✍️ شکیل رشید ( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )
___________________
اجتماعی قربانی کے نام پر دو کروڑ روپیے کے فراڈ کی خبر پر لوگوں کو حیرت نہیں ہونا چاہیے ۔ حیرت اس لیے نہیں ہونا چاہیے کہ مدتوں سے نام نہاد مذہبی ادارے مسلمانوں کو ٹھگتے آ رہے ہیں اور مسلمان مذہب کے نام پر آنکھیں بند کیے ٹھگے جانے کو خوشی خوشی برداشت کیے جا رہے ہیں ۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ بار بار ٹھگے جا رہے ہیں مگر ہوش کے ناخن لینے کو تیار نہیں ہیں ۔ محاورہ ہے کہ ’ لالچ بُری بلا ہے ‘ ، اور یہ سارے فراڈ کے دھندے ’ لالچ ‘ ہی کی بنیاد پر کیے جا رہے ہیں ۔ جو ادارے اور جو افراد فراڈ کے دھندوں میں ملوث ہیں وہ انسانی نفسیات کے ماہر ہیں ، وہ خوب جانتے ہیں کہ لفظ ’ سستا ‘ لوگوں کو راغب کر سکتا ہے ۔ حیدرآباد کے ایک غیر سرکاری ادارے ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ نے اسی لیے لفظ ’ سستا ‘ کا استعمال کیا اور لوگ ٹوٹ پڑے ۔ عام طور پر حصہ ۳۵۰۰ سے لے کر ۴۰۰۰ روپیے تک تھا ، اس لیے یہ خواب دکھایا گیا کہ نہ صرف قربانی کا حصہ سستا ہے ، بلکہ سستے حصے میں گوشت بھی دیا جائے گا ، گھر تک پہنچا دیا جائے گا ! بس کیا تھا لوگوں نے ۲۷۰۰ اور ۲۸۰۰ کے دام سے حصے لیے اور جب لوگ بقرعید کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے حصے کا گوشت لینے کے لیے ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ کے مراکز پر پہنچے تو نہ گوشت ہی ملا اور نہ ہی ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ کے دھوکے باز ہی ملے ، اور نہ ہی گھروں پر گوشت پہنچا ۔ لوگوں کو تقریباً دو کروڑ روپیے کا چونا لگا ۔ لیکن انہیں چونا لگنا ہی تھا کہ وہ بس ’ سستے ‘ کے نام پر دھوکے بازوں کی طرف کھنچتے چلے آئے تھے ، پہلے سے اکثر لوگ ان سے ناواقف تھے ۔ ’ فاؤنڈیشن ‘ کے ذمے داران اب فرار ہیں ، اگر وہ پکڑے بھی گیے تو کیا ہوگا ، مقدمہ ہی چلے گا ! نہ جانے ایسے ہی کتنے مقدمے چل رہے ہیں ، لوگ پریشان حال پیسے روپیے گنوا کر عدالتوں کے چکر کاٹ رہے ہیں ۔ اس ملک میں مذہبی شناخت اختیار کرکے لوگوں کو دھوکہ دینا بڑٓا ہی آسان ہے ۔ عام مسلمان مذہبی لگنے والے افراد پر بھروسہ کرتا ہے ، ان کی باتیں مانتا ہے ، اور بغیر چھان بین کیے ان کے کہے پر لبیک کہتا ہے ۔ اور پھر دھوکے کھاتا ہے ۔ لوگ خوب جانتے ہوں گے کہ کاروبار کے نام پر ، بغیر سود کی بینکاری کے نام پر ، پیسے ڈبل کرنے کے نام پر اور منافع دینے کے نام پر اس ملک میں مسلمان نہ جانے کتنی بار ٹھگے گیے ہیں ۔ ایک واقعہ سُن لیں ، علی گڑھ میں ایک صاحب نے کاروبار میں پیسے لگانے اور خوب منافع دینے کے نام پر پیسے جمع کیے ، پیسے دینے والوں میں دیندار افراد کی تعداد زیادہ تھی ، اس لیے کہ جس فرد نے پیسے جمع کیے تھے وہ ایک مولوی تھا ، ایک بڑے دینی ادارے کا فارغ ، اس پر کیسے بھروسہ نہ کیا جاتا ! وہ شخص اچھا گھر کرائے پر لیے ہوئے تھا ، اور ایک بہترین کار سے سفر کرتا تھا ، لوگوں کو یقین تھا کہ ایسا شخص بے ایمانی نہیں کر سکتا ۔ لیکن اس نے سب کو لوٹ لیا ۔ سب سر پکڑ کر بیٹھ گیے ۔ چونکہ معاملہ بھروسے کا تھا اس لیے کسی نے کوئی کاغذی کارروائی بھی نہیں کی تھی ، یعنی اس فراڈی کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا ۔ وہ آرام سے کروڑوں روپیے لے کر چلتا بنا ! ایسا فراٖڈ بار بار ہوتا رہا ہے ، اور اگر فراڈیوں کے خلاف لوگ نہ جاگے تو ایسا فراڈ ہوتا رہے گا ۔ جہاں تک قربانی کے نام پر فراڈ کا معاملہ ہے تو یہ ہوتا چلا آ رہا ہے ، اور لوگ یہ جانتے ہوئے بھی کہ فراڈی انہیں لوٹ رہے ہیں ، بچنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ اجتماعی قربانی کے نام پر حجاج کو نہیں بخشا گیا ہے تو عام مسلمانوں کو کہاں سے بخشا جائے گا ! اسی ممبئی میں ایک گروپ مکہ مکرمہ میں آسانی کے ساتھ قربانی کی سہولت بہم پہنچانے کا دعویٰ کرتا تھا ، اس نے خوب پیسے جمع کیے ! وہ بے نقاب ہوا ، لیکن تب تک نہ جانے کتنے حجاج کرام کو چونا لگ چکا تھا ، ان کے نام کی قربانی نہیں ہو سکی تھی ! پتا نہیں ان کا حج قبول ہوا یا نہیں ! یہی کچھ اس ملک کے متعدد مسلم اداروں میں ہو رہا ہے ۔ کوئی ’ خدمت فاؤنڈیشن ‘ کی طرح بے نقاب ہو جاتا ہے ، اور کوئی بڑی خاموشی سے عرصے تک لوگوں کو لوٹتا رہتا ہے ۔ لہذا عام لوگوں کو چاہیے کہ ، بھلے ان کے سامنے کوئی مذہبی شخص ہی کوئی منصوبہ کیوں نہ رکھے ، وہ مکمل طور پر چھان بین کر لیں ، کسی کے کہنے میں نہ آئیں ، اور مطمئن ہونے کے بعد ہی قدم اٹھائیں ۔ اور اگر کوئی غیر مذہبی شخص منصوبہ پیش کرے تو مزید احتیاط برتیں ۔ مذہب کے نام پر آنکھیں بند کرکے کسی کے پھندے میں نہ پھنسیں ۔