نگری کو ڈھونڈ نکالنے میں کامیاب رہے ، شاہد صاحب1952ء سے اردو ” روزنامہ ساتھی“ کی ادارت کررہے تھے اور اسی اخبار سے اپنی بے باک صحافت کا آغاز کیا ہوا تھا ،اچھا لکھتے تھے ،مولانا رحمانی نے امیر شریعت رابع کی طلب پر نقیب کے لئے انہیں آمادہ بھی کر لیا ،اس طرح بنیادی امور کی نشاندہی کے بعد 4/ نومبر1967ء سے شاہد رام نگری صاحب ہفت روزہ نقیب کے لئے مدیر اعلی منتخب کر لئے گئے ، ان کا خاندانی نام گرچہ سراج الدین تھا ،مگر وہ اپنے قلمی نام سے ہی مشہور ہوئے ،وہ بنارس کے رام نگر سے وطنی تعلق رکھتے تھے ،ان کا خاندان اچھا خاصاپڑھا لکھا علمی خاندان تھا 30/ اکتوبر 1991 میں ان کا انتقال ہوا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔
جب 30/اکتوبر 1991کو شاہد رام نگری صاحب مالک حقیقی سے جا ملے تو اس کے بعد اعزازی طور پر ایک برس کے لئے خالد حسین صدیقی صاحب کی معاونت میں جناب محمود عالم صاحب کو ادارت کی ذمہ داری دی گئی،جسے انہوں نے احسن طریقے پر نبھایا ۔
نقیب کی اشاعت و تفصیلات کے حوالے سے اپنے ایک مضمون میں منیجر نقیب امارت شرعیہ پٹنہ مولانا محمد اسعد قاسمی صاحب لکھتے ہیں کہ : ”حضرت امیر شریعت رابع ؒکے زمانے میں دوسرا بڑا کام یہ ہوا کہ نقیب کے صفحات میں اضافہ کیا گیا ،پہلے 3/جمادی الآخر 1387ھ 9/ستمبر 1967 ءسے نقیب کے صفحات میں اضافہ کرکے آٹھ کے بجائے 16/صفحات کردیئے گئے ،اس وقت نقیب کا سالانہ زرتعاون6/ روپئے اور فی پرچے 12/پیسہ تھا ،اس وقت اس اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا تھا ،بلکہ ضرورتاً بڑھایا گیا تھا ،لیکن بعد میں ان صفحات کا بڑھا نا ناگزیر سمجھا گیا اور 8/ شعبا ن المعظم 1387ھ مطابق 11/ نومبر 1967ءسے نقیب کے صفحات میں اضافہ کر کے 16/ کردیا گیا ،جس کا اعلان 28/ اکتوبر 1967 ءکے شمارہ میں دیا گیا تھا ،جب صفحات میں اضافہ کیا گیا تو نقیب کے سالانہ زرتعاون میں 6/روپے کا اضافہ کر کے 12/ روپے اور فی پرچہ 12/پیسے کے بجائے 25/پیسے کردیا گیا ،16/صفحات کا سلسلہ 11/ جمادی الاولی 1393ھ مطابق 3/جون 1974 ءتک رہا ،اس کے بعد نقیب کے صفحات 12/کردیئے گئے اور12/صفحات کا سلسلہ 2/رجب المرجب 1442ھ مطابق 15/ فروری 2021ءتک رہا اور اب حضرت امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی (رح)کے حکم سے دوبارہ نقیب کے صفحات میں اضافہ کر کے 16/ کردیا گیا ہے،جس کا پہلا شمارہ ۹/رجب المرجب 1442ھ مطابق ۲۲/فروری 2021ءکو منظر عام پر آیا ۔تیسرا کام حضرت رحمة اللہ علیہ کے زمانے میں یہ ہوا کہ نقیب کو حکومت ہند سے باضابطہ طور پر رجسٹرڈ کرایا گیا ،جس کا نمبر (BIHURD-4136/61)ہے ، جو کہ نقیب کے آخری صفحہ پر دفتر کے پتہ کے ساتھ درج ہے، محفوظ شدہ کاغذات کے مطابق ” نقیب “ کا آر این آئی ((RNI نئی دہلی سے رجسٹریشن 1961ءمیں ہوا ؛لیکن یہ نمبر ”نقیب “ پر نہیں لکھا جاتا تھا،یہ نمبر نقیب پر ۵/اپریل 1982ءسے لکھا جانے لگا اور وہ سلسلہ آج تک قائم ہے“ مولانا محمد عثمان غنی ؒ کے بعد پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے محمد عارف صاحب طویل مدت تک رہے ،ان کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر20/ذی قعدہ 1376 ھ مطابق 20/جون 1957ءسے 28/صفر 1417ھ مطابق 15/جولائی 1994ءتک رہا، اس درمیان وہ اس جریدہ کو مختلف پریسوں سے چھپوا کر دفتر امارت شرعیہ سے شائع کرتے رہے،10/ربیع الثانی 1417ھ مطابق 26/اگست 1994 ءسے 25/ جولائی 2023 تک اس کام کی ذمہ داری مولانا سہیل احمد ندوی نائب ناظم امارت شرعیہ کے ذمہ تھی،پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے وہ بحسن وخوبی اس کام کو انجام دے رہے تھے“25/جولائی 2023 میں اچانک مولانا ندوی کے انتقال کے بعد سے پرنٹر پبلشر کے تعلق سے یقینی صورت حال کا علم راقم الحروف کو نہیں ہے ،البتہ جلد نمبر 63/73.شمارہ نمبر: 33/۔ 4/ستمبر 2023 کا مطبوعہ شمارہ میرے سامنے ہے ،اس میں پرنٹر پبلشر کی حیثیت سے ابھی بھی مولانا سہیل احمد ندوی مرحوم ہی اپنی جگہ پر برقرار ہیں ۔اپنا احساس یہ ہے کہ ان کو اب اس کام سے سبکدوش کردیا جانا چاہئے ۔فرحمہ اللہ رحمۃواسعہ
1991ء میں شاہد صاحب مرحوم کے گذرنے کے بعد 21 /دسمبر 1992ءکو سید عبد الرافع صاحب باضابطہ نقیب کے ایڈیٹر بنائے گئے،سید عبدالرافع صاحب ریاست بہار کے رہنے والے تھے، ذی علم آدمی تھے ،قدیم وجدید علوم کے سنگم کے طور پر ان کا قلم چلتا تھا ،ان کا شمار ملک کے ممتاز سنجیدہ صحافیوں میں ہوتا تھا ،ان کی اداریہ نگاری کئی جہتوں سے منفرد تھی ،وہ کم سخن زود فہم انسان تھے ،ایک طویل مدت تک انہوں نے نقیب کی ادارت کی ،اس درمیان وہ دیگر بڑے اخبارات کے لئے بھی لکھتے رہے ،ان کی تحریروں میں غور وفکر کی دعوت ،پیام وپیغام اور انسانی زندگی کوسنوارنےوالی باتیں اکثرہوتیں، انہوں نے اپنی صحافتی زندگی کا اغاز ” آزاد ہند “ نامی کولکاتا کے اردو اخبار سے کیاتھا ،تقریبا ً 24/برس تک نقیب کے ایڈیٹر رہ کر وہ 21/دسمبر 2015 کو سلطان گنج پٹنہ میں متاع جان، جان آفریں کے سپرد کرگئے۔
آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
(جاری)