تعلیمی زاویے:تعارف وتجزیہ
✍️ عبد العظیم الاعظمی
_____________
نام:تعلیمی زاویے
مصنف:ڈاکٹرمحمد خالد
صفحات:168
قیمت:300
ناشر:الہدی پبلی کیشنز،دھلی
_____________
”تعلیمی زاویے“ ڈاکٹر محمد خالد اعظمی پروفیسر شعبہ معاشیات شبلی کالج اعظم گڑھ کے تعلیم پر لکھے گئے 16/مضامین کا مجموعہ ہے۔زیر نظر کتاب میں تعلیم کے متعلق متعدد اہم مباحث پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے،پہلا مضمون ”اعلی تعلیم اور غیر جمہوری اقدار کا فروغ ایک لمحہ فکریہ“ہے،جس میں تعلیمی اداروں میں کردار سازی کے فقدان اور کالج و یونیورسٹیوں کے کیمپس کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دوسرا مضمون”تعلیم اور ذہنی استعداد“ اس میں ایک تعلیمی ادارے کی شروعات، اس کامقصد ومشن،طلبہ کی ذہنی سطح،نصاب،طریقہ کار پر روشنی ڈالی گئی ہے،یہ اپنے موضوع پر بہت عمدہ مضمون ہے اور اختصار کے ساتھ ایک تعلیمی ادارے کے قیام سے اس کے مکمل نصاب اور طریقہ تعلیم اور امتحان وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے۔تیسرا مضمون ”اعلی تعلیم اور معاشرتی ارتقاء“ہے،اس میں پیشہ وارانہ تعلیم کی طرف بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں اخلاقیات اور تربیت کے فقدان پر روشنی ڈالی ہے،اسی مضمون میں موجودہ تعلیم یافتہ لوگوں کی صورتحال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”آج ایک طالب علم کی ذہنی فراست و قابلیت کو ان اسناد اور ڈگریوں سے پرکھا جاتا ہے جو اس نے دوران تعلیم حاصل کیا ہے اور یہ قطعا نہیں دیکھا جاتا ہے کہ کیا ان اسناد کے ساتھ اس کے اندر اخلاق وکردار اور ذمہ داری و آگہی کا احساس بھی پیدا ہوا ہے یا نہیں۔تعلیم کے ذریعہ انسان کی ذہنی تربیت کے ساتھ اخلاقی تربیت اور کردار سازی بھی ہوتی ہے تاکہ اس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کرکے اس کی ایک سمت متعین کی جاسکے اور وہ معاشرہ و خاندان کے تئیں کارآمد بن سکے۔موجودہ دور کے تعلیم یافتہ افراد بہترین ڈاکٹر،انجینئر،سائنس داں اور محقق ہوتے ہیں؛لیکن اکثر و بیشتر ان اخلاقی محاسن اور کردار سے بالکل عاری ہوتے ہیں جو انسانیت کا بنیادی جوہر،معاشرے کی ترقی کی بنیاد ہے،بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ آج کل زیادہ تر تعلیمی اداروں میں ذہن سازی کا کام تو اعلی پیمانے پر ہورہا ہے،لیکن اخلاق و کردار سازی کی طرف توجہ خال خال ہی دی جاتی ہے،علم کا حصول ایک انسان کی انفرادی کوشش ہوتی ہے لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ اجتماعی شکل میں ہی ظاہر ہونا چاہئے۔اگر ایک تعلیم یافتہ فرد پورے معاشرے کے لئے مفید نہیں ہے تو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اس چوپائے کی طرح ہے جس کی زندگی کا بنیادی مقصد صرف اپنے پیٹ کی آگ بجھانا ہے۔“(32)
چوتھا مضمون ”تعلیم کے ساتھ تربیت“ہے،اس میں تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا ہے،موجودہ دور میں والدین کی طرف سے تربیت کے فقدان پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
”موجودہ وقت میں ٹی،وی،موبائل اور انٹرنیٹ نے والدین کو اپنی اولاد کی اخلاقی تربیت سے کافی حد تک غافل کردیا ہے اور تربیت کا یہ ادارہ غیر فعال ہوتا جارہا ہے۔چھوٹے بچوں کو اخلاقی کہانیاں اور نظمیں سونے سے قبل سنانے یا کتاب سے اخلاق وکردار کو مضبوط بنانے والے دروس منتخب کرکے پڑھ کر سنانا،متحد خاندان میں نانی اور دادی کا کردار اب یہ سب تاریخی واقعات ہی ہوکر رہ گئے۔اب چھوٹے بچوں کو روتے وقت مائیں ٹی،وی کے سامنے بیٹھا دیتی ہیں یا ان کے ہاتھ میں موبائل پکڑا کر خود آرام سے بیٹھ جاتی ہیں،یہ نہایت ہی غلط اور خود بچے کی صحت کے لیے خطرناک رجحان ہے۔بچوں کے ہاتھ سے صدقہ و خیرات کروانا،گھر کے ملازموں اور بزرگوں کے تئیں احترام اور خد مت کا جذبہ پیدا کرنا،محلے پڑوس کے لوگوں کو سلام کرنا اور ان کے گھریلو کاموں میں مدد کی پیش کش کرنا،یہ سب باتیں اب ہمارے گھروں سے مفقود ہوتی جارہی ہے،جب کہ بچے کی تربیت پہلی سیڑھی ہی یہی گھریلو تربیت ہوا کرتی ہے۔“(45)
یہ بھی پڑھیں:
پانچواں مضمون”تعلیم اور مادری زبان“ہے، اس میں مادری زبان میں تعلیم کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے، چھٹا مضمون ”شرح خواندگی اور علمی لیاقت“ ہے، جس میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ تعلیم کے تعلق سے حکومت کے منصوبوں کا اولین مقصد شرح خواندگی میں اضافہ ہے، علمی لیاقت پر حکومت کی کوئی خاص توجہ نہیں ہے۔ حالاں کہ توجہ دونوں پر دینے کی ضرورت ہے، شرح خواندگی میں اضافہ کے ساتھ ساتھ معیاری تعلیم بھی ضروری ہے۔ساتواں مضمون ”گرتا ہوا تعلیمی معیار: اسباب و عوامل“ میں ان اسباب و عوامل کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی وجہ سے تعلیمی اداروں خاص طور پر یونیورسٹیوں اور کالجوں میں تعلیم کا معیار گر رہا ہے، اس سلسلے میں، کالج وغیرہ میں تعلیمی نظام،اساتذہ کی ذمہ داریاں اور کاپی جانچنے کے طریقوں پر بحث کی گئی ہے۔ اس کے بعد بالترتیب چار مضامین مدارس کے تعلق سے ہیں، پہلا مضمون”مدارس کا نصاب اور عصری علوم“ ہے، اس میں مدارس کے نصاب میں عصری علوم خاص طور سے سماجی علوم کے نہ ہونے کا جائزہ لیا ہے۔مصنف نے اس سلسلے میں بہت ہی دلچسپ بات لکھی ہے کہ مدارس میں جو کتابیں داخل درس ہیں وہ عرف عام میں سماجی علوم یا بشریات سے تعلق رکھتی ہیں، وقت کی ضرورت ہے کہ مذہبی پہلو کے ساتھ ساتھ ہم مدارس کے اس پہلو کو واضح کریں۔ فاضل مصنف لکھتے ہیں:
”ہمارے مدارس میں جو نصاب داخل ہے اس میں قرآن، حدیث، فقہ، زبان و ادب سب کے سب بنیادی طور پر انسان کے مسائل اور ان کے حل سے ہی متعلق ہیں اور یہی قرآن و حدیث اور فقہ جدید سماجی علوم کے بنیادی مباحث کے ماخذ بھی ہیں۔ سماجیات، نفسیات، اخلاقیات، سیاسیات، اور علوم شہریت سے بھی بحث ہے اور فلاحی معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری احکامات بھی موجود ہیں لیکن اور خواص کو دینی علوم کے اس پہلو سے روشناس نہیں کرایا جاتا۔ عوام کی اکثریت ان علوم کو صرف مذہبی علوم کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور ایک خاص طبقہ جان بوجھ کر مدارس یا ان کے نصاب کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرنے میں مصروف ہیں۔“(80)
اسی مضمون کے آخر میں مدارس کے نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے ایک درخواست کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”قرآن و حدیث اور فقہ سے ہی منتخب کرکے سماجیات، سیاسیات، علم شہریت، نفسیات اور دیگر مضامین کا ایک جدید نصاب تیار کیا جائے جو ایک طرف پاری طرح سے اسلامی تعلیمات اور اصولوں سے اخذ کردہ ہو اور دوسری طرف جدید مسائل اور معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بھی ہو۔“ (81)
دوسرا مضمون ”مدارس کی جدید کاری: مفروضہ یا حقیقت“ میں حکومت اور سرکاری افسران کی طرف مدارس پر کئے جانے والے اعتراضات کا جائزہ لیا گیا ہے، حکومت کی ساری اسکیم مسلمانوں میں تعلیمی فروغ کے لیے مدارس کی جدید کاری چاھتی ہے، حالاں کہ ۵/فیصد مسلمان مدارس میں پڑھتے ہیں، حکومت کو تو ان کی فکر ہے، لیکن بقیہ 95/فیصد مسلمان جو عصری درسگاہوں میں پڑھتے ہیں ان پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ مصنف کے بقول غیر معیاری تعلیم کی وجہ سے سرکاری مدارس میں حکومت کو توجہ دینی کی ضرورت ہے، غیر سرکاری مدارس کا نظام اور معیار تعلیم سرکاری مدارس سے اچھا ہے۔
تیسرا مضمون ”مدارس میں سائنس کا نصاب“ہے، اس میں مدارس میں سائنس کے نصاب کو زیر بحث لایا گیا ہے، مدارس میں سائنسی علوم ایک اضافی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے، اس لیے اس پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی ہے اور مذہبی علوم و فنون کے ساتھ ساتھ سائنسی علوم کی تعلیم طلبہ پر گراں گزرتی ہے، بقول مصنف ”ان سب مشمولات کی وجہ سے عالمیت پورا نصاب ایسا مغلوبہ بن گیا ہے جس میں طالب علم نہ تو مدارس کے روایتی مضامین کے ساتھ ہی پورا انصاف کرپاتا ہے اور نہ تو جدید سائنسی علوم کے بارے میں زیادہ جان پاتا ہے۔“اس کے برعکس مصنف کی رائے ہے یا تو مدارس میں سائنسی علوم کو جدید طریقوں پر پڑھایا جائے، اساتذہ کی ٹرینگ کی جائے اور ٹھوس تعلیم دی جائے۔ یا پھر مدارس کے مضامین کی جدید درجہ بندی کی جائے؛ کیوں کہ مدارس میں جو نصاب ہے وہ عرف میں سماجیات اور بشریات میں آتے ہیں، تفسیر، قرآن، فقہ، حدیث اور اسلامی قوانین یہ سب کے سب سماجی علوم ہے۔ اس لیے مدارس کے بارے میں اس تصور کو زیادہ عام کرنے کی ضرورت ہے اور علمی حلقوں میں مدارس کی اسی پہچان کو متعارف کرانا چاھئے۔ اساتذہ کو ٹریننگ اور ریفریشر کورسز کے ذریعے جدید طریقہ تعلیم سے آگاہ کیا جائے اور رابطے کی زبان یعنی انگریزی کی تعلیم کو زیادہ مضبوط بنایا جائے۔
بارہواں مضمون ”پرائمری تعلیم کی حالت زار: ایک تجزیہ“ہے،اس میں سرکاری پرائمری اسکولوں کی صورتحال پر روشنی ڈالی گئی ہے، جہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، ماہر تجربہ اساتذہ کا بحران ہے، سماجی اونچ و نیچ کا بول بالا ہے اور تعلیم سے زیادہ دوپہر کے کھانے اور سیاسی مفاد کو ترجیح حاصل ہے۔تیرہواں مضمون”بچے: مستقبل کی امید“ ہے، جس میں سرزمین ہندوستان میں قوم مستقبل بچوں کی صورتحال اور ان کی پریشانیوں پر اعداد و شمار کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ چودہواں مضمون ”تاریخ ماہ و سال“ہے،جس میں متعدد کیلنڈروں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آخری دونوں مضمون معاشیات کے تعلق سے ہے، ایک میں دور جدید کے معاشی مسائل پر بحث کی گئی ہے، دور جدید کے معاشی نظام کا اسلامی معاشی نظام سے موازنہ کیا گیا ہے۔ دوسرے مضمون میں دولت اور غربت کی کثرت کے عوامل و وجوہات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کتاب کی زبان بہت ہی آسان،سلیس اور عام فہم ہے،ہر عام و خاص باسانی سمجھ سکتا ہے،ساتھ ہی ساتھ مصنف نے اصطلاحات کو سمجھانے اور خاص مواقع پر انگریزی الفاظ کا استعمال بھی بین القوسین کثرت سے کیا ہے،الغرض یہ جدید تعلیمی مباحث کے تعلق سے ایک عمدہ اور لائق مطالعہ کتاب ہے،مدارس و اسکولوں کے ذمہ داران،تدریس سے وابستہ افراد اور تعلیمی میدان میں دلچسپی لینے والے افراد کو یہ کتاب ضرور پڑھنا چاہئے، لاریب جہاں اس کتاب کے مطالعہ سے ان کے علم میں اضافہ ہوگا،وہیں سوچنے سمجھنے کے نئے زاویے،غور و فکر کے نئے ابواب واں ہوں گے۔ بلاشبہ اس کتاب کا مطالعہ ہر شخص کے لئے مفید ہے۔ کتاب دارالمصنفین شبلی اکیڈمی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔