۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ورنہ لات پڑتی رہے گی !

✍️ شکیل رشید

________________

جمعہ کے روز سے میرے تصور میں رہ رہ کر دہلی میں نمازیوں پر لات اور گھونسے چلانے والا ویڈیو ، خبر اور تصاویر گھومتی رہی ہیں ۔ اور مَیں ہی کیا اس ملک کے اور بیرون ممالک کے مسلمان بھی ، ایک پولیس اہلکار کے ذریعے سجدے میں پڑے نمازیوں پر بوٹ سمیت لات برسانے ، اور گھونسے مارنے کی ویڈیو دیکھ کر بے چین ہو اٹھے ہوں گے ۔ شاید لفظ بے چین درست نہیں ہے ، یوں کہا جا سکتا ہے کہ ہکا بکا رہ گیے ہوں گے ، اور سوچ میں پڑ گیے ہوں گے کہ کیا اب اُن کی اس ملک میں یہ اوقات رہ گئی ہے کہ ایک پولیس اہلکار اپنے بھاری بوٹ کے ساتھ ان پر لات چلائے ، اور اس کی سزا بس معطلی ہو ! اس ملک میں 2014 کے بعد بلاشبہ حالات بدلے ہیں ، بے شک فرقہ پرستی میں بھاری اضافہ ہوا ہے اور ایسے لوگ جنہیں پہلے سیکولر اور لبرل جانا جاتا تھا یرقانی رنگ میں رنگ گیے ہیں ۔ بہت کچھ ہوا ہے ، مسلمانوں پر غیرشرعی پابندیاں عائد کرنے کی کوششیں ، مار پیٹ اور ماب لنچنگ وغیرہ وغیرہ ، لیکن دہلی میں جو ہوا ویسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ! یہ تو ہو رہا ہے کہ ملک بھر میں اکیلے اور نہتے مسلمانوں کو گھیر کر ان سے جئے شری رام کا نعرہ لگوایا جا رہا ہے ، لیکن کسی نماز پڑھتے ہوئے شخص پر کوئی خاکی وردی پوش لات اور گھونسے چلائے ، ایسا میرے سُننے میں نہیں آیا ، حالانکہ پولیس سخت متعصب ہوگئی ہے ۔ کیا اس ملک کے مسلمان اور ان کے لیڈران ، اس ملک کے علماء اور مسلمان دانشوران کو دہلی کے واقعے پر کوئی بے چینی ہے ، انہیں کوئی احساس ہے کہ یہ جو ہوا ہے ، اس کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب اس ملک کے مسلمانوں کو اپنی شناخت کے تحفظ کے لیے اٹھنا ہوگا ، لڑنا ہوگا ، آگے بڑھ کر اپنے حقوق حاصل کرنے ہوں گے ، بصورت دیگر ان کے کولہوں پر بھاری بوٹوں والے لات معمول کا حصہ بن جائیں گے ، اور پھر جب وہ لات گھونسوں پر لیے جائیں گے تو ایک دنیا اُن پر ہنسے گی اور لاتیں پڑتی رہیں گی ۔ اگر جمعہ کی نماز کے لیے تمہارے پاس مسجد نہیں ہے تو اوروں کی طرح یہ ملک تمہیں بھی یہ حق دیتا ہے کہ تم سڑک پر نماز پڑھو ۔ جب دھارمک مقاصد کے لیے اوروں کو سڑکوں ، گلیوں اور محلوں کے استعمال کی اجازت ہے ، تو مسلمانوں کو کیوں نہیں ؟ اگر اس لیے ان کو اجازت نہیں کہ وہ مسلمان ہیں تو یہ انتہا درجہ کی فرقہ پرستی اور نسل پرستی ہے ۔ حقوق کے حصول کے لیے لڑنے کا مطلب جنگ نہیں ہے ، نہ جہاد ہے ، اس کا مطلب اپنے حقوق کی بِنا رُکے اور جھکے مانگ ہے ، مسلسل آواز کا اٹھانا ہے ۔ آواز بند ہوئی تو سمجھ لیں سانس بھی بند ہوجائے گی ، لہٰذا اپنی زندگی کا ثبوت دیں اور بالکل صبر سے اور امن قائم رکھتے ہوئے اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: