تیرے غرور نے تجھ کو یہ دن دکھایا ہے
✍️ محمد قمر الزماں ندوی
____________________
گزشتہ کل چار جون کو اٹھارویں لوک سبھا (ایوان زیریں) کے نتائج صبح آٹھ بجے آنے شروع ہوئے ایک دو گھنٹے کے بعد یہ تصویر دکھنے لگی کہ پچھلے دو انتخابات کے مقابلہ میں اس بار حکمراں پارٹی بہت پیچھے ہے ،اس بار وہ تنہا حلیف جماعتوں کو ساتھ لئے بغیر اقتدار کے ایوان تک نہیں پہنچ ، سکتی، اس بار اس کا غرور خاک میں ملا ہے اور نخوت و تکبر کا نشہ کم ہوا ہے ۔ جس وقت یہ نتائج آنے شروع ہوئے ، یہ اشعار مستقل ذہن میں گردش کر رہے تھے بلکہ راقم گنگنا رہا تھا کہ
تیرے غرور نے تجھ کو یہ دن دکھایا ہے
تیری شکست تیرے آس پاس بیٹھی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا
یہ کون بول رہا تھا خدا کہ لہجے میں
اور ذہن میں یہ بات بھی بار بار آرہی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے تکبر کی رداء کو اپنے لیے خاص رکھا ہے اور وہ صرف اسی ذات کے لیے زیب ہے ، اللہ تعالیٰ بندے سے کہلواتا ہے کہ کہو "ھو المتکبر "
موجودہ نتائج یقینا بہت چونکا دینے والے ہیں ،مودی کی یہ سب سے بڑی اور بدترین شکست ہے ، بڑے بول کا سر نیچا ہوا ہے ۔ آگے کیا ہوگا ابھی تصویر واضح نہیں ہے ،لیکن جو ہوگا وہ بہت دلچسپ ہوگا، وزارت کی لالچ دلائی جائے گی ، پانی کی طرح ارکان کو خریدنے کے لیے پیسہ بہایا جائے گا اور بھی بہت کچھ حکومت و اقتدار کے حصول کے لیے کیا جائے گا۔ لوگ اس پر لکھیں گے ،قیاس آرائیاں کریں گے اور اپنے اپنے طور پر تبصرہ اور تجزیہ کریں گے ۔ میں تو عبرت و موعظت کے لیے صرف اس پہلو کو اجاگر کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اور اعلان کتنا واضح، بے لاگ اور حقیقت پسند ہے ۔ جو وہ اپنے بندے کی زبان سے اپنے بارے میں کہلواتا ہے کہ کہو ،، و تعز من تشاء و تزل من تشاء ،، کہ تو جسے چاہتا ہے عزت و تکریم سے نوازتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے ۔ من تشاء کی معنویت پر غور کیجئے کہ اس میں عمومیت کتنی ہے ، کوئی تخصیص نہیں ہے۔ نہ علم وفن کی قید نہ ادب و ہنر کی شرط نہ ذات اور پات کی خصوصیت اور نہ مذہب و عقیدہ کا بہانہ، من تشاء کا اصول سب سے بڑا اصول ہے یہی سب سے بڑا وقت کا فرمان ہے ۔۔
غرض عزت و ذلت دینا یہ بس اللہ تعالیٰ کی دست قدرت میں ہے ، اس پر ہمارا ایمان و عقیدہ ہونا چاہیے اور ہر وقت ہم سب کو اپنا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے ۔
آج سے تئیس چوبیس سال قبل کی بات ہے کہ سابق رکن پارلیمنٹ پھولن دیوی کو 25/ جولائی کو کچھ نامعلوم افراد نے نئی دہلی میں قتل کر دیا دیا تھا ۔ اس موقع پر مشہور ادیب صاحب قلم جناب مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی رح نے اس واقعہ پر ایک اداریہ تحریر فرمایا تھا ، جس میں عبرت و نصیحت کے پہلو کو نمایاں فرمایا تھا ، رات وہی مضمون پھر ایک بار مشاہیر و معاصرین نامی کتاب مرتبہ سید محمود حسن حسنی ندوی رح جس میں مولانا عبد اللہ عباس ندوی رح کی وفیاتی تحریروں کو مشاہیر و معاصرین کے نام سے کتابی شکل میں ترتیب دی گئی ہے ، نظر سے گزرا ، دل چاہا کہ اس تحریر کو قارئین باتمکین کی خدمت میں حاضر کر دوں تاکہ ،،و تعز من تشاء و تزل من تشاء ۔۔ کی حقیقت نگاہوں کے سامنے واضح ہو جائے:
"اس ملک کی سب سے اہم خبر جو کئی روز تک بڑے بڑے اخبارات کی سرخی بنی ، کئ روز تک ملک بھر میں جس کا چرچارہا، غالبا وہ یہی خیر ہے کہ ایک ناخواندہ بدنامیوں کی انتہا تک پہنچی ہوئی عورت ڈا کو رانی” کے لقب سے یاد کی جانے والی قتل کر دی گئی۔ صدر جمہوریہ نے تعزیتی پیام جاری کیا، سر براہ ملک وزیر اعظم اس کی ارتھی کے سامنے سر جھکائے دست بستہ نذر عقیدت پیش کرتے ہوئے دکھائی دیئے، پارلیمنٹ میں اظہار غم کیا گیا، خاص ہوائی جہاز سے اس کی لاش اس کے وطن بھیجی گئی، یا اکرام اور یہ قدردانی اور احترام کس کے تصور میں تھا اور دس برس پہلے کس کے گمان میں تھا کہ ایک مجرم قیدی کی اس درجہ آؤ بھگت ہوگی۔
زمانہ تیزی سے گزرتا ہے اور بہت ہی اہم ترین باتیں لوگوں کے حافظے سے اوجھل ہو جاتی ہیں، کچھ برس پہلے کی بات ہے کہ سابق شاہ ایران کے یہاں ایک فرزند پیدا ہوا تھا پورے
ایران میں چراغاں کیا گیا تھا کہ ایران کو ایک ولی عہد مل گیا اور اس سے بھی چند سال پہلے مصر کے سابق اور مرحوم بادشاہ کے ولی عہد کی پیدائش پر جشن میری عمر والوں کے لیے کل کی بات ہے۔
آج یہ دونوں صاحبان جو بھی شہزادے اور ولی عہد تھے خاک گمنامی کا پیوند ہو چکے ہیں۔ نہ جانے کن گلیوں میں ان کی صبح و شام بسر ہو رہی ہے۔ جن کے متعلق قرائن بتارہے تھے اور دستور ورواج کو دیکھتے ہوئے نظر آرہا تھا کہ ایک دن یہ جہاں پناہ شہنشاہ ہوں گے، ان کو بیک گردش روزگار ذلت و نامرادی کے غار میں دھنستے ہوئے ہم نے دیکھا ہے اور آج ذات و نامرادی کے
تارے نکلی ہوئی ایک دیہات ڈاکو کی رانی سرپر چڑھائی کی اقبال نے کیا کہا تھا۔
گاه شاهی به جگر گوشته سلطان ندهند گاه باشد که به زندانی چاہے بخشند
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بادشاہت بادشاہ کے جگر گوشے کو نہیں دیتے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کنویں میں گرفتار کو تخت شاہی میں بٹھا دیتے ہیں )
وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ“ میں حرف ”من ، کتنی عمومیت رکھتا ہے،
نہ علم و فن کی قید، نہ ادب و ہنر کی شرط ، نہ ذات اور بات کی خصوصیت، اور نہ مذہب و عقیدہ کا۔ بیانه "مَن تَشَاءُ“ کا اصول سب سے بڑا اصول ہے۔ یہی سب سے بڑا وقت کا فرمان ہے
جو آیت قرآنی ہے۔
شیخ سعدی نے کہیں لکھا ہے کہ اگر رزق عقل کی بنا پر اللہ کسی کو دیتا تو دنیا کے سارے کم عقل بھوکوں مر جاتے ، آج ہزاروں ارب پتی ایسے بھی ہیں جو صرف انگوٹھے کا نشان لگا سکتے ہیں۔ زیادہ تو نہیں دو چار میرے علم میں بھی ہیں۔ مگر ان کا نام لینا بھی خلاف ادب سمجھا جائے گا۔ اور مقصد بھی ان کی ذلت یا تضحیک نہیں ہے بلکہ دستور سماوی کو یاد دلاتا
ہے، جس میں صریح الفاظ میں ارشاد فرمایا گیا ہے: "وَتَرْزُقُ مَنْ تَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ”
اے اللہ تو جس کو چاہے بے حساب رزق دیتا ہے)
یہاں بھی یہی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ”مَن تَشَاءُ میں کتنی عمومیت ہے کوئی تخصیص نہیں ہے اور دنیا کے تجربات اور مشاہدات نے کبھی اس کی تائید نہیں کی۔
اس بات پر بات نکل آئی ورنہ ہمیں سیاسی داؤں پیچ سے بحث ہے اور نہ قاتل و مقتول کے درمیان محاکمہ کرنا ہے۔ یہ جن کا کام ہے وہ کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، مگر خدا کی بات اٹل تھی اور ہمیشہ اٹل رہے گی "۔
( مشاہدات و واردات)