Slide
Slide
Slide

رمضان اور چندے کا دھندا !

✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

______________

اللہ کرے رمضان المبارک کا پہلا دن سب کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دے ، آمین ۔ لیکن خوشیوں کے حصول کے لیے لازمی ہے کہ ہر روزہ دار غمخوار بنے ۔ یہ مہینہ ہے ہی غمخواری کا ۔ غمخواری کا مطلب لوگوں کے دُکھ درد میں شریک ہونا اور مقدور بھر اُن کی تکلیفوں کو دور کرنے کی سعی کرنا ہے ۔ اور یاد رکھیں کہ جن کے مسائل اور جن کی تکلیفوں کو دور کرنے کے لیے اقدام کرنا ہے ، کوششیں کرنی ہیں ، وہ صرف دینی مدرسے ہی نہیں ہیں ، عام سے لوگ بھی ہیں ، عزیز و رشتے دار بھی ہیں اور دوست و احباب بھی ہیں ۔ ذرا غور کریں ، ذہن پر زور دیں اور سوچیں کہ کیا روزے دار اپنی آسائش میں دوسروں کی ، جن میں اعزاء اور پڑوسی بھی شامل ہیں ، کسمپرسی کو نظر انداز نہیں کرتے رہے ہیں ! جب سوال کیا جاتا ہے کہ زکوۃ کسے دی ، خیرات کس کے حوالے کی ، تب سیدھا سا جواب آتا ہے ؛ فلاں فلاں مدرسے کو ۔ ٹھیک ہے مدرسے دین کا قلعہ ہیں ، ان کی امداد کی ہی جانی چاہیے ۔ لیکن آج مدرسوں کی صورتِ حال کچھ  پیچیدہ ہو گئی ہے کہ یہ یقین زکوۃ دینے کے بعد بھی نہیں ہو پاتا کہ جن مدرسوں کو رقمیں دی گئی ہیں وہ واقعی میں وجود رکھتے ہیں یا ان کا وجود صرف کاغذ پر ہے ! شہر ممبئی کی ایک معزز شخصیت کے مطابق چند علاقوں میں ، جہاں تین چار معتبر مدرسے ہیں ، دین سے بے نیاز کچھ دنیا دار مولوی رمضان شروع ہونے سے پہلے چند ایک کمرے کرائے پر لے کر اس پر مدرسے بلکہ دارالعلوم کا بورڈ لگا کر زور و شور سے چندہ وصولی اور زکوۃ وصولی کا دھندا شروع کر دیتے ہیں ، اس طرح وہ ، جو حقیقی اور امداد کے مستحق مدرسے ہوتے ہیں ، اُن کی آمدنی پر شب خون بھی مارتے ہیں اور زکوٰۃ کی ادائیگی کرنے والوں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ زکوۃ کی رقم اگر کوئی دھوکے باز ہڑپے گا تو بھلے زکوۃ کی رقم دینے والا سمجھتا رہے کہ اس کی زکوۃ ادا ہو گئی ہے ، زکوۃ ادا نہیں ہوتی ۔ ان دنوں ممبئی میں سفراء بھرے پڑے ہیں ، یہ ان جماعتوں کے ذمے داران سے جو تصدیق نامے جاری کرتے ہیں ہاتھاپائی تک کرتے ہیں ۔ کل ہی جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے ایک کارکن کو مظفر نگر سے آئے ایک مدرسے کے سفیر نے صرف اس لیے تھپڑ رسید کردیا کہ اس نے یہ کہہ دیا تھا حضرت آج تصدیق جاری کرنے کا وقت ختم ہو گیا ہے کل آئیں ۔ سفراء میں ایک اچھی خاصی تعداد ایسی ہے جنہیں مہذب انداز میں بات کرنا نہیں آتا  ، جو مدرسوں کے دستاویزات مانگنے پر جرح اور بدتمیزی پر اتر آتے ہیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ عرصے سے مدرسوں کے سلسلے میں ایک نظام بنانے کی بات کی جا رہی ہے مگر اب تک کوئی نظام بن نہیں سکا ہے ۔ اور آئندہ کبھی شاید نہیں بن سکے گا ۔ نظام کا مطلب ہے ملک بھر کے مدرسوں کی فہرست  ، بچوں کی تعداد اور آمدنی و ضروریات کی تفصیلات ۔ اگر یہ تمام معلومات ہوں گی تو زکوۃ  ، خیرات  ، امداد اور چندے کی تقسیم کا کام آسان ہوجائے گا ۔ لیکن یہ اس لیے ممکن نہیں ہے کہ بہت سے مدرسوں کا دھندا بند ہو جائے گا ۔ روزانہ مدرسے کھلتے چلے جا رہے ہیں ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ دیوبند میں ، جہاں ام المدارس دارالعلوم دیوبند ہے ، وہاں سے ڈھائی سو مدرسوں نے تصدیق ناموں کی درخواست دے رکھی ہے ! بھلا صرف ایک دیوبند میں اتنی بڑی تعداد میں مدرسوں کا کیا جواز ہے ! لہذا مدرسوں کا نظام ضروری ہے اور زکوۃ و امداد دینے والوں کے لیے اور تصدیق نامے جاری کرنے والے اداروں و جماعتوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ جانچ پڑتال کر لیں کہ جس مدرسے کو  زکوۃ دی جا رہی ہے اور جس مدرسے کو تصدیق نامہ جاری کیا جارہا ہے وہ حقیقی ہے بھی کہ نہیں ، اور مطمئن ہونے کے بعد ہی اسے زکوۃ دیں اور تصدیق نامہ جاری کریں ۔ اللہ کے لیے چندے کے دھندے پر روک لگانے کے لیے کچھ تو کریں!

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: