از: محمد قمر الزماں ندوی
استاد مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپ گڑھ
________________
(سات سو سال قبل لکھی گئی ابن خلدون کی یہ تحریر گویا مستقبل کے تصور کا منظر نامہ ہے)
ایک ادیب نے خوب کہا ہے کہ ،،انسانی زندگی میں دو ایسے اسباب و واقعات ہیں جن کا بالکل ٹھیک وقت ہم نہیں بتا سکتے ،ان میں سے ایک جس کا تعلق فرد کی زندگی سے ہے ،نیند کا آنا ہے، کوئی شخص آج تک اس خاص لمحہ کا تعین نہیں کرسکا ،جب جاگنے والا سوجاتا ہے ، دوسرا واقعہ جس کا تعلق قومی زندگی سے ہے تنزل یا زوال ہے ،کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں قوم کا زوال کس تاریخ سے شروع ہوا ،سب کو اس کی خبر اس وقت ہوتی ہے، جب وہ زور پکڑ جاتا ہے ،، ۔ (انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ، 158)
یہ منطق اور یہ حقیقت اکثر قوموں کے بارے میں منطبق ہے،لیکن امت مسلمہ کی زندگی میں ادبار ، زوال و تنزل اور پستی و تنزلی کا آغاز دوسری قوموں کے مقابلہ میں زیادہ واضح اور روشن ہے ، اور بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح ،، اگر ہم کمال و زوال کے درمیان کی حد کو متعین کرنا چاہیں تو ہم اپنی انگلی اس تاریخی خط پر رکھ دیں گے ،جو خلافت راشدہ اور ملوکیت عرب یا مسلمانوں کی بادشاہی کے درمیان حد فاصل ہے ،،۔
ماضی میں اسلامی قیادت اور بالواسطہ دنیا کی رہنمائی کی زمام ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی ،جن کا ہر فرد اپنے ایمان و عقیدہ اعمال و افعال تربیت و تہذیب نفس کی آرستگی ،سیرت کی بلندی اور کمال و اعتدال میں اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک مستقل معجزہ تھا ،أپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اولین جماعت صحابہ کو اسلام کے قالب میں ایسا ڈھال دیا تھا کہ ان میں جسم کے علاوہ کسی چیز میں بھی اپنے ماضی سے مماثلت باقی نہیں تھی ۔ وہ دین و دنیا کی جامعیت کا نمونئہ کامل تھے ۔امامت کبریٰ امامت صغریٰ میں تمام اوصاف و کمالات کے ساتھ وہ اعلیٰ مقام پر تھے، دین و سیاست میں عملاً تفریق نہیں تھی ، جہاد و اجتھاد کے وسیع معنی و مفہوم سے آراستہ تھے ۔۔ لیکن جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہوئی ، دین و سیاست میں عملاً تفریق کردی گئی ،جہاد و اجتھاد کی قابلیت سے وہ محروم ہونے لگے، اور اس کا فقدان شروع ہوا ، بادشاہ و امراء وزراء اور ارکان سلطنت ماضی کے نقوش کو بھول گئے اور عیش و عشرت اور لذت کوشی کے دیوانے ہوگئے ،طاوس و رباب کے دلدادے ہوگئے ،ان میں پھر جاہلیت کے جراثیم اور میلانات پائے جانے لگے ، عصبیت و قومیت کی خلیج پھر پیدا ہونے لگی ، ارکان حکومت بذات خود خلفاء دین و اخلاق کا کامل نمونہ نہیں رہے، توحید سے دوری اور شرک و بدعت رسم و رواج کا دور شروع ہوا ، اہل علم فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھ گئے ، تو اسی دن سے اسلام کی دیوار آہنی میں کئی رخنے پیدا ہوگئے جن سے مسلسل فتنے اور مصائب نفوذ کرتے رہے ،یہاں تک کہ فاتح قوم مفتوح بن گئی اور ان کے اندر محکومی ، غلامی، ذلت و پستی محرومی مسکنت اور مغلوبیت کے منفی اثرات مرتب ہوتے گئے اور پھر وہ وقت آیا جس کا منظر نامہ علامہ ابن خلدون نے مقدمہ ابن خلدون میں پیش کیا ہے ۔۔۔ قارئین اس تحریر کو پڑھیں اور اپنے شاندار ماضی اور مہیب حال اور خطرناک مستقبل کا اندازہ لگائیں اور پھر اپنے آپ کا محاسبہ بھی کریں فرد کی سطح پر بھی اور جماعت اور ملت کی سطح پر بھی۔
________________
مغلوب قوم کو ہمیشہ فاتح کی تقلید کا شوق ہوتا ہے، فاتح کی وردی اور وردی پر سجے تمغے، طلائی بٹن اور بٹنوں پر کنندہ طاقت کی علامات، اعزازی نشانات، اس کی نشست و برخاست کے طور طریقے، اس کے تمام حالات، رسم و رواج ، اس کے ماضی کو اپنی تاریخ سے جوڑ لیتے ہیں، حتیٰ کہ وہ حملہ آور فاتح کی چال ڈھال کی بھی پیروی کرنے لگتے ہیں، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ جس طاقتور سے شکست کھاتے ہیں اس کی کمال مہارت پر آنکھیں بند کر کے یقین رکھتے ہیں۔
محکوم معاشرہ اخلاقی اقدار سے دستبردار ہو جاتا ہے ، ظلمت کا دورانیہ جتنا طویل ہوتا ہے، ذہنی و جسمانی طور پر محکوم سماج کا انسان اتنا ہی جانوروں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے، ایک وقت آتا ہے کہ محکوم صرف روٹی کے لقمے اور جنسی جبلت کے لیے زندہ رہتا ہے۔
جب ریاستیں ناکام اور قومیں زوال پذیر ہوتی ہیں تو ان میں نجومی، بھکاری، منافق، ڈھونگ رچانے والے، چغل خور، کھجور کی گٹھلیوں کے قاری، درہم و دینار کے عوض فتویٰ فروش فقہیہ، جھوٹے راوی، ناگوار آواز والے متکبر گلوکار، بھد اڑانے والے شاعر، غنڈے، ڈھول بجانے والے، خود ساختہ حق سچ کے دعویدار، زائچے بنانے والے، خوشامدی، طنز اور ہجو کرنے والے، موقع پرست سیاست دانوں اور افواہیں پھیلانے والے مسافروں کی بہتات ہوجاتی ہے ۔
ہر روز جھوٹے روپ کے نقاب آشکار ہوتے ہیں مگر یقین کوئی نہیں کرتا ، جس میں جو وصف سرے سے نہیں ہوتا وہ اس فن کا ماہر مانا جاتا ہے، اہل ہنر اپنی قدر کھو دیتے ہیں، نظم و نسق ناقص ہو جاتا ہے، گفتار سے معنویت کا عنصر غائب ہوجاتا ہے ، ایمانداری کو جھوٹ کے ساتھ، اور جہاد کو دہشت گردی کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے۔
جب ریاستیں برباد ہوتی ہیں، تو ہر سو دہشت پھیلتی ہے اور لوگ گروہوں میں پناہ ڈھونڈنے لگتے ہیں، عجائبات ظاہر ہوتے ہیں اور افواہیں پھیلتی ہیں، بانجھ بحثیں طول پکڑتی ہیں، دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدل جاتا ہے، باطل کی آواز بلند ہوتی ہے اور حق کی آواز دب جاتی ہے، مشکوک چہرے زیادہ نظر آتے ہیں اور ملنسار چہرے سطح سے غائب ہو جاتے ہیں، حوصلہ افزا خواب نایاب ہو جاتے ہیں اور امیدیں دم توڑ جاتی ہیں، عقلمند کی بیگانگی بڑھ جاتی ہے، لوگوں کی ذاتی شناخت ختم ہوجاتی ہے اور جماعت، گروہ یا فرقہ ان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
مبلغین کے شور شرابے میں دانشوروں کی آواز گم ہو جاتی ہے۔ بازاروں میں ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے اور وابستگی کی بولیاں لگ جاتی ہیں، قوم پرستی، حب الوطنی، عقیدہ اور مذہب کی بنیادی باتیں ختم ہو جاتی ہیں اور ایک ہی خاندان کے لوگ خونی رشتہ داروں پر غداری کے الزامات لگاتے ہیں۔
بالآخر حالات اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں کہ لوگوں کے پاس نجات کا ایک ہی منصوبہ رہ جاتا ہے اور وہ ہے "ہجرت”، ہر کوئی ان حالات سے فرار اختیار کرنے کی باتیں کرتا ہے، تارکین وطن کی تعداد میں اضافہ ہونے لگتا ہے، وطن ایک سرائے میں بدل جاتا ہے، لوگوں کا کل سازو سامان سفری تھیلوں تک سمٹ آتا ہے، چراگاہیں ویران ہونے لگتی ہیں، وطن یادوں میں، اور یادیں کہانیوں میں بدل جاتی ہیں۔”
ابن خلدون خدا آپ پر رحم کرے! کیا آپ ہمارے مستقبل کی جاسوسی کر رہے تھے؟ آپ سات صدیاں قبل وہ دیکھنے کے قابل تھے جو ہم آج تک دیکھنے سے قاصر ہیں!
(مقدمہ ابن خلدون سے ماخوذ)