پاکستان کا غذائی بحران
از قلم: مشتاق نوری
___________
اقوام عالم میں اس وقت کئی ممالک غربت و افلاس کی زد میں ہیں جہاں قلت تغذیہ بلکہ عدم تغذیہ کا روح فرسا دور چل رہا ہے۔کسی بھی ملک میں اس کے شہریوں کو تین وقت کا مناسب کھانا ہونا ضروری ہے۔غذائی بحران نہ صرف انسان سے ان کی جسمانی طاقت چھین لیتی ہے بلکہ بعض دفعہ دین و ایمان اور تہذیب و تمدن بھی ضائع کر دیتا ہے۔پیٹ کی آگ بڑی خطرناک ہوتی ہے لوگ اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے تن فروشی، من فروشی، ضمیر فروشی و ایمان فروشی سب کچھ کر جاتے ہیں۔ایک شدید بھوکے کے سامنے نہ صوفی کا وعظِ توکل و فضیلت گرسنہ کام آتا ہے نہ مفتی کا تعزیری فتوی۔
تقسیم ہند کے بعد بھارت نے کافی ترقی کی۔ہر شعبے میں اپنی موجودگی درج کروائی۔اگر مذہبی سیاست نہ ہوتی،فرقہ وارانہ تشدد و فساد جیسے مسائل نہ ہوتے تو یہ ملک مزید آگے نکل جاتا۔اس وقت ترقی پذیر ممالک میں بھارت کا اپنا ایک مقام ہے۔
بنگلہ دیش جو پاکستان سے ٹوٹ کر وجود میں آیا آج عالمی نقشے پر اپنی حیثیت منوانے میں کامیاب ہے۔یہ دنیا کی ۳۳؍ ویں سب سے بڑی معیشت(economy) ہے۔عالمی وبا کے بعد رفتار کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنے والا ملک ہے۔لوک ڈاؤن کے بعد اس کی GDP ریٹ ۷ اعشاریہ دو (%7.2) پہنچ گئی ہے۔
مگر وہیں پاکستان جو مملکت خدا داد ہے بعض کہتے ہیں کہ یہ دین و اسلام کے نام پر وجود میں آیا۔آج اس کی حالت دیکھ کر بہت ہی افسوس ہوتا ہے۔یہاں روز کسی نہ کسی مسئلہ پر جنگ چھڑتی ہے۔ روز کوئی نیا ڈرامہ اسٹیج ہوتا ہے۔سیاسی جماعتوں کی اٹھا پٹک جاری رہتی ہے۔قوم کی طرف سے کئی بار زمام اقتدار سونپنے کے بعد بھی سیاسی بازیگر ملک کو کچھ خاص نہیں دے پاۓ بلکہ آباد کو برباد کر کے چلے گئے۔اگر ۲۱؍ویں صدی کے ربع اول کے خاتمے پر بھی ملک میں اس قدر غذائی تنگی ہے تو ذمے دار کون ہے؟عوامی شعور کو یہ سوال خود سے کرنا چاہیے۔
ذیل میں دیکھیں! لاہور کے ایک ویڈیو سے لیے گئے اسکرین شاٹ لگاۓ ہیں۔جس میں ایک خاتون اپنے بچے کے ساتھ کوڑے دان میں کھانا تلاش رہی ہیں۔خاتون نے بچے کو پیروں سے پکڑے رکھا اور بچے نے گندے کوڑے کچرے سے تلاش کر دو پھل (شاید سیب ہے)نکالے۔دونوں وہیں بیٹھ کر کھانے لگے۔پھل ملنے کے بعد اس بچے کی خوشی دیدنی تھی۔اس غریب کی ایک مسرت پر فرشتوں کی ہزار مسکان قربان! اللہ اللہ۔اس حرکت پزیر منظر کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آ گیا تھا۔
ابھی پرسوں ایک اور ویڈیو پاکستان کے کسی شہر کا دیکھا جس میں ایک دوکاندار نے ایک سات آٹھ سالہ گونگے بچے کو محض اس لیے کھمبے سے چار گھنٹے تک باندھے رکھا کہ اس نے ۱۰؍ روپے کا کیک اٹھا لیا تھا جو دوکاندار کی نظر میں چوری تھی۔پھر بعد میں پتہ چلا کہ وہ بچہ یتیم ہے۔گھر میں صرف ماں ہے کھانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے ایسے میں نظم طعام کی کوئی صورت نہیں ہے۔بھوک نے بچے کو کیک چرانے پر مجبور کیا تھا۔
خدا کی قسم، ویڈیو میں اس معصوم سے یتیم بچے کے گریہ و زاری میں پنہاں درد محسوس کر کے اور دوکاندار کی قساوت قلبی کو سوچ کر بے تحاشا رو دیا تھا۔آخر کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے کہ دس روپے کہ ایک کیک کی سزا اتنی سخت ہو۔میرے منہ سے نکلا کہ ایسی قوم پر خدا ظالم و جابر کو مسلط نہیں کرے گا تو کیا قرن اول کے صدیق و عمر کا دور لاۓ گا۔