✍️ عبدالحمید نعمانی
_________________
ملک میں ایک خاص طرح کا ماحول بنا کر اس کے باشندوں میں فرقہ وارانہ تفریق و تقسیم پیدا کرنے کا کام زبردست طریقے پر کیا جا رہا ہے، اس میں مختلف شعبہ ہائے حیات سے وابستہ افراد شامل ہیں، پروپیگنڈا کا عمل اس قدر تیز اور منصوبہ بند طریقے پر ہو رہا ہے کہ عدالتوں کے ججوں پر بھی اس کے اثرات نظر آ رہے ہیں، مسلم معابد و ماثر کے متعلق برٹش سامراج کے عہد میں "لڑاؤ اور حکومت کرو "کی پالیسی کے مطابق ہندو عمارت و عبادت گاہ ہونے کے شوشے چھوڑے گئے اور دور کی کوڑی لانے کی بد ذوقی کے تحت غلام ذہنیت کے حامل لوگوں نے اسے زیادہ غور و فکر کیے بغیر، بڑی سعادت مندی اور کھلے دل سے نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے تحریک کی شکل دے کر فرقہ وارانہ خلیج کو مزید وسیع کرنے کا کام شروع کر دیا، مقامات اور شخصیات کے تاریخی کردار کو بالکل الگ اور غلط رنگ میں پیش کرنے کا کام چل رہا ہے، مدھیہ پردیش کے دھار اور اس میں واقع سلسلہ چشتیہ نظامیہ کے بزرگ حضرت کمال الدین چشتی رح کے نام پر تعمیر مسجد اور درگاہ کے متعلق بھی یہی کچھ کیا گیا اور آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے، کچھ دنوں سے اسے بھوج شالہ اور سرسوتی مندر قرار دے کر مسجد/درگاہ کی پوزیشن، ، ختم کر نے کی تحریک و سعی زوروں پر ہے، اس مسئلے کو وسیع تر تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے، اجین، مالوہ ،اس کی راجدھانی دھار، بھوپال، مانڈو، شادی آباد، وغیرہ کوئی گم نام اور پر اسرار نہیں ہیں کہ ان کے متعلق کچھ بھی کہہ کر مفروضہ کہانی کو تاریخ میں بدل دیا جائے، ہندوتو وادی سماج کہانی گھڑنے میں خاصا ماہر رہا ہے، لیکن اس نے معتبر تاریخ لکھنے کی زحمت نہیں کی، ضرورت اس بات کی ہے کہ معروف مقامات اور عمارتوں کی اصل تاریخ کو سامنے لایا جائے کم یاب اور نا قابل ہو چکے اور ماضی میں شائع شدہ تاریخی شواہد کو بہتر طور ایڈٹ کر کے از سر نو جدید معیار اور موجودہ حالات کے مطابق تحقیق مزید کے ساتھ شائع کیا جائے، حالات و زمانے کی تمام تر بے رحم گردشوں کے باوجود تاریخی کتب اور مواد کا خاصا بڑا حصہ ملک، بیرون ممالک کی لائبریریوں اور لوگوں کے ذاتی ذخائر میں محفوظ ہے، دہلی، پٹنہ، حیدرآباد، رام پور، دیوبند، لکھنؤ، جون پور، بھوپال، اعظم گڑھ، علی گڑھ، احمد آباد وغیرہ کے مختلف کتب خانوں میں تاریخی ذخائر، اب بھی محفوظ ہیں، متعلقہ معاملات و موضوعات پر با اہل تحقیق کاروں کی معقول اعانت کر کے ان کو کام پر لگا کر حقائق کو سامنے لایا جا سکتا ہے، ماضی میں کئی چیزوں کو از سر نو تحقیق و تنقیح کے ساتھ شائع بھی کیا گیا ہے، مالوہ ریاست، راجدھانی دھار، اجین وغیرہ کے آثار و تواریخ کا بھی خاصا بڑا حصہ ماضی میں شائع ہو چکا ہے، بہت سی تحریریں آنکھوں سے اوجھل ہو گئی ہیں، ان کو تھوڑی توجہ سے زیور طباعت سے آراستہ کر کے منظر عام پر لایا جا سکتا ہے، اس سلسلے میں کسی بھی طرح کی مایوسی اوراحساس کمتری کو راہ دینے کا کوئی جواز نہیں ہے،
تاریخ کے جو حقائق ہیں وہ ہندوتو وادی دائیں بازو کے لکھنے بولنے والوں کے بالکل برخلاف ہیں، جن مسلم حکمرانوں نے ریاست مالوہ اور راجدھانی دھار میں مسجدیں، عمارتیں تعمیر کی ہیں، انھوں نے تنگ نظری اور تعصب سے کام نہیں لیا ہے، ہندی، سنسکرت کی ترویج و ترقی کے علاوہ فن تعمیر کو فروغ دینے میں اہم رول ادا کیا ہے، مساجد اور دیگر عمارتوں کی تعمیر میں مسلم حکمرانوں سے پہلے منہدم شدہ یا منہدم کردہ عمارتوں اور کھنڈرات کا میٹیریل، ملبے کا بھی استعمال کیا گیا ہے، مالکان سے ملبے خرید کر استعمال کرنے کے حوالے بھی ملتے ہیں، اس کا ہندو مندر ،مکتب توڑ کر مسجد، درگاہ کی تعمیر سے اصلا کوئی تعلق نہیں ہے، بیشتر معمار، مزدور ہندو، غیر مسلم ہوتے تھے، انھوں نے مذہبی، غیر مذہبی عمارتوں کی تعمیر میں اپنے فن تعمیر کا بے جھجک، کھل کر اظہار و استعمال کیا ہے، ساتھ میں کچھ مسلم معمار و مزدور بھی ہوتے تھے، مسلم دور حکومت میں ہندو مسلم دونوں کی آمیزش سے مسجد، مدرسے، اور دیگر عمارتیں تعمیر کی گئی ہیں، منہدم شدہ ہندو عمارتوں کے ملبے کے استعمال میں بھی کسی اخفاء سے کام نہیں لیا گیا ہے، ترکوں، مغلوں کے یہاں تصاویر وغیرہ ممنوع نہیں تھیں، ایسا ملک کے مختلف مقامات کے مختلف عمارتوں کی تعمیر میں کیا گیا ہے، اس زمانے میں اسے برا بھی نہیں مانا جاتا تھا، غیر مسلم، معمار، مزدور، پورے طور سے ساتھ دیتے تھے، اسی کو بعد کے دنوں میں غلط طور سے مندر توڑ کر مسجد /مزار کی تعمیر کرنے کے ثبوت میں پیش کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ،یہ ایک من گھڑت تاریخ بنانے کی مذموم کوششوں کا حصہ ہے، اگر دیانت داری سے ،منظر، پس منظر کے ساتھ تاریخی حقائق اور مسلم حکمرانوں کے ادوار اور کاموں کو پیش کیا جائے تو بعد کے خصوصا ملک کی آزادی کے ساتھ جس قسم کے فرقہ وارانہ تنازعات پیدا کر کے ہندو ،مسلم ،دونوں فرقوں کے درمیان تفریق و نفرت کو بڑھاوا دینے کا کام کیا جا رہا ہے ان کا کوئی وجود و جواز نہیں رہ جائے گا،
مالوہ، دھار میں مسلم دور حکومت کے دوران میں ہندی، سنسکرت کی ترویج و ترقی کا خاصا کام ہوا تھا، لکھنے کی پوری آزادی تھی، دونوں زبانوں ،خصوصا سنسکرت میں بہت کچھ لکھا گیا ہے، سلطان محمود خلجی اول، ہندی کا بڑا عالم اور ہندی میں شاعری کرتا تھا، اس کے عہد میں، اس کی سرپرستی میں 1439 میں شادی آباد میں "جین کلپ سوتر "لکھی گئی، سنگرام سنگھ سونی نے سلطان محمود کے ساتھ رہ کر "بدھی ساگر "سنسکرت میں تحریر کی، سلطان غیاث الدین کے عہد میں تیج راج نے مانڈو میں زبان و قواعد کی کتاب "سارس دت” اس نے خود کو سلطان کا وزیر بتایا ہے، جین مت کے بڑے عالم، شروتا کریتی نے 1550 میں” پراکرت اپ بھرنش پرشیستی پرکاش سار "اور 1552 میں” برن ونش پران "لکھی، عہد ناصر شاہی میں بھی ہندی، سنسکرت زبانوں کا بہت فروغ ہوا، دونوں زبانوں میں بہت سی کتابیں، سلطان کی سرپرستی میں لکھی گئیں، بہت سی فارسی کتابوں کا ترجمہ سنسکرت میں بھی کیا گیا، لیکن کسی زبان کی کسی معتبر کتاب میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ کمال مولا مسجد جو درحقیقت جامع مسجد دھار ہے، کی تعمیر زبردستی کسی ہندو عمارت یا سرسوتی مندر کی جگہ کی گئی ہے ، جامع مسجد دھار کا بعد کے دنوں میں غلط طریقے سے بھوج شالہ کے نام سے پرچار کیا گیا اور آج بھی کیا جا رہا ہے، مسجد کے بھوج شالہ یا سرسوتی مندر ہونے کا کوئی معاصر اور مستند تاریخی ثبوت نہیں ہے، بھوج نام کے تین راجے ہوئے ہیں، جن کے بارے میں مختلف تاریخی کتب میں کئی طرح کی تفصیلات ملتی ہیں اور تواتر کے ساتھ عوامی و زبانی روایات بھی ہیں، تاریخ کے تعلق سے ایک معبتر کتاب، قاضی عبدالقدوس فاروقی کی مالوہ کی کہانی ہے، انھوں نے سرکاری ملازم ہونے کے ناتے، دھار میں رہ کر تمام تر دستیاب ذخائر کے مطالعے کے بعد اپنی کتاب لکھی ہے، کئی دیگر کتابیں بھی ہیں، کسی میں تینوں راجاؤں میں سے کسی کے تعلق سے اس کا کوئی مستند حوالہ نہیں ہے کہ مسجد کی جگہ، کوئی پاٹھ شالہ یا مندر کی تعمیر کی گئی تھی، جسے بعد میں جامع مسجد دھار، یا مسجد کمال مولانا میں تبدیل کر دیا گیا، کئی باتوں پر پردہ ڈالا جاتا ہے، راجا بھوج اول، پیغمبر عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاصر ہے، وہ 3/ہجری، مطابق 624 ۶ میں ہوا ہے، اس نے معجزہ شق القمر دیکھنے کے بعد اسلام قبول کر لیا تھا، راجا بھوج دوم 1010 ۶ سے 1055 ۶ میں ہوا ہے اس نے حضرت عبداللہ چنگال رح کے دست حق پرست پر مشرف بہ اسلام ہو کر اپنا نام عبداللہ رکھ لیا تھا، راجا بھوج سوم کا زمانہ 1303 سے علا۶ الدین خلجی کے مالوہ، دھار فتح کرنے تک ہے، (دیکھیں مالوہ کی کہانی، تاریخ کی زبانی، صفحہ 219)
مالوہ ریاست کے متعلق، سفر نامہ ابن بطوطہ، مروج الذھب، طبقات اکبری، آئین اکبری، تاریخ فرشتہ، آثار مالوہ، تاریخ مالوہ، اور دیگر کئی کتابوں میں مختلف قسم کی تفصیلات ہیں، کئی ضروری باتوں کو سمجھنے کے لیے، سفرناموں میں دہلی، ( دہلی اردو اکیڈمی ) ہندستان عربوں کی نظر میں، (دارالمصنفین اعظم گڑھ )ہندستان ،ابتدائی مسلم مورخین کی نظروں میں(فاروس میڈیا دہلی ) وغیرہ کتابیں بڑی معاون ثابت ہو سکتی ہیں، جامع مسجد دھار/مسجد کمال مولانا، کے سروے کا کام جاری ہے، اس کے حوالے سے من گھڑت باتیں پھیلانے کی مہم زوروں پر ہے، اس کا مقصد بہت واضح ہے، تاہم کئی سارے تاریخی حقائق کی روشنی میں، ہندوتو کے زیر اثر جاری سرگرمیوں پر نظر رکھتے ہوئے،ان کو، گہرائی میں جا کر سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کس طرح دیگر مقامات کے ساتھ جامع مسجد دھار کے تاریخی دھارے کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے،