✒️شکیل رشید
( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز)
__________
ہلدوانی کی غفور بستی اور وہاں رہنے والے مسلمانوں کا المیہ یہ ہے کہ وہ ایک ایسی حکومت کے زیر سایہ ہیں جو سر سے لے کر پیر تک مسلم دشمنی میں ڈوبی ہوئی ہے ۔ بلڈوزر چلا کر ایک مسجد اور مدرسے کو شہید کرنا سارے المیے کا ایک پہلو ہے ، سچ یہ ہے کہ اتراکھنڈ کی دھامی حکومت ساری غفور بستی کو ، جس میں چار ہزار مکانات ہیں اور کوئی پچاس ہزار مسلمان بستے ہیں ، اُجاڑنا چاہتی ہے ۔ یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ دھامی کے اترا کھنڈ میں اِن دنوں ایک ایسا تجربہ کیا جا رہا ہے جِس پر آنے والے دنوں میں سارے ملک میں عمل کیا جا سکتا ہے ۔ مسجد اور مدرسے کو شہید کرنے کا سیدھا مطلب مسلمانوں کو اکسانا ہے کہ دیکھ لو ہم تمہارے تمام مذہبی مقامات کو اجاڑ رہے ہیں جو کرنا ہے کر لو ۔ ظاہر ہے کہ مسلمان سوائے سینوں پر گولیاں کھانے کے اور کیا کر سکتے ہیں ، اور ہلدوانی میں یہی ہوا ہے ، احتجاجی مسلمانوں کے سینوں پر گولیاں داغی گئی ہیں ، اور سیکڑوں احتجاجیوں کو زخمی کیا گیا ہے ۔ دھامی کی حکومت نے یو سی سی کا تجربہ کیا ، پھر مسجد شہید کرنے کا ، اور اس کے بعد سڑکوں پر اترنے والوں کے سینے سرخ کرنے کا ، اب یہ مزید تجربے کریں گے ، اب یہ مسلمانوں کے خلاف مقدمے بنائیں گے ، انہیں گرفتار کریں گے ، ان کے گھروں پر بلڈوزر چلائیں گے اور ساری مسلم قوم کو یہ پیغام دیں گے کہ اگر کسی نے بھی احتجاج کرنے کی جرأت کی تو اس کا بھی حشر ایسا ہی ہوگا ۔ مسلمان مسجدوں کو شہید ہوتا تو نہیں دیکھ سکتا ، وہ احتجاج تو کرے گا ہی ، اس لیے کہ اس ملک میں احتجاج کوئی جرم نہیں ہے ۔ لیکن افسوس کہ اس ملک میں مسلمانوں کے احتجاج کو جرم بنا دیا گیا ہے ، اور پولیس فورس ہندتو کی فوج بنا دی گئی ہے ۔ ہلدوانی میں مسلم بستی پر پولیس والے بھی پتھراؤ کرتے ہوئے دیکھے جا گیے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ دھامی حکومت نے یہ کیسے طئے کر لیا کہ مسجد اور مدرسہ غیرقانونی ہیں ، اس لیے ان کا ڈھایا جانا ضروری ہے ؟ اتراکھنڈ کی عدالت نے اس تعلق سے کوئی فیصلہ نہیں دیا ، سپریم کورٹ سے پہلے ہی ہلدوانی میں انہدامی کارروائی پر روک ہے ! اس کا سیدھا مطلب یہ ہے کہ دھامی حکومت نے قانون کو ، آئین کو اور لاء اینڈ آرڈر کو کھیل سمجھ رکھا ہے ۔ کیوں ؟ اس لیے کہ سارے ملک میں ، چند ریاستوں کو چھوڑ کر ، اس وقت ہندو فرقہ پرستی کا عفریت پوری شدت کے ساتھ نفرت پھیلانے میں لگا ہوا ہے ، اور اسے مرکز کی مودی سرکار کی پوری حمایت حاصل ہے ۔ مرکز اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو لگتا ہے کہ وہ اس ملک سے مسلم آثار کو مٹا دیں گے ، مسجدوں اور مقبروں کو ، مدرسوں کو ہٹا دیں گے ، اور اس ملک کو ایک ایسے ہندو راشٹر میں تبدیل کر دیں گے کہ دیکھنے والوں کو لگے گا یہاں کبھی مسلمان رہے ہی نہیں ! لیکن یہ ممکن نہیں ہے ۔ نہ اسلام ختم ہوگا اور نہ مسلمان ، لیکن نفرت ، فرقہ وارانہ تشدد اور عصبیت اس ملک کو معاشی طور پر ہی نہیں ایک قوت کے طور پر بھی کمزور کر دے گی ، انتشار اسے تنزلی کی طرف ڈھکیل دے گا ۔ اور اس کے ذمے دار نفرت پروسنے والے سیاست داں ہی ہوں گے۔