تحریر: مسعود جاوید
________________
وقف آراضی پر قانون سازی کے لئے بل پر پارلیمنٹ میں بحث کے دوران اختلاف رائے کو دیکھتے ہوئے ایک جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی تشکیل دی گئی تھی تاکہ منتخب اراکین کمیٹی اس کے مثبت و منفی پہلوؤں پر غور و خوض کر کے کسی نتیجہ پر پہنچیں۔
وقف آراضی بل ایک حساس ملی معاملہ ہے جس کے تئیں ذرا سی غفلت کے دور رس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
وقف آراضی تقريبا ملک کے بیشتر علاقوں میں کم و بیش پائی جاتی ہیں اور یہ ایک بہت ہی اہم ملی اور ساتھ ساتھ دینی مسئلہ بھی ہے۔
اراکین پارلیمنٹ ضروری نہیں وقف کے دینی اور ملی پہلوؤں سے اچھی طرح واقف ہوں اس لئے مسلمانان ہند کی نمائندہ تنظیم مسلم پرسنل لاء بورڈ کے وفد کی جے پی سی کے چیئرمین جگدمبیکا پال سے ملاقات کر کے وقف کی بابت بورڈ کا موقف اور مسلمانوں میں پائی جانے والی تشویشات سے آگاہ کرنا ضروری تھا۔
در اصل ملت کے افراد میں پائی جانے والی تشاویش اور خدشات سے باخبر کر کے مسائل کو حل کرانے کا یہی مہذب طریقہ اور جمہوری راہ عمل ہے۔
ماضی میں جب بھی ایسا کوئی ملی مسئلہ سامنے آتا تو مسلم پرسنل لاء بورڈ بحیثیت ملت کے مشترکہ پلیٹ فارم یا دوسری کل ہند ملی تنظیمیں موضوع پر دسترس رکھنے والے سابق و موجودہ ممبران پارلیمنٹ و اسمبلی اور ماہرین قانون و سیاست وغیرہ پر مشتمل وفد کی تشکیل دیتے تھے۔ یہ وفد برادران وطن میں انصاف پسند سیکولر مزاج لیڈروں اور رائے عامہ ہموار کرنے والے صحافیوں اور اپوزیشن لیڈروں سے ملاقات کر کے ملت کو درپیش مشکلات سے آگاہ کرتے تھے۔ ملاقات کے فورا بعد میٹنگ میں گفتگو کے اہم نکات کے بارے میں نیشنل اور انٹرنیشنل میڈیا کو بتاتےتھے ،پریس ریلیز ایشو کرتے تھے وقتا فوقتا پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس کرتے تھے جس میں ملکی و بیرونی نامہ نگار کی شرکت ہوتی تھی۔
لیکن نہ جانے کیوں پچھلے دس پندرہ سالوں سے ملت کے قائدین نے یہ مجرب جمہوری طرز عمل کو ترک کر دیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کی دنیا میں ہر روز نت نئے انقلابات آ رہے ہیں اور ترقی ہو رہی ہے ملی تنظیموں میں اسی رفتار سے تنزلی دیکھی جا رہی۔ پہلے ان تنظیموں کے ترجمان ہوتے تھے وسائل اور ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، لیتھو طباعت مشقت والا عمل تھا پھر أفسیٹ طباعت اس کے بعد کمپیوٹر نے طباعت کا کام بہت آسان کر دیا اس کے باوجود ملی تنظیمیں ایک عدد ملی ترجمان دینے سے قاصر ہیں ! پورے ملک کے مسلمانوں کو صحیح صورت حال سے آگاہ کرنے ، ان کی سیاسی اور سماجی تربیت کرنے اور ملی موقف کے تئیں بیدار کرنے کے لئے ایک معتبر ۔ملی ترجمان اردو ، انگریزی اور دوسری علاقائی زبانوں میں پہنچانے کی ضرورت ہے۔
سوشل میڈیا کے توسط سے فیک نیوز پھیلانے کی آزادی کے اس دور میں اپنا اخبار اور سوشل میڈیا سائٹس کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
بات وقف کی ہو یا ماوراء عدالت سزا کے طور پر انہدام کی، موب لنچنگ کی ہو یا ہمارے دستوری حقوق کی پامالی کی، سول سوسائٹی سے رابطہ، اپوزیشن اور ارباب اقتدار سے ملاقات و میمورنڈم، اور پریس کلب آف انڈیا میں پریس کانفرنس ہی جمہوری ملک میں ذمے دار شہریوں کے ہتھیار ہیں۔