Slide
Slide
Slide

فارغین مدارس میں ایڈوانسڈ اسکلس کا فقدان کیوں؟

✍️ مشتاق نوری

_________________

علم دین کا حصول ایک عبادت ہے اور عبادت میں پروفیشنل اسکوپ نہیں ہوتا۔ اکابرین امت نے علوم قرآن و حدیث کو معیشت و اقتصاد کا سورس نہیں بنایا۔ آپ وقت کے بڑے عالم، فقیہ، محدث، مفسر ہو سکتے ہیں مگر بیک وقت آپ مسکین بھی ہو سکتے ہیں۔آپ تنگ حال بھی ہو سکتے ہیں۔ضروریات کے لیے ضرورت بھر مال کی تنگی سے پریشان رہ سکتے ہیں۔تمام تر دینی علوم کے باوصف حالات آپ کو کنارے کر سکتے ہیں۔
کیوں کہ علم شریعت، فقہ، حدیث و تفسیر یہ کسب مال و متاع کا ذریعہ نہیں ہیں۔یہ انسان کے اخروی معیار کی بلندی کا ضامن ہیں۔امام بخاری جیسے محدث، امام غزالی جیسے عالم شرع و فلسفہ بھی روزگار کے مسئلہ سے نبرد آزما رہے ہیں۔وہیں پر حضرت ابو بکر جیسے خلیفہ اول نے گھر کی معاشی پوزیشن مینٹین کرنے کے لیے کپڑے کی پھیری کا کام کیا ہے۔حضرت امام ابو حنیفہ بھی کپڑے اور دیگر تجارت سے گھر چلاتے تھے۔امت کے تقدس مآب اکابرین و سرکردہ شخصیات نے اپنے اپنے دور میں چھوٹی موٹی تجارت سے اپنی گرہستی چلائی ہے۔کسی نے بھی دین کو مال کمانے کا سورس نہیں بنایا۔اسی لیے قوم میں ان کا احترام و وقار بھی بحال رہا۔آج ہم تھوڑا دین پڑھ کر مکمل طور پر قوم کے رحم و کرم پر منحصر ہو جاتے ہیں جیسے کوئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کے مغرور لوگ علما کو امام نہیں بلکہ اپنا بندھوا مزدور یا محکوم سمجھتے ہیں۔

باوقار طریقے سے گھر چلانے اور اہل و عیال کی بہتر زندگی کے لیے آدمی کے پاس مناسب ہنر، ایڈوانسڈ اسکل ہونا بے حد ضروری ہے۔مسابقات و مقابلات کے اس ہماہمی بھرے دور میں یہ اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ باشعور آدمی خود کو ہنر مند رکھے۔آج ہمارے خریجین مدارس اسی لیے پریشان ہیں کہ اسکل بھی نہیں، کوئی آؤٹ سورس ہنر بھی نہیں۔تجارت کرنے کی صلاحیت بھی زیرو۔ایسے میں معاشی افرا تفری پھیلنا لازمی ہے۔برسر روزگار شخص مطمئن ہوتا ہے۔بے روزگار کے لیے ہر لمحہ وبال ہے۔

آج مدارس کے علما فضلا کی ایک بڑی کھیپ روزگار کے مسائل سے پریشان ہے۔مساجد و مدارس اتنے ہی ہیں مگر ہر سال لاکھوں کی تعداد میں خریجین آ رہے ہیں۔ایسے میں ہر ایک کو جگہ مل پانا ایک بڑا مسئلہ ہے۔جسے مل گئی وہ نعمت سمجھے۔

جب جگہ نہیں بن پاتی تو پھر معاشی مسائل جنم لیتے ہیں۔پھر ذہن میں کئی طرح کی منفی نفسیات پنپنے لگتی ہیں۔بعض اوقات آدمی حلال و حرام کی تمیز بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔اخلاقیات بھی فراموش کر جاتا ہے۔شرعی حدود و قیود بھی سائڈ کر دیتا ہے۔

اپریل ۲۰۱۸ کی بات ہے۔ پٹنہ کے آس پاس میں امامت کی جگہ پر مقرر ہوا۔بہت اچھی جگہ تھی۔ابھی چند روز ہی ہوۓ تھے۔ایک ملنے جلنے والے مولوی صاحب نے مجھے فون کیا کہ مشتاق بھائی ۶؍ مہینے سے گھر بیٹھا ہوں امامت کی جگہ تلاش رہا ہوں۔آپ توجہ دیں تاکہ کہیں سیٹ ہو جاؤں۔میں نے کہا ٹھیک ہے دو چار دن بعد فون کیجئے۔چند روز بعد پھر اس نے کال کیا۔تو میں نے کہا کہ آپ گھر میں بالکل فری بیٹھے ہیں تو آ جائیے؟ اس نے کہا کوئی کام نہیں ہے فری ہوں۔میں نے کہا آ جائیں میرے پاس سب انتظام ہے۔یہیں سے جگہ تلاشیں گے جیسے ہی مل جاۓ گی تو آپ چلے جائیے گا۔

مولوی صاحب آگیا۔ اس کے لیے میں اپنے تعلقات و احباب سے بذریعہ فون بات کرتا رہا کہ بھئی میرے ایک خاص دوست ہیں اسے جگہ کی تلاش ہے آپ دھیان دیں۔اسی اثنا میں مجھے ضلعے سے باہر ایک مولود شریف کی محفل میں جانا تھا۔میں نے اسے کہا کہ میری غیر موجودگی میں آپ امامت کر دیں۔میں چلا گیا۔دو روز کے بعد لوٹا تو متولی کہنے لگا کہ حضرت آپ تو ہمیشہ  جلسہ جلوس میں مصروف رہتے ہیں وقت دے نہیں پائیے گا اس لیے ہم لوگوں نے آپ کے دوست کو امام منتخب کر لیا ہے۔یہ سن کر تھوڑی دیر کے لیے میرے پاؤں تلے زمین کھسک گئی۔میں نے پوچھا کہ کس نے کہا کہ میں ہمیشہ پروگرام میں رہتا ہوں۔تو جواب ملا کہ آپ کے دوست نے ہی بتایا کہ یہ تو جلسہ جلوس میں ہی رہتے ہیں۔امامت ان سے نہیں ہو پاۓ گی۔
پھر مجھے بڑی مایوسی کے ساتھ اس مولوی کا مکروہ چہرہ دیکھنا پڑا۔وہ پاس ہی منافقانہ و فاتحانہ انداز سے بیٹھا ہوا تھا۔میں نے سوالیہ نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو نظر نیچی کر کے رہ گیا۔ایسا فریب کھانے کے بعد میں اندر سے ہل گیا تھا کہ جس کے لیے میں اتنا کچھ کر رہا ہوں۔اپنی جگہ پر بلا کر مہمان کی طرح کھلایا پلایا اس نے یہ صلہ دیا۔پھر یہ سوچ کر دل کو ہلکا کیا کہ مولوی ہے۔بے روزگار بھی ہے۔کم ذات بھی ہے۔اس لیے چھل کر ہی سکتا ہے۔اس سے وفا کی امید کیسی۔میں اپنا بیگ اٹھا کر نکل آیا۔
میں اس مولوی کی مذموم حرکت پر بار بار سوچتا ہوں کئی زاویہ سے سوچتا ہوں تو مجھے لگتا ہے طویل وقفہ تک بے روزگار رہنے کے سبب اسے اس بد اخلاقی پر اترنا پڑا ہوگا۔صرف مسجد کے بھروسے رہنے کا یہی انجام ہو سکتا تھا کہ آدمی اخلاق، مروت، شریعت،  یارانہ سب کچھ فراموش کر جاۓ۔

میرا ایک بچپن کا یار ہے۔جب ہم لوگ آٹھ نو سال کی عمر میں تھے تو باضابطہ گاؤں کی روایت کے مطابق ہم دونوں کی دوستی کرائی گئی۔مخصوص قسم کی مجلس میں گاؤں کے مخصوص لوگ موجود تھے۔شیرینی کھیر کا انتظام تھا۔امام صاحب بھی تھے۔سب سے پہلے فاتحہ ہوئی۔پھر ہم دونوں کو ایک دوسرے سے مصافحہ معانقہ کرایا گیا۔پھر کپڑوں کا تبادلہ ہوا۔اور مولوی صاحب نے ہماری دوستی پر مخصوص دعا بھی کی۔
ہم دونوں کے والدین کی دلی خواہش تھی کہ بچوں کو عالم بنائیں گے۔حصول تعلیم کے لیے اپنے پڑوسی گاؤں میں چلے گئے۔اعدادیہ ابتدائی درجے میں پڑھنے لگے۔ابھی چند ہی ماہ گزرے تھے کہ دوست کی والدہ کا انتقال ہوگیا۔والد نے دوسرا نکاح کر لیا۔اس نے پڑھائی چھوڑ دی۔دہلی چلا گیا۔وہاں بھائی کے ساتھ ایک کارڈ کارخانے میں کام سیکھا۔کئی سال تک ورکر کی حیثیت سے کام کیا۔پھر اس نے اپنا کارخانہ ڈال لیا۔آج لگ بھگ ۵۰ سے زائد ورکرز اس کے پاس کام کرتے ہیں۔ایک ایک ورکر مہینے کے پچیس سے تیس ہزار تک کماتے ہیں۔اس کے ورکرز اسے باس یا بھائی کہ کر بلاتے ہیں۔

دوسری طرف، میں نے مدرسے میں اعلی تعلیم حاصل کی۔مدرسے کے بعد یونیورسٹی میں چھ سال پڑھائی کی۔امتیازی پوزیشن کے ساتھ ڈگری ملی۔اس کے بعد بھی کئی ڈپلومہ کیے۔آج نوبت یہ ہے کہ آٹھ یا دس ہزار کی جگہ کے لیے مارا مارا پھرنا پڑتا ہے۔اگر جگہ جم گئی تو بھی کوئی اطمینان نہیں کہ بنا کسی عذر کے کب آپ کو نکال دیا جاۓ۔میرا بچپن کا دوست اسکل اور بزنس مائنڈ کے سبب آج تقریبا ساٹھ ستر سے بھی زائد لوگوں کو روزگار دے رہا ہے۔وہیں میں دوسرے کو کیا دوں گا، خود کے لالے پڑے ہوۓ ہیں۔اسکل کی کمی سے یہ دن دیکھنے پڑے ہیں۔

مظفر پور میں میرا اور ایک مدرسہ میٹ تھا۔حفظ مکمل کیا۔اس کے بعد ایک دو چھوٹی جگہوں پر امامت بھی کی۔بڑے جوشیلے تیور کا تھا۔بڑا خود دار اور نڈر قسم کا۔مجھ سے کہا کہ مشتاق بھائی امامت ہم جیسوں سے نہیں ہو پاۓ گی۔کچھ دوسرا سوچنا ہوگا۔یہ مسجد و مدرسہ کے صدر و سیکرٹری خود کو فرعون سے کم نہیں سمجھتے۔

کچھ دنوں بعد جب دوبارہ ملے تو دیکھا کہ اس نے کباڑی (ٹوٹے پھوٹے سامان) کا کام شروع کیا ہے۔کباڑ خریدتے بیچتے ہیں۔مجھے تو یہ بہت ہی خراب لگا۔اب بھی لگ رہا ہے مگر یہ سوچ کر مطمئن ہوں کہ بندہ امامت و تدریس میں کسی کی غلامی میں تو نہیں ہے۔خود کفیل ہے آج اتنا کما رہا ہے کہ کسی کو بھی دے کر چلا سکتا ہے۔ورنہ امامت میں آدمی ہمیشہ مسکین صفت ہی رہتا ہے۔صرف لینے کی نفسیات بن جاتی ہے دینے کا خیال بھی نہیں آتا۔آج اس حافظ صاحب کا دھندہ بہت ترقی کر گیا ہے۔آج وہ اتنی زکوٰۃ نکال دیتا جتنا کوئی عامی مولوی سال میں کماتا ہوگا۔

اس لیے مدارس انتظامیہ سے گزارش ہے آپ محض رسمی تعلیم ہی نہ دیں بلکہ طلبہ کے اندر عصریات کے تقاضے پورے کرنے کی صلاحیت بھی پیدا کریں۔وسائل کی کمی نہیں ہے اس لیے طلبہ کو علوم حدیث و قرآن کے ساتھ اپ دیٹ تعلیم و تربیت سے بھی آراستہ کرنے کا نظم کریں۔اور طلبہ سے اپیل ہے کہ آج دنیا بہت آگے نکل چکی ہے یہاں ہر کام نئے طرز میں ہوتا ہے۔پہلے امامت و تدریس میں بڑی آسانی تھی اب یہ دشوار گزار سفر بن گئی ہے۔اسی لیے صرف مولوی بن کر نہ رہیں بلکہ اپنے اضافی اوقات میں خود کو ڈیولپ کریں۔صرف امامت کے بھروسے رہنا خود کو ذلیل کرنے کے لیے وقف کرنا ہے۔مدرسے میں منطق و فلسفہ کا سبجیکٹ ٹف لگتا ہوگا مگر بعد فراغت معیشت کا موضوع پڑھنا ہے جو بہت مشکل لگتا ہے۔اگر آپ نے معاش کا مسئلہ حل کر لیا تو زندگی کے امتحان میں کامیاب ہو گئے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: