کار امامت : کام بھی نہیں اور فرصت بھی نہیں
✍️ ابوفہد نئی دہلی
__________________
نماز پڑھانا ویسے کوئی خاص ذمہ داری کا کام نہیں ہے، کیونکہ نماز تو اپنی بھی پڑھنی ہوتی ہے۔اب اگر کوئی عالم دین مقتدی بن کر کھڑا ہونے کے بجائے خود امام بن کر کھڑا ہوجائے، تو اس صورت میں اس پر کونسی بھاری ذمہ داری آن پڑی بھلا۔کچھ بھی تو نہیں ۔ جتنا وقت ، جتنا اہتمام اور جتنی محنت اس کو اپنی نماز پڑھنے میں صرف کرنی ہوتی تقریبا اتنی ہی محنت ، اتنا ہی اہتمام اور اتنا ہی وقت اسے نماز پڑھانے کے لیے بھی درکار ہوگا۔ اس اعتبار سے امامت کوئی بڑی ذمہ داری والا کام نظر نہیں آتا مگر وقت کی پابندی کے لحاظ اور ایک ہی مقام پر دن رات میں کم از کم پانچ دفعہ حاضر باش رہنے کے اعتبار سے اور پھر اس لحاظ سے کہ ایک شخص کو ہزاروں نمازیوں کے نخرے برداشت کرنے ہوتے ہیں اور بطور خاص ان کے جو اس کے محسنین کی فہرست میں آتے ہیں ، جواس کے لیے کھانے پینے اور رہنے سہنے کا انتظام کرتے ہیں اور کھانے میں نمک کے برابر تنخواہ دینے کے لیے تگ ودو کرتے ہیں اگر وہ تگ ودو نہ کریں تو امام کو نمک کے برابر تنخواہ تو کیا محض نمک بھی نہ مل سکے، اگر ان تمام حوالوں کے ساتھ امام کی ذمہ داری کو دیکھیں تو یہ اپنے آپ میں بہت بڑی ذمہ داری بھی ہے۔
پنج وقتہ نمازوں کی امامت کے لیے بمشکل تمام تیس چالیس منٹ ہی درکار ہوتے ہیں ،کیونکہ امامت صرف فرض نمازوں کی کرائی جاتی ہے اور پانچوں فرض نمازوں کی امامت چالیس منٹ سے زیادہ وقت نہیں لے سکتی، خواہ وہ کتنے بھی سکون واطمئنان کے ساتھ ہی کیوں نہ ادا کی جائیں۔اس اعتبار سے چوبیس گھنٹے میں چالیس منٹ کے علاوہ باقی سارے وقتوں میں امام کو فرصت ہی فرصت ہےاور اس فارغ وقت میں جو ہر طرح سے اس کا اپنا ہے ، چاہے تو وہ کوئی کام کرے، چاہے تو کچھ بھی نہ کرے، کھیلے کود ےیا بحث وتکرار میں مصروف رہے، تنخواہ دینے والوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوسکتا ۔تاہم اتنی ساری فرصت اور فراغت کے باوجود یہ کہنا درست ہے کہ امام کبھی فرصت میں نہیں رہتا۔
بعض چھوٹے موٹے کاموں کے لیے اسے فرصت ضرور مل سکتی ہے مگر کسی بھی بڑے کام کے لیے فرصت نہیں مل سکتی ، مدرسے میں پڑھانے اور ٹیوشن کرنے کا وقت بے شک مل سکتا ہے مگر کاروبار کرنے کا وقت نہیں مل سکتا، کاروبار کے نام پر بھی بیشک مسجد سے ملحق چھوٹی موٹی دوکان ضرور چلا ئی جاسکتی ہے مگر کوئی بھی بڑا کاروبار کرنا امامت کے فرائض نبھانے کے ساتھ ساتھ ممکن نہیں۔کیونکہ امام دونمازوں کے درمیانی وقت میں اتنی دور بھی نہیں جاسکتا جہاں سے وہ دوسری نماز کے وقت تک نہ لوٹ سکے۔اور ایسے کام میں ہاٹھ نہیں ڈال سکتا جسے ’’جماعت‘‘ کے وقت روکا نہ جاسکے یا ختم نہ کیا جاسکے۔ ہونے کو تو بہت کچھ ہوسکتا ہے اور بعض علماء وائمہ ایسا کرتے بھی ہیں مگر ہم عمومی صورت حال کی بات کررہے ہیں، استثنائی مثالیں تو بہر حال ہر جگہ ہوتی ہیں۔ کوئی بھی کاروباری اپنے کام کے سلسلے میں ہر ماہ بلکہ ہرہفتے کئی کئی دنوں کے لیے گھر سے دور رہ سکتا ہے، مگر ایک امام ایسا نہیں کرسکتا۔ جب آپ ان پہلؤوں پر غور کریں گے تو آپ کو امامت کے فرائض کی مشکلات کا صحیح علم ہوسکے گا۔
نماز کے اوقات میں خاصی توسیع ہوتی ہے جبکہ ’جماعت‘ کے وقت میں توسیع نہیں ہوتی ، جماعت کے قیام کے لیے منٹ اور سکنڈ کی پابندی ہوتی ہے۔ اسی لیے اگر آپ امام نہیں ہیں تو آپ کو یہ سہولت حاصل ہے کہ نماز کے طویل وقت میں آپ کبھی بھی اور کہیں بھی نماز ادا کرسکتے ہیں، گھر میں بھی اورآفس میں بھی، روڈ پر بھی اور کھیت پر بھی۔ مگر کیا ایک امام بھی ایسا کرسکتا ہے ؟۔ ہرگز نہیں۔ بس اسی وجہ سے یہ بڑی ذمہ داری اورسخت پابندی والی جاب بن جاتی ہے۔ اور اس لیے امامت کی جاب کے بارے میں یہ کہنا درست ہے کہ ’’کام بھی نہیں اور فرصت بھی نہیں‘‘
دوسری بڑی بات جو امام اور امامت سے متعلق ہے وہ مختلف خیال اور مختلف مسالک کے نمازیوں کی منفعل مزاجی اور زود رنج طبیعت سے ٹکراؤ ہے۔ امام خواہ کتنا بھی قابل اور سلیقہ شعار کیوں نہ ہو اور کتنی بھی رواداری برتنے والا ہی کیوں نہ ہو، اہل محلہ میں کوئی نہ کوئی اس کا مخالف ہوتا ہی ہے۔ اور کسی کو اس کی ذات اور کردار سے شکایت نہ بھی ہو تو اس کے مسلک اور عقائد سے پریشانی ضرور ہوتی ہے ،کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ امام انتظامیہ کمیٹی اوربااثرنمازیوں کی اپنی چپقلش اور تکرار کا شکار ہوجاتا ہے اور کھانے میں نمک کے برابر تنخواہ والی جاب بھی ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔
مذکورہ تمام باتوں کی بنیاد محض سنی سنائی باتوں اور اڑی اڑائی افواہوں پر استوار نہیں ہے بلکہ اماموں کی زبانی بیان کی گئی ان کی اپنی کارگزاری، آپ بیتی اوررودادہے اور ان کی زندگی ،ان کے مسائل اور ان کے معاشرتی اسٹیٹس کا بہت قریب سے کیا گیا راقم السطور کا اپنا ذاتی مشاہدہ اورتجربہ ہے۔