نیا سال 2025: امت مسلمہ کے لیے پیغامِ عزم و تجدید
نیا سال 2025: امت مسلمہ کے لیے پیغامِ عزم و تجدید

نیا سال 2025: امت مسلمہ کے لیے پیغامِ عزم و تجدید از: محمد شہباز عالم مصباحی سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی، کوچ بہار، مغربی بنگال ــــــــــــــــــــــــــــ نیا سال اللہ رب العزت کی عطا کردہ ایک اور مہلت ہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو بہتر سمت میں لے جائیں اور اپنے اعمال کو اس کی رضا کے مطابق سنواریں۔ 2025 کا آغاز امت مسلمہ کے لیے ایک یاد دہانی ہے کہ وقت کی قدر کریں، اپنے ماضی کا جائزہ لیں، اور مستقبل کے لیے مضبوط ارادے باندھیں۔ وقت کی اہمیت: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وقت کی قسم کھائی ہے: […]

ہیپِّی نیو ایئر: مسیحی سال نو کی آمد کا جشن
ہیپِّی نیو ایئر: مسیحی سال نو کی آمد کا جشن

ہیپِّی نیو ایئر: مسیحی سال نو کی آمد کا جشن از: عارف حسین پورنوی ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ دسمبر کی۱ ۳؍ویں تاریخ کو سال کا آخری دن سمجھتے ہوئے نئے سال کی ابتدا کا جشن نہایت ہی دھوم دھام سے منایاجاتا ہے۔ جب رات کے ٹھیک ۱۲بجے گھڑی کی سوئیاں تاریخ میں تبدیلی کا اعلان کرتی ہیں تو ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا کے بڑے بڑے شہروںکے ہوٹلوں، کلبوں، شراب خانوں، شاپنگ ہالوں، اور تفریح گاہوں میں غول در غول لوگ جمع ہو کر کچھ دیر کے لیے اپنے سارے رنج وغم بھلا کر نئے سال کا پرتپاک استقبال کرتے ہیں، تقریبات منعقد […]

نئے سال کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟
نئے سال کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟

نئے سال کی منصوبہ بندی کیسے کریں؟ از: ڈاکٹر سلیم انصاری جھاپا، نیپال ــــــــــــــــــــــــــــــ سال 2024 اپنے اختتام کی جانب گامزن ہے اور سال 2025 کا آغاز ہونے والا ہے۔ یہ وقت ہمیں اپنی گذشتہ زندگی پر غور کرنے اور نئے سال کے لیے بہتر منصوبہ بندی کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ اس لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گذشتہ ایک سال کا محاسبہ کریں اور یہ دیکھیں کہ ہم نے کہاں کامیابیاں حاصل کیں اور کہاں بہتری کی گنجائش باقی ہے۔ اسی کے ساتھ، ہمیں نئے اہداف مقرر کرتے ہوئے اپنی دنیاوی اور دینی […]

نیک نیتی سے مطالعہ کریں ہوسکتا ہے غلط فہمیاں دور ہوجائیں !
نیک نیتی سے مطالعہ کریں ہوسکتا ہے غلط فہمیاں دور ہوجائیں !

نیک نیتی سے مطالعہ کریں ہوسکتا ہے غلط فہمیاں دور ہوجائیں ! از: جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی ____________________ دین اسلام دنیا کے تمام ادیان میں سب سے عظیم الشان اور سب سے باوقار دین ہے مذہب اسلام کے اندر ذرہ برابر بھی ناانصافی اور حق تلفی کی گنجائش نہیں ہے اور دہشت گردی و خونریزی کی بھی گنجائش نہیں ہے،، مذہب اسلام امن و سلامتی کا سرچشمہ ہے مہذب معاشرے میں حقوق نسواں کا تصور اسلام کی ہی دین ہے مذہب اسلام حقوق العباد کو بہت اہمیت دیتا ہے […]

previous arrow
next arrow

تازہ ترین پوسٹ

تعارف و تبصرہ

اداس موسم: تعارف و تجزیہ

انور آفاقی اردو شعر و ادب کے اس قبیل کی نمائندگی کرتے ہیں جہاں پرورشِ لوح و قلم عبادت سے...
Read More
خبریں

النور ٹائمز: علم و آگہی کے سفر کا آغاز

آج، 15 جنوری 2025 کو، علم، فکر، اور روشنی کی جانب ایک نئے سفر کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔...
Read More
شخصیات

حضرت واصف علی واصفؒ : تیری الفت نے محبت مری عادت کر دی

حضرت واصف علی واصفؒ میری پسندیدہ شخصیات میں سے ایک ہیں۔ میں نے واصف صاحب کو دیکھا نہیں ہے، صرف...
Read More
تعلیم و تربیت

لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ کی تباہی ہو یا پھر سعودی عرب میں طوفان اور ہم مسلمان !!

لاس اینجلس میں جنگلاتی آگ کی تباہی ہو یا پھر سعودی عرب میں طوفان اور ہم مسلمان !! ✍️ یحییٰ...
Read More
تعلیم و تربیت

مطالعہ معاشرتی حیثیت کا آئینہ دارِ

ہم ایک ایسے دور کا حصہ بن چکے ہیں، جہاں روز بدلتے حالات ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں،...
Read More

سیرت نبوی کا انقلابی پیغام

تحریر:  ڈاکٹر محمد طارق ایوبی

 ربیع الاول کی آمد سے دل و دماغ میں ہلچل پیدا ہو تو تعجب کیوں؟ اس مہینہ میںہی تو وہ آفتاب ہدایت طلوع ہوا تھا جس کی روشنی سے دنیا منور ہوئی تھی، وہ ابر رحمت سایہ فگن ہوا تھا جس کے آغوش میں سسکتی ہوئی انسانیت نے پناہ لی تھی، برسہا برس سے یہ زمین پیاسی تھی بلکہ بنجر ہو چکی تھی، اسی ماہ میں تو اس ابر کرم کا ورود مسعود ہوا جس کے انوار کی بارش سے انسانیت باغ باغ ہوگئی، ظلم وجور کی بساط لپیٹ دی گئی، خالق ومخلوق کے درمیان سے پردے اٹھا دیے گئے، ایک نئی تہذیب، نئے تمدن کی بنیاد ڈالی گئی، تحریک دعوت کو ایک زندہ تحریک کی حیثیت سے اس طرح متعارف کرایا گیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے جزیرۃ العرب شرک و بت پرستی سے پاک ہو گیا، بلکہ بہت جلد آنحضرت کی حیات طیبہ میں ہی مسلمانان عرب جزیرۃ العرب سے نکل کر تبوک میں رومیوں کی منظم فوج (Professional Army) سے ٹکرا گئے اور اس طرح دعوت اسلامی کی شعائیں دور تک پھیلتی چلی گئیں، اس غزوہ نبوی کی تاریخ اسلامی میں بڑی اہمیت ہے، قرآن مجید کی سورہ توبہ میں اس کا بڑے اہتمام و تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔ یہی وہ مہینہ تو تھا جس میں رحمۃ للعلمین کا ظہور قدسی ہوا، اسی ظہور کے باعث وہ معصوم کلیاں مسکرانے لگیں، جو کھلنے سے پہلے مسل دی جاتی تھیں، یتیموں اور بیواؤں کے کپکپاتے ہونٹ مسکراہٹ سے آشنا ہوئے، جزیرۃ العرب کا ذرہ ذرہ اپنی قسمت پر ناز کرنے لگا، کفر پر لزرہ طاری ہو گیا، قیصر وکسریٰ کے محلوں کے کنگورے ہلنے لگے، ایسا کیوں نہ ہوتا کہ تاجدار عالم، دستگیر بے نوا، امام بزم انبیاء سید والا نسب خاتم الرسل حضرت محمد ﷺ کی بعثت ہوئی تھی، آپ نے مضمحل دلوں کو تازگی بخشی، بیمار دماغوں کو نسخۂ شفا دیا، پژ مردہ انسانیت کو زندگی کی نوید سنائی، کبر ونخوت کو پیروں تلے رگڑ دیا، بزم حیات کے منتشر نظام کو یکسوئی عطا کی، دنیا کو حریت کے معانی سمجھائے، اخوت و مساوات کا ایسا چلن ہوا کہ غلامی کی فضا کانپ اٹھی، سرکار دوعالم کی آمد سے مظلوموں کی آہیں اور ستم رسیدوں کے نالے نغمۂ طرب میں بدل گئے، دنیا جمہوریت کے اصولوں سے واقف ہوئی، مختصر یہ کہ آپ کی بعثت سے جھوٹے خداؤں کا فریب مٹنے لگا اور ظالم وجابر کفار کے ماتھے پر پسینہ آنے لگا، آج بھی دنیا کو پھر اسی نبی امیؐ کی سیرت کے ان جلووں کی ضرورت ہے جن کی جہاں آرائی وجہاں بانی، کرم فرمائی وغمگساری، مسیحائی و عدل پروری محقق ومدلل اور حقیقت مجسم ہے۔

 ربیع الاول آتا ہے اور چلا جاتاہے، سیرت کے جلسے ہوتے ہیں، میلاد کی محفلیں سجتی ہیں، واقعات سیرت سنے اور سنائے جاتے ہیں، مضامین لکھے اور پڑھے جاتے ہیں، لیکن کیا نقوش سیرت ہماری آنکھوں میں ہیں، کیا قدم قدم پر ہم سیرت سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں، کیا ہم نے سیرت کے پیغام کو عام کیا ہے، کیا ہم نے رسول ﷺ کے آفاقی وانسانی وعالمی پیغام کو اس حیثیت سے متعارف کرایا ہے جس حیثیت سے آپ نے خود اپنا تعارف کرایا تھا، کیا ہم نے آپ کی خانگی، معاشرتی، اجتماعی، سیاسی اور علمی زندگی سے دنیا بھر کے انسانوں کو آشنا ہونے کا موقع دیا، کیا ہم نے حضور پاک کی سیرت کو اس حیثیت سے پڑھا کہ وہ معلم بھی تھے اور امام بھی، قاضی بھی تھے اور حاکم بھی، سیاستداں بھی تھے اور عبادت گزار بھی، عرب وعجم کے مالک ہونے کی بشارت بھی دیتے تھے لیکن شکر گذار بندہ بن جانے کی تلقین بھی کرتے، فاتح عالم بھی تھے مگر سراپا رحمت بھی، قیادت بھی کی اور خدمت کا سلیقہ بھی سکھایا، ہمارے طرز عمل سے ایسا لگتا ہے کہ سیرت رسول علی صاحبھا الصلوۃ والسلام کتابوں میں محفوظ رکھنے کے لئے ہے، شمائل نبوی شروحات لکھنے کے لیے ہیں، اخلاق نبوی پڑھنے اور سننے کے لئے ہیں، بیع وشراء کے احکامات امتحان پاس کرنے اور نظریاتی بحثیں کرنے کے لئے ہیں، کیا ایسا نہیں کہ ہم سیرت کے بعض حصوں کو پیش کرتے ہیں اور اکثر حصوں سے آنکھیں چراتے ہیں، سیرت کے دفتر کے دفتر ہضم کرنے والے ہی بتا سکتے ہیں کہ معلم اخلاق اور محسن انسانیت کے اسوۂ کامل کا کتنا عکس ہماری زندگیوں پر ہے اور کس قدر ہم نے ان کی تعلیما ت کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا ہے اور عالم انسانیت کو ان کے احسانات سے متعارف کرایا ہے۔

 جس وقت آنحضرت کی یعثت ہوئی دنیا اس وقت ظلمت کدہ بنی ہوئی تھی، تہذیب و تمدن عنقاء تھا، جو اپنے کو متمدن سمجھتے تھے ان کا تمدن درندہ صفت تھا، یاجوج ماجوج کی طرح وہ ظلم وجور کے رسیا تھے، ظلم کی آخری انتہا یہ تھی کہ جزیرۃ العرب میں بچیاں زندہ درگور کر دی جاتی تھیں، پوری انسانیت ضلالت وگمراہی کی انتہا کو پہنچ چکی تھی بلکہ یوں کہیے کہ بارود کے کے ڈھیر پر کھڑی ہوئی تھی قرآن پاک نے جو نقشہ کھینچا ہے اور جو تصویر کشی کی ہے اس سے زیادہ بلیغ اور مختصر وجامع تصویر کشی کس کے بس کی بات ہے؟ ظلم وجور کی تہذیب، کبر و نخووت وانانیت کی تہذیب، بے حیائی وفحاشی کی تہذیب، عورتوں کو جانور سے بدتر سمجھنے والی تہذیب ، سیاسی انارکی سے عبارت تہذیب، جنگ وجدال سے سسکتی تہذیب، جوا وشراب اور معاشی استحصال والی تہذیب، اخلاقی وفکری دیوالیہ پن پر مشتمل تہذیب، ادنی درجہ کی انسانی اقدار سے بھی خالی تہذیب اور ایسی تہذیب جو عرب و عجم اور متمدن وغیر متمدن اقوام وقبائل اور دنیا کے سب خطوں پر چھائی ہوئی تھی، اس کا نقشہ کھینچنا اور اس اختصار سے کھینچنا بس قرآن کا اعجاز ہے، واذکرو نعمۃ اللہ علیکم إذ کنتم أعدائً فألف بین قلوبکم فأصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فأنقذکم منھا (اٰل عمران ۱۰۳)( ترجمہ: اور تم اللہ نے جو انعامات فرمائے انہیں یاد رکھو، کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور اس احسان سے تم بھائی بھائی ہوگئے، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے تھے اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔)

 انسانیت آگ کے گڑھے میں گرنا چاہتی تھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی تھی لیکن رسالت مآب تشریف لے آئے اور اسے گڑھے کے کنارے سے کھینچ لائے، خود ہی آپﷺ نے فرمایا کہ گویا تم آگ میں گرنا چاہتے ہو اور میں تمہاری کمر پکڑ پکڑ کر تمہیں اس میں گرنے سے بچاتا ہوں۔

 ان حالات میں آپ کو منصب رسالت سے سرفراز کیا گیا۔ خفیہ طریقہ سے دعوت اسلامی کی تحریک کا آغاز ہوا، وانذر عشیرتک الأقربین (شعراء:۲۱۴) (ترجمہ: اور اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو خبردار کردو)سے تحریک شروع ہوئی، پھر فاصدع بما تومر واعرض عن المشرکین(سورہ حجر:۹۴) (ترجمہ:اب تمہیں جو حکم دیا جارہا ہے اس کو ببانگ دہل بیان کرو اورمشرکوں کی پروا نہ کرو) کے ذریعہ توحید باری کا غلغلہ بلند کرنے کا حکم دے دیا گیا، آپ نے بھی جدو جہد شروع کر دی، حبشہ کو ہجرت ہوئی، وطن عزیز خود آنحضرت کو چھوڑنا پڑا، مکہ سے رخصت ہوئے، اس حال میں رخصت ہوئے کہ دشمن پیچھا کر رہا تھا، مدینہ کو وطن بنایا، یہی پہلی اسلامی ریاست کا مرکز بنا، پھر بے سروسامانی کے عالم میں بدر کی جنگ پیش آئی، معاہدے کیے گئے، خطوط لکھے گئے، وفود بھیجے گئے، تگ ودو جاری رہی، جاں نثاروں کی جاں نثاری تاریخ کاحصہ بنتی رہی، اسلامی سلطنت کی حدود وسیع ہوتی رہیں، لوگ جوق درجوق حلقہ بگوش اسلام ہوتے رہے اذا جاء نصر اللہ والفتح ورأیت الناس یدخلون فی دین اللہ افواجا(سورہ نصر:۲)(ترجمہ:جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے گی، اور آپ دیکھ لیں گے کہ لوگ جوق درجوق اللہ کی دین میں داخل ہو رہے ہیں) کے ذریعہ قرآن نے اس سماں کی منظر کشی کی ہے، مکہ مکرمہ فتح ہوگیا، بشیر و نذیر کی زبان حق ترجمان سے نکلی ہوئی پیش گوئیاں ان لوگوں نے بچشم خود دیکھ لیں جو کل تک خیمہ کفر میں بیٹھ کر استہزاء کیا کر تے تھے، حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت کے ساتھ ایک لاکھ سے زائد جانثاروں کا مجمع تھا، یہیں تکمیل دین کا یہ قطعی و حتمی اعلان کر دیا گیا، الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دینا۔ (سورہ مائدہ:۳) (ترجمہ: آج میں نے تمہاری خاطر تمہارا دین مکمل کردیا، اور اپنے انعامات (ایک واضح قانون دے کر) تم پر تمام کر دئے ہیں۔)

 آج جاہلیت عود کر آئی ہے، ’’جاہلیت اولیٰ‘‘ جو قرآن کی تعبیر ہے اس کے بعد آج پھر جب جاہلیت کا دوسرا دور شروع ہو گیا ہے تو اسے جاہلیت ثانیہ سے تعبیر کرنے میں حرج کیا، جاہلیت کے تمام مظاہر بڑی اپ ڈیٹ اور متمدن صورت میں ہمارے سامنے ہیں، تو پھر کیا اس کی ضرورت نہیں کہ سیرت کے عملی نمونے پیش کیے جائیں، سیرت کی روشنی سے تہذیب جدید کی ظلمتوں کو خیرہ کیا جائے اور کیا یہ ممکن نہیں کہ امت کا ہر ہر فرد سیرت کا عکس لے کر عملا مسلمان بن جائے اور دنیا کے سامنے اس رہبر کامل کے ابدی و کامل اسوہ کو یوں پیش کرے کہ ایک بار پھر دنیا تہذیب اسلامی کی آغوش میں پناہ لے سکے۔

 آج حالات اس وقت سے زیادہ سخت نہیں، وسائل اس دور سے کم نہیں، تعداد کا مسئلہ کبھی ہمارے عقیدے کا حصہ نہیں رہا اور قرآن نے تو یہ کہہ کراس مسئلہ کوہی ختم کر دیا کہ کم من فئۃ قلیلۃ غلبت فئۃ کثیرۃ(سورہ بقرہ:۲۴۹) (ترجمہ: کتنے چھوٹے گروہ اللہ کے حکم سے بڑے بڑے گروہوں پر غالب آتے ہیں) اور یوں بشارت دے دی  فإن حزب اللہ ھم الغالبون(مائدہ:۵۶) اور اس طرح شرط نصرت وفتح واضح کر دی ولا تہنوا ولا تحزنوا وانتم الأعلون إن کنتم مؤمنین(آل عمران:۱۳۹) (ترجمہ:تم لوگ بزدل اور کمزور نہ پڑو، اور نہ رنج وغم کے شکار ہو، تم اگر مؤمن ہو تو تم ہی برتر ہو)۔

  اس وقت مسلمانوں کی جو نفسیاتی حالت تھی، خوف وہراس کا جو ماحول تھا اور دعوت اسلامی کی ابتدا میں اسے جن مصائب ومشکلات کا سامناتھا، قرآن سے زیادہ بلیغ انداز میں اس کا حال کون بیان کر سکتاہے واذکروا اذ انتم قلیل مستضعفون فی الارض تخافون أن یتخطفکم الناس فاواکم وایدکم بنصرہ ورزقکم من الطبیات لعلکم تشکرون (انفال:۲۶) (ترجمہ: اور اس وقت کویاد کرو جب تم تھوڑی تعداد میں تھے، ملک میں دبے کچلے تھے، تمہیں ڈر لگا رہتا تھا کہ کہیں لوگ تمہارا اغوا نہ کر لیں، پھر اللہ نے تمہیں محفوظ ٹھکانہ دیا اور اپنی نصرت سے تمہاری تائید کی، اور تم کو پاکیزہ چیزیں عطا فرمائیں، تاکہ تم شکر گزار رہو۔)

 ہمیں لگتا ہے کہ آج ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، انہیں لقمۂ تر سمجھاجا رہا ہے، نبی اسلام اور تعلیمات اسلام کا مذاق بنایا جا رہا ہے، قرآن مجید نے کفار و منافقین کے کردار کھول کھول کر بیان کیے ہیں اور یہ واضح کردیا ہے کہ دعوت اسلامی کاسورج ان ہی مشکلات سے طلوع ہوا ہے، اگر قرآن مجید سے فائدہ اٹھایا جائے اور سیرت نبوی کو اسوہ بنایا جائے تو یقینا ان ہی نا مساعد حالات کی کوکھ سے عروج واقبال کا سورج طلوع ہوگا۔

 دیکھنا یہ ہے کہ آج ہم کیا کر رہے ہیں اور ہمیں کیا کرنا چاہیے، حضور ﷺ نے ابتدا میں بلا تفریق جو بھی حلقہ بگوش اسلام ہوا اس کی تربیت فرمائی اور اس طرح فرمائی کہ ایک ایسی جماعت تیار ہو گئی جس کے رگ و پے میں اسلام سرایت کر گیا، جس کے دل کی دھڑکن اسلام بن گیا، جس کی رگوں میں خون بن کر اسلام دوڑنے لگا، جس کو مادیت اور مادیت کے مظاہر سے نفرت ہوگئی، جو نبی کے اشاروں پر مر مٹنے کے لئے تیار رہنے لگے، جو اعمال خیر میں منافست کرنے لگے، جو خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھلانے میں لطف محسوس کرنے لگے، شہادت جن کا مقصود بن گئی، عبادت جن کی عادت بن گئی، اطاعت جن کی فطرت بن گئی، شرم و حیا جن کا زیور بن گیا، تعلیم و تعلم جن کا شیوہ ہو گیا، ایثار و قربانی جن کا وصف قرار پایا، آخر یہ کیوں کر ممکن ہوا، اسی لئے تو ہوا کہ رسول ان کے لئے تڑپتے تھے، ان کی فکر میں گھلتے تھے، ان کی تکلیف پر بلکتے تھے، ان کی بھلائی کے طالب تھے، ان کے ساتھ شفقت و محبت کا وہ معاملہ فرماتے کہ کوئی ماں بھی اس کا تصور نہ کر سکے،   لقد جاء کم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم وحریص علیکم بالمؤمنین روؤف رحیم (التوبہ:۱۲۸)(ترجمہ: یقینا تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک رسول آیا ہوا ہے اسے تمہاری مشقت اور دقت اور مصیبت بہت گراں گزرتی ہے، وہ تمہارے لیے بہت فکر مند اور ایمان والوں پر بہت شفیق و مہربان ہے)  رحم وکرم، حسن سلوک، غمخواری وغم گساری اورعایا پروری، عدل و انصاف سے ان کو عملا روشناس کراتے، غلبہ وقدرت کے بعد بھی معافی کا انہیں درس دیتے، بے کسی و بے بسی میں عفو ودرگزر چھوڑیے، انہیں استاد بن کر سمجھایا، باپ بن کر دکھایا، شوہر کے فرائض سے روشناس کرایا، حالت امن وحالت جنگ میں صبروسکون کے ساتھ اصول زندگی سے روشناس کرایا، عبادت وشکرگزاری کے جذبات سے آشنا کیا، تعلیم کے فضائل بتائے، ذکر وفکر کے نتائج سے آگاہ کیا تزکیہ و احسان کی اہمیت سے آگاہ کیا، تجارت کے اصول سکھائے، تفریق وتفرقہ کے نتائج بد سے متنبہ کیا، اتحاد و اتفاق کی طاقت سے آشنا کیا، ظاہر ہے کہ آپ کی زندگی نہ صرف مسجد میں گزری اور نہ پوری کی پوری عبادت میں ، اسی لئے آپ کی سیرت کو اس طرح پڑھنا چاہیے کہ دیکھا جائے آپ نے کن اوقات اور کن حالات میں کس طرح زندگی گزاری ہے، آپ گھر میں کس طرح پیش آئے، سیاسی مسائل کوکس طرح حل کیا، میدان جنگ میں کس طرح قیادت کی، ایمرجنسی کے حالات میں کس طرح رہنمائی کی، مشکل ترین حالات میں کس طرح کے اقدامات کیے، یہاں سکھا نے والا بھی انذار کی صفت سے متصف تھا اور سیکھنے والے بھی حصول علم کا مقصد اور اس کی انتہا یہ سمجھتے تھے کہ ان کو دین کا فہم حاصل ہوجائے اور وہ اوامر کی پابندی کرنے والے اور منہیات سے بچنے والے بن جائیں، فلولا نفر من کل فرقۃ منھم طائفۃ لیتفقھوا فی الدین ولینذروا قومھم إذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون، میں لیتفقھوا فی الدین اگر یہ بتاتا ہے کہ لفظ سے اس قدر فہم وبصیرت مطلوب ہے کہ اسلام کے مقتضیات سمجھ میں آنے لگیں، غیر مسلمانہ رویوں کی تمیز ہونے لگے، اس کا محض عامۃ الناس کو خواندہ بنانا ہرگزمقصد نہیں، اسی کے ساتھ انذار کا جو لفظ استعمال ہوا اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اسلام میں تعلیم کا اصل مقصد دین کی بصیرت حاصل کرنا اور اپنے ساتھ دوسروں کو بھی اخروی زندگی کے لئے بیدار وتیار کرنا ہے، انذار کے معنی ہی ہیں ڈرانے ہوشیار کرنے اور بالخصوص آخرت کی تیاری کے لئے بیدار کرنے کے، انذار جب نبی کی صفت بنتی ہے تو اس میں رحمت وشفقت اور لگن وتڑپ کے ساتھ متنبہ کرنے کے معنی پیدا ہوجاتے ہیں۔

 کبھی آپ نے عبادت کی فضیلت بیان کی تو کبھی معاشرت کے اصول بتائے، کبھی آپ نے یہ فرمایا کہ میری بعثت ایک معلم اخلاق کی حیثیت سے ہوئی ہے، کبھی فرمایا کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے مجھے بھیجا گیا ہے، چنانچہ آپ نے گھر کی اخلاقیات سے لے کر بازار کے آداب تک کی تعلیم دی، آخر وہ کون سا شعبہ زندگی ہے جس میں آپ کی عطر بیز سیرت رہنمائی نہیں کرتی، آپ کبھی تو راتوں کی عبادت کی تلقین کرتے اور کبھی دن میں جہاد کی تیاری کا حکم دیتے، گھر میں تو اپنا کام خود کرلیتے، جنگی قیدی آپ کے حسن اخلاق سے حلقہ بگوش اسلام ہوجاتے، خادموں سے پوچھیے تو آقا کی تعریف میں رطب اللسان ہوجائیں، ازواج مطہرات سے اندرون خانہ کا حال سنیے تو تاجدار عالم کے حسن اخلاق اور گھریلو زند گی میں ان کے بے نظیر لمحات ہر گھر کی تنویر کے لئے کافی، کیا خوب ارشاد عالی ہے آپؐ کا’’ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لے سب سے بہتر ہوں‘‘، زندگی جس حال میں ہو کسی ایک حال سے خالی نہ ہوگی اور ہر حال میں سیرت رسول کا نمونہ ہمارے سامنے ہوگا، آپ نے فرط مسرت کے لمحات بھی دیکھے، غموں سے نڈھال بھی ہوئے، طائف میں آپ کو گالیاں بھی دی گئیں اور وطن عزیز سے آپ کو نکالا بھی گیا، آپ پر طعنے بھی کسے گئے اور برا بھلا بھی کہا گیا، آپ فتوحات کی لذت سے بھی شاد کام ہوئے اور شکست کے درد کو بھی جھیلنا پڑا، آپ کو فرط عقیدت سے مرمٹنے والے جاں نثار بھی ملے اور خون کے پیاسے دشمنوں سے بھی سامنا ہوا، آپ کے لیے پلکیں بھی بچھائی گئیں اور آپ ہی کے لیے سازشیں بھی رچی گئیں، آپ کی سیرت میں عفو ودرگزر کا نمونہ بھی ہے اور تنبیہ وسزا کی مثال بھی، مصالحت، اقدام اور دفاع کے جس حال میں ہم ہوں آپ کی بے مثال سیرت ہماری رہنمائی کرتی ہے۔

  یہ رسالت مآب ﷺ (فدہ ابی وامی) کا ہی اعجاز تھا کہ انہوں نے ان سارے پہلووں کو پیش نظر رکھ کر صحابہ کرام کی ایسی تربیت فرمائی کہ قرآن اگر آپ کی سیرت واخلاق تھا تو صحابہ قرآن کی تفسیر بن گئے بلکہ اس کی تصویر مجسم ہو گئے، پھر وہ جدھر گئے کھلے ہوئے مصحف کی طرح پڑھے گئے، ان کے تقدس و عظمت پر لوگ نثار ہوگئے، ان کی پاکیزگی وپاکبازی اور استغناء وزہد، رواداری و مروت اور اخوت ومحبت نے دلوں کو فتح کیا، دعوتی مشن اور اخلاقی تعلیمات پر عمل پیرا رہنے کے ساتھ انہوں نے ایمانی طاقت وقوت اور ان کے اندر موجزن اسلام کی شان وشوکت کے سبب ولیجدوا فیکم غلظۃ(توبہ:۱۲۳) (ترجمہ:اور وہ تمہارا سخت موقف محسوس کریں) کی ہدایت بھی ہمیشہ ملحوظ رکھی۔

 یہ سب کچھ اسی لیے ہوا کہ آقا مدنی ﷺ نے اسلام کی تبلیغ کی، آپ کو جو فرائض منصبی دیے گئے ان کی آپ نے مکمل اور بلا تفریق ادائیگی کی، ذرا ہم آپ کے فرائض منصبی بیان کرنے والی اس آیت پر غور کریں اور اپنے کھوکھلے پن پر نظر ڈالیں ھو الذی بعث فی الأمیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمۃ وإن کانوا من قبل لفی ضلال مبین۔ (سورہ جمعہ:۲) (ترجمہ : وہی ہے جس نے اسی قوم (ان پڑھ قوم) میں انہیں میں سے ایک پیغمبر مبعوث فرمایا، جو ان کے سامنے اللہ کے کلام کی آیتیں پڑھ کر سنا رہا ہے۔ اور ان کا تزکیہ فرما رہا ہے (ان کی عادتوں، اخلاق اور ظاہر وباطن کو سنوار رہا ہے) اور انہیں الکتاب (قرآن مجید) کا علم دے رہا ہے، اور حکمت (دانشمندی، تہذیب و سلیقہ مندی) کی باتیں سکھا رہا ہے، اس سے پہلے وہ لوگ کھلی گمراہی میں تھے۔)

 آج ہم نظریات کی تبلیغ میں لگ گئے، مکاتب فکر کی توسیع سے تسکین حاصل کرنے لگے، شخصی حلقوں کو بڑھانے کی فکر میں پڑ گئے، دعوت اسلامی کے پس پردہ مقصود نظر یہ اور طریقہ کی تبلیغ ہوتی ہے، مسلمان بنانے کی کسے فکر، اخلاق سنوارنے کی کس کو چاہت، ملت کی زبوں حالی پر تڑپنا کسے نصیب، دوسرے کے درد پر تکلیف محسوس کرنا کہاں ہمارا مقدر، یہی تو اوصاف ہیں جن کے وجود سے مسائل کا حل ممکن ہے، مسئلہ کسی جماعت، کسی گروہ اور کسی ملک کا نہیں، مسئلہ پوری ملت اسلامیہ کا ہے، آج پوری ملت تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ایمان وعقیدے کی پختگی اور اعتماد ویقین کی اس بلندی کو اپنا شعار بنایا جایائے جس کی تلقین حضرت محمدؐ نے سیدنا صدیق کو اس وقت کی تھی جب دشمن سر پر کھڑا تھا اور لا تحزن إن اللہ معنا(توبہ:۴۵)(ترجمہ:غم مت کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے) پر اعتماد کی تلقین کی تھی، پھر اس اعتماد کے ساتھ میدان عمل میں قدم رکھا جائے اور ساری نظریاتی بحثیں ختم کرکے اور تفریق کے بتوں کو توڑ کر سیرت کے جامع و کامل اسوۂ حسنہ سے انسانیت کو علمی وعملی بہر دو اعتبار متعارف کرایا جائے۔

 سیرت رسول کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ آپ جو دین لے کر آئے تھے وہ برپا ہی اس لیے کیا گیا تھا کہ ہر فرد پر اس کی حکمرانی ہو، ہر عقل اسی کے تابع ہو، معاشرہ اپنی اجتماعی زندگی میں اسی سے رہنمائی حاصل کرے، آپ نے زندگی کا رخ یکسر بدل دینے میں کامیابی ہی اسی لیے حاصل کی کہ آپ نے یا أیھا الرسول بلغ مما انزل إلیک (مائدہ:۶۷) (ترجمہ:اے پیغمبر آپ کی طرف پروردگار کے پاس سے جو نازل کیا گیا ہے، اسے لوگوں تک پہونچا دیجئے) پر عمل کرکے دکھایا، صحابہ نے اس طرح آپ کی سیرت کو دنیا کے سامنے پیش کیا جس سے دنیا کو معلوم ہوگیا کہ یہ دین پھلنے پھولنے اور پھیلنے کے لئے ہی آیا ہے، لیکن مقام افسوس ہے کہ آج ہم دین کا جو تصور لیے ہوئے ہیں اس میں کہیں سے کہیں تک سیرت کا وہ پرتو نظر نہیں آتا، بلاد عربیہ مغرب کے در پر خندہ زن ہیں اور بر صغیر قدیم و جدید، خانقاہ ومدرسہ اور تحریک و تبلیغ کی نظریاتی الجھنوں کا شکار ، محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ دین آفاقی عبادات میں محدود ہوکر رہ گیا ہے، عقل مغربی فلسفہ سے وابستہ ہے تو دل مغرب کے تہذیب و تمدن پر فریفتہ، دین وسیاست میں کلیسائی تقسیم ہے، علم کی تفریق سے ہماری رسوائی وجگ ہنسائی ہمارا مقدر بن گئی ہے اورنظام تعلیم پر مغرب کی حکمرانی نے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے، اخلاقی حالت ایسی گئی گزری کہ عدالتیں مسلمانوں کے آپسی تنازعات سے پٹی پڑی ہیں، طرفہ یہ کہ اسوۂ کاملہ ہمارے پاس موجود ہے اور فائدہ اس سے دوسروں نے اٹھایا ہے، اسرار کائنات سے پردے ہماری کتاب مقدس نے اٹھائے ہیں لیکن ہم صرف اس سے برکت حاصل کرنے تک محدود ہوکر رہ گئے اور اغیار نے اس کے اصول تسخیر پڑھ کر دنیا مسخر کر لی۔

 سچ یہ ہے کہ ہمیں سیرت کے پیغام کو سمجھنا پڑے گا اور اپنے ماضی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا، صحابہ کرام ہر ہر قدم پر سیرت رسول کے نمونوں سے رہنمائی حاصل کیا کرتے تھے، جب جب لوگوں نے اس سے رہنمائی حاصل کی تب تب غلبۂ دین کی بشارت  پوری ہوتی نظر آئی، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ لا تحزن إن اللہ معنا(توبہ:۴۰)ترجمہ: غم مت کر یقینا اللہ ہمارے ساتھ ہے) کی کیفیت سے سرشار ہوا جائے، دعوتی تحریک کو تیز تر کیا جائے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کو پورے خلوص کے ساتھ انجام دیا جائے، انی رسول اللہ الیکم جمیعا(اعراف:۱۵۸) (ترجمہ: میں تم سب کا رسول ہوں) کی صدائے بازگشت دنیا کو سنائی جائے، لیکون للعالمین نذیرا کی حقیقت سے دنیا کو روشناس کرا دیا جائے، وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیرا للناس بشیرا ونذیرا پر عمل کرکے اتمام حجت کی جائے۔ وما ارسلنٰک الا رحمۃ للعالمین(انبیاء:۱۰۷) (ترجمہ: اور ہم نے آپ کو تمام طبقات کے لئے رحمت بنایا ہے) کے پیام امن ورحمت کو عام کیا جائے، إنی وجھت وجھی للذی فطر السمٰوٰت والارض حنیفا وما أنا من المشرکین۔ (انعام:۷۹) (ترجمہ: میں تو اپنا رخ اس ذات کی طرف کرتا ہوں، جس نے عدم سے آسمانوں اور زمین کو وجود بخشاء میں تو صرف اس کے لئے یکسو ہوں، اور میں شرک کرنے والا ہیں۔)قل إن صلاتی ونسکی ومحیای ومماتی للہ رب العالمین، لا شریک لہ وبذلک امرت وأنا اول المسلمین (سورہ انعام:۶۳-۱۶۴) (ترجمہ: اور یہ بھی کہہ دیجئے کہ میری نماز، اور میری قربانی، اور میری زندگی، اور میری موت سب اللہ کے لئے ہے، جو سب کا مالک و پروردگا رہے، اور جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم فرمایا گیا ہے، اور میں تمہارے درمیان پہلا مسلمان ہوں) کے راز کو سمجھا جائے اور خلوص ووفا کے ساتھ زندگی کو دین وملت کی خدمت میں لگا یا جائے، اپنی نسبت صرف اللہ ورسول سے جوڑی جائے اور اسی کے فضل وعطا کو بہتر سمجھا جائے، وقت کے تقاضوں کے مطابق سیرت رسول سے رہنمائی حاصل کی جائے تو یہ ممکن نہیں کہ حالات کے تیور نہ بدلیں ، فضا ہمارے موافق نہ ہو، بس شرط صرف اتنی ہے کہ اسلام کی سر بلندی کے لئے سارے بورڈ ہٹا دیے جائیں، سارے بینر توڑ دیے جائیں، تفریق اور بے سبب راجح و مرجوح کے جھگڑوں کو ختم کرکے تلاوت وتعلیم اور تزکیہ وحکمت کی جامعیت سے فائدہ اٹھایا جائے، مدرسہ واسکول کو اسی کی روشنی میں مفید بنایا جائے، تبلیغ ودعوت کے سارے طریقے استعمال کیے جائیں، تحریک دعوت کو کسی نظریہ اور کسی طریقہ کا پابند نہ کیا جائے بلکہ جس طریقہ، جس حربہ اور جس زبان سے کفار پر اثر ہو اور اہل اسلام کی اصلاح ہو ان سب کا استعمال کیا جائے، واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ (انفال:۶۰) (ترجمہ: اور ان کے مقابلہ کے لئے ہر ممکن طاقت تیار رکھو) کا یہی تو مطالبہ ہے، کہ جس علم سے، جس آلہ سے، جس اسلحہ سے، جس حربہ سے، جس طرح سے بھی ممکن ہو، وقت کا جو چلن ہو، زمانہ کا جو تقاضہ ہو اسے حاصل کیاجائے، یہ تب ہی ممکن ہے جب سیرت نبوی کے ابدی اسوہ سے رہبری حاصل کی جائے اور رہبر کامل کی ہدایات کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنایا جائے، ہر حال میں اسی ذات اقدس کو مقدم رکھا جائے، کیوں نہ ایسا ہوا کہ سیرت پر بیانات کرنے والے عملا ان ہدایات سے فائدہ اٹھاتے، اپنے نصاب ونظام میں تبدیلیاں کرتے، ترقی اور تعمیر کے لئے ماضی قریب نہیں ماضی بعید کی طرف لوٹنا اشد ضروری ہے، طالبان علوم نبوت کیا نہیں کر سکتے اور کیوں نہیں کر سکتے، اگر حکومت کا قیام مشکل اور غلبۂ اسلام ہمارے بس کی بات نہیں، تو کیا اس کی تمنا اور اسلامی نظام کے دوسرے اجزاء کے نفاذ میں بھی ہم مجبور ہیں، کتاب التجارہ کی نبوی ہدایات ہم پڑھیں اور پڑھائیں، مدینہ کے بازار کی تفصیلات کتب سیرت سے نقل کریں اور غیر سودی تجارت اور اسلامی بینکنگ کے راگ اغیار الاپیں، وقت کے مطابق فیصلے کرنا اور سیرت سے استنباط کرنا ہی تو ما ستطعھم من قوۃ کا مطالبہ اور مومنانہ فراست کی دلیل ہے، ہر وہ کام مطلوب ومقصود ہے جس سے اسلام کو تقویت پہنچے اور جس کے ذریعہ دین کی حفاظت واشاعت کا سامان بہم ہو، سیرت نبوی اسی کی طرف تو رہنمائی کرتی ہے اور صحابہ کرام کا یہی تو طرز عمل رہا ہے، ہمارے تخلف کا بڑا سبب یہی ہے کہ ہم نے سیرت کو محض واقعات نگاری تک محدود کر دیا اور اسے تقدس کی نظر سے پڑھنے اور برکت حاصل کرنے تک محدود ہو گئے۔

 اس یک نکاتی پروگرام کو اپنی زندگیوں، تنظیموں اور جماعتوں واداروں کا لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے، جس کا اظہار داعی اسلام، محسن انسانیت، شہنشاہ کونین نے چچا ابو طالب کو جواب دیتے ہوئے کیا تھا،فرمایا تھا: ’’چچا! خدا کی قسم اگر وہ میرے داہنے ہاتھ میں سورج اور بائیں ہاتھ میں چاند رکھ دیں اور یہ چاہیں کہ میں اس کو چھوڑ دوں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو غالب کرے یا میں اس راستہ میں کام آجاؤں، تب بھی میں اس سے باز نہ آؤں گا ‘‘صحابہ کرام نے اسی یک نکاتی پروگرام کو اپنے لئے حرز جاں سمجھا اور خلیفہ اول حضرت صدیق اکبرؓ نے سب سے پہلے اس پر عمل کرتے ہوئے مرتدین کے معاملہ میں اختلاف رائے کے موقع پر یہ تاریخ ساز جملہ ارشاد فرمایا: ’’أینقص الدین وأنا حی‘‘ّ، لیکن صد افسوس آج امت محمد کے پاس سب کچھ ہے، نہیں ہے!  تو بس یہ جذبہ نہیں ہے، اس انقلابی پروگرام پر نظر نہیں ہے، نبی کی محبت میں تڑپنا، شان رسالت میں توہین پر بزم آب وگل کو تہس نہس کر دینا زندگی کی علامت بھی ہے اور ایمان کی رمق باقی ہونے کی دلیل بھی۔ لیکن کیا یہ نبوت کے پیغام اور رسول کی رسالت کے ساتھ عقیدت کے پھول نچھاور کرنے والوں کا بھدا مذاق نہیں کہ ان کی زندگی پوری کی پوری سنت و سیرت سے دور ہوگئی ، مقصد حیات تہذیب جدید کی ظلمتوں میں گم ہو کر رہ گیا، فکر آخرت مادیت کے اندھیروں میں غائب ہوگئی، نہ ایمان کی گرمی رہی نہ تنظیم امت کا شعور، صنم خانوں کا وجود مٹ گیا مگر افراد ملت نے اتنے بت تراش لیے کہ آزری بھی ماتم کرنے لگی، انتشار کا ایسا دور شروع ہوا کہ محفل بغداد بھی ویران ہو گئی، حجازی لے بھی ناپید ہوگئی، نہ مصر وشام پہلے کی طرح باقی رہے نہ عرب کے ایوانوں میں پہلے سی رونق رہی___کیا صرف نعرۂ الفت سے اقبال مند ہوجانا ممکن ہے، مسلمانوں کے دور اقبال اور عہد عروج کا راز سیرت طیبہ سے عملی رہنمائی حاصل کرنے میں مضمر ہے، آج اگر ملت طالب ہے امامت وسیادت کی تو اسے سیرت رسولؐ کو عملی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا، صداقت وامانت کا سبق یاد کرنا ہوگا، عقبیٰ کی فکر کرنی ہوگی، دنیا کو سنوارنا ہوگا، قرآن سے رہنمائی حاصل کرنی ہوگی، دعوتی تحریک چھیڑنی ہوگی اور تلوار کو نیام میں رکھ کر ہر وقت سامنے رکھنا ہوگا، سیرت طیبہ کی جامعیت اگر پیش نظر نہ رہی تو عروج واقبال ایک خواب ہے، سراب ہے اور ایسا فسانہ ہے جو حقیقت سے بیگانہ ہے۔ 

 دنیانے اجالے اسی سیرت محمدی کے طفیل دیکھے ہیں کہ آپ کی بعثت سے پہلے کہاں تھے اجالے، پھر جب اسی سیرت کو اسوہ قرار دیا جائے گا اور صاحب سیرت ﷺ سے وفاداری کا مخلصانہ ثبوت دیا جائے گا تو سارا جہاں ہمارا ہوگا۔ نورسرمدی کے اسوہ ابدی کو پیش کرنے والی یہ سطریں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے اس اقتباس پر ختم کی جاتی ہیں جوان کے قلم کا اعجاز اور اس سلسلہ کا شاہکار ہے، جس میں سیرت نبوی کے اسوہ حسنہ وکاملہ کی بلیغ ومؤثر اور جامع ترین تشریح کی گئی ہے، سید صاحبؒ لکھتے ہیں:

  ’’ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفۂ انسانی اور ہر حالت انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اور کامل اخلاق کا مجموعہ ہو صرف محمد رسول اللہ ﷺ کی سیرت ہے۔ اگر دولت مند ہو تو مکہ کے تاجر اور بحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو۔ اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینہ کے مہمان کی کیفیت سنو، اگر بادشاہ ہو تو سلطان عرب کا حال پڑھو، اگر رعایا ہو تو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو اگر فاتح ہو تو بدر و حنین کے سپہ سالارپر نگاہ دوڑاؤ، اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکۂ احد سے عبرت حاصل کرو، اگر تم استاد اور معلم ہو تو صفہ کی درسگاہ کے معلم قدس کو دیکھو، اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ، اگر واعظ اور ناصح ہو تو مسجد مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو، اگر تنہائی و بیکسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تو مکہ کے بے یارو مدد گار نبیؐ کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے، اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہو تو فاتح مکہ کا نظارہ کرو، اگر اپنے کاروبار اور دنیا وی جدو جہد کا نظم ونسق درست کرنا چاہتے ہو تو بنی نضیر، خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو، اگر یتیم ہو تو عبداللہ و آمنہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو، اگر بچہ ہو تو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو، اگر تم جوان ہو تو مکہ کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو اگر سفری کاروبار میں ہو تو بصریٰ کے داروان سالار کی مثالیں ڈھونڈو، اگر عدالت کے قاضی اور پنچایتوں کے ثالث ہو تو کعبہ میں نور آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھو، جو حجر اسود کو ایک گوشہ میں کھڑا کر رہا ہے، مدینہ کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو، جس کی نظر انصاف میں شاہ گدا اور امیر وغریب برابر تھے۔ اگر تم بیویوں کے شوہر ہو تو خدیجہؓ اور عائشہؓ کے مقدس شوہر کی حیات پاک کا مطالعہ کرو۔ اگر اولاد والے ہو تو فاطمہؓ کے باپ اور حسن حسینؓ کے نانا کا حال پوچھو، غرض تم جو کوئی بھی اور کسی حال میں بھی ہو، تمہاری زندگی کے لئے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی واصلاح کے لئے سامان، تمہارے ظلمت خانہ کے لئے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نور محمد رسول اللہ ﷺ کی جامعیت کبریٰ کے خزانہ میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔

 اس لئے طبقۂ انسانی کے ہر طالب اور نور ایمانی کے ہر متلاشی کے لئے صرف محمد رسول اللہ کی سیرت ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے، جس کی نگاہ کے سامنے محمد رسول اللہ کی سیرت ہے، اس کے سامنے نوح وابراہیم ایوب ویونس اور عیسیٰ علیہم السلام سب کی سیرتیں موجود ہیں۔ گویا تمام انبیائِ کرام کی سیرتیں صرف ایک ہی جنس کی اشیاء کی دوکانیں ہیں اور محمد رسول اللہ کی سیرت اخلاق واعمال کی دنیا کا سب سے بڑا بازار (مارکیٹ) ہے، جہاں ہر جنس کے خریدار اور ہر شئے کے طلبگار کے لئے بہترین سامان موجود ہے۔ (خطبات مدراس، علامہ سید سلیمان ندویؒ ص۷۴-۷۵)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: