قربانی ایک عظیم اور بے مثال عبادت ہے
محمد قمر الزماں ندوی
استاد/ مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
،،قربانی،، ایک اہم ترین عبادت ہے، پرانی قوموں سے یہ دستور رہا ہے کہ لوگ قربانی کو اپنے پروردگار سے اپنے تعلق کو بڑھانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں، حضرت ابراہیم خلیل اللہ کو آزمائش کے طور پر حضرت اسمعیل علیہ السلام کو راہ خدا میں قرآن کرنے کا حکم دیا گیا تھا، جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اس سخت اور کڑی آزمائش میں بھی پورے اترے، تو اللہ تعالیٰ نے خوش ہوکر حضرت اسمعیل علیہ السلام کی جگہ ایک جنتی مینڈھے کی قربانی کرائی اور اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا یہ عمل اتنا پسند آیا کہ قیامت تک آنے والے صاحب نصاب مالدار مسلمانوں پر قربانی کو واجب قرار دیا۔
کل ہم سب ان شاءاللہ بقرعید کی دوگانہ نماز ادا کریں گے، اور قربانی کے عمل سے بھی بہت سے لوگ فارغ ہونگے، خود بھی قربانی کا گوشت کھائیں گے، ایک حصہ غریب و مسکین کو دیں گے اور ایک حصہ کو اہل قرابت میں تقسیم کریں گے۔ چونکہ قربانی کا یہ عمل تین دن تک ہے، اس لیے گیارہ ذی الحجہ کو بھی لوگ قربانی کریں گے اور بارہ ذی الحجہ کےغروب سے پہلے پہلے تک یہ عمل جاری رہے گا۔ جہاں تک تکبیر تشریق کی بات ہے، آج نویں کی فجر سے ہم لوگ شروع کر چکے ہیں اور یہ تکبیر ہر فرض نماز کے بعد کہیں گے اور تیرہویں کی عصر تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔
اسلام نے اس شعار ابراہیمی ، یعنی قربانی کو جو واجب قرار دیا ہے، اس میں بہت سی حکمتیں اور مصلحتیں ہیں، اس کے اسرار و رموز ہیں، اس کے دینی اور دنیاوی اور روحانی اور مادی فائدے ہیں، خدا کی خوشنودی کے ساتھ ساتھ، خدا کے بندوں کی اعانت اور تعاون بھی اس میں ہے، نیز مدارس اسلامیہ کی مالی فراہمی کا یہ بھی ایک ذریعہ ہے کہ چرم قربانی کی رقم سے غریب اور نادار طلبہ کی کفالت ہوتی ہے۔
اسلام کی دیگر عبادات کی طرح یہ عبادت بھی افراط و تفریط سے پاک اور خالی ہے، قربانی کی عبادت بھی اپنے اندر اعتدال اور توازن لئے ہوئی ہے، قربانی کے فضلات، اوجھڑی اور دیگر وہ حصے جو قابل استعمال نہیں ہوتے اور جس کے بارہ میں یہ قوی امکان اور خطرہ ہے کہ اس سے لوگوں کو اور خصوصاََ تکثیری سماج میں رہنے والے برادران وطن کو تکلیف ہوگی، اس سے بچنے کے لیے شریعت نے پہلے یہ راستہ بتا دیا کہ ان زائد حصوں اور فضلات کو زمین میں دفن کردو، نیز اس کی ہڈیوں کو بھی راستے وغیرہ میں پھینکنے سے مکمل پرہیز کا حکم دیا گیا۔ اسلام نے خوشی کے اظہار کے لیے خاص طور پر دو موقع رکھے ہیں، لیکن خوشی اور مسرت کے اظہار کے حدود کو بھی اسلام نے بیان کردیا ہے، تاکہ کہیں خوشی و مسرت کے اظہار میں لوگ زیادتی اور غلو نیز افراط و تفریط کے شکار نہ ہوں اور لوگ ایک دوسرے کی اذیت اور ضرر و تکلیف کا ذریعہ اور سبب نہ بنیں۔
مولانا عبد الماجد صاحب دریا بادی رح عید قرباں کی حقیقت، اہمیت اور پیام و پیغام کو بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
"تہوار "کے معنی دوسرے مذہبوں اورتمدنوں میں جوکچھ بھی ہوں، اسلام میں تو بہر حال اس کے معنی کھلی چھٹی اور بھر پور آزادی کے نہیں، اورسو بار نہیں ۔ اور نہ ان کا کوئی تعلق موسم کے ادل بدل اورفصلوں کے الٹ پھیر سے ہے۔ بندہ کا اپنے رب سے تعلقِ بندگی جو اس نے ہر وقت اور ہر حال میں قائم و دائم رکھا ہے، اس میں ذرا سی بھی ڈھیل کا روا دار وہ کسی تہوار کے موقع پر بھی نہیں۔ اسلامی مہینہ کے ادھر ۸، ۱۰ مہینے گزرے کہ ادھر حج بیت اللہ کے چرچے اور تذکرے عالمِ اسلامی کے گھر گھر میں شروع ہوگئے، اور مشرق و مغرب سے، شمال و جنوب سے، افریقہ سے، انڈونیشیا سے، ہندو افغانستان سے، حاجیوں کے قافلے کے قافلے زیارت بیت اللہ کے شوق کے مارے ہوئے، احرام پوش روانہ ہونے لگے۔ گورے ہوں کہ کالے، لال ہوں کہ پیلے، بوڑھے ہوں کہ جوان، سب کی منزل وہی ایک بیت الخلیل، جسے رب نے اپنا بیت کہہ کرپکارا! سال کے آخری مہینہ ذی الحجہ کا چاند ہوا کہ بڑے اورچھوٹے سب دن گننے لگے کہ مہینہ کی دسویں کو ”بقرعید“ ہوگی۔
عوامی لفظ اس کے لئے یہی ہے ۔ ورنہ اصطلاحی نام تو اس کا عیدالاضحی، یعنی قربانیوں والی عید ہے۔ عید جس میں ہرخوش حال گھر میں جانوروں کی قربانیاں ہوں گی۔ قربانیوں کے لفظ میں زیادہ ذائقہ کے لئے کس درجہ لذت و کشش موجود ہے۔ دنوں نہیں بلکہ اب تو ہفتوں کیوں کہئے، مہینوں پیشتر سے جانوروں کی تلاش اورٹٹول شروع ہوجاتی ہے۔ مول تول ایک کی جگہ دس دس کے ہونے لگے اور وارے نیارے دس بیس کی جگہ سو سیکڑے کے بے کھٹکے اور بے دھڑک ہوکر رہے۔
ادھرفجرکی اذان ہوئی کہ مومن کے گھرمیں بقرعید شروع ہوگئی۔ بلکہ بچے تو مارے خوشی کے فجرسے پہلے ہی جاگ پڑے، اورنہانے دھونے کے انتظام شروع ہوگئے۔ نام عید کی برکت ہے کہ بڑے بڑے بے غسلے بھی آج نہائیں گے، اورنہا دھو کر ہی عید گاہ کو جائیں گے۔ نماز فجر جوں توں ہوئی، اور تیاریاں نمازِ عید کی ہونے لگیں ۔ ”نمازِ عید“ کیسی؟ جی ہاں، نماز کی آج چھٹی نہیں ملی، کوئی نماز تخفیف میں بھی نہیں آئی، بلکہ علاوہ پانچ بندھے ہوئے وقتوں کے ایک چھٹی نماز اور بڑھ گئی ۔ پہر دن چڑھا، اور نمازیوں کی ٹولیاں صاف ستھرا نفیس لباس پہنے عیدگاہ اور مسجدوں کی طرف چل پڑیں۔ بوڑھے اور بچے سب ساتھ ہیں۔ "اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ۔ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد” کے زمزموں اور نغموں سے راستے بھی گونج رہے ہیں، اورمسجدوں کے در و دیوار بھی۔ بڑا اللہ ہے کوئی دوسرا اس کے سوا نہیں، اور اللہ ہی بڑا ہے اللہ بڑا ہے، اور حمد ساری کی ساری اسی کی ہے۔
کیا دُھن ہے اورکیا مستی ہے، ہر ایک کی زبان پر یہی نعرئہ خدا پرستی ہے۔ نہ کسی اور کی جے پکاری جائے گی، اور نہ کسی اور کی بڑائی منائی جائے گی۔ اسی کا نام پکارتے، اسی کا نام اچھالتے، جس طرح کل نویں کو عرفات میں حج ہوگیا اسی طرح آج عالم اسلام میں گھر گھر بقرعید ہوجائے گی۔ دوپہر سے ذرا قبل مسجدوں سے واپسی شروع ہوگئی۔ اسی شان کے ساتھ اسی آن بان کے ساتھ، توحید کا وہی نعرہ دہراتے ہوئے تکبیر کا پرچم لہراتے ہوئے، مسلمان کے کھیل میں بھی تفریح میں بھی کیا بانکپن ہے!
دوپہر ابھی ہونے بھی نہیں پائی کہ خوش حال گھرانوں میں تو قربانیاں شروع ہوگئیں۔ قربانی کے نصاب قربانی کے جانور یہ سب تفصیلات فقہ کی کتابوں میں درج ہیں۔ اور ہر پڑھا لکھا مسلمان اس سے بہ قدرضرورت واقف ہی ہے۔ مسلمان جانور ذبح کرتے اورچھری چلاتے ہوئے علاوہ رسمی کلمہ بسم اللہ اللہ اکبر کے یہ بھی کہتاجائے گا کہ ”ربناتقبل منی کما تقبلت من خلیلک ابراہیم“ (اے اللہ اسے قبول کیجیے میری طرف سے جیسی قربانی آپ نے قبول کی تھی اپنے دوست ابراہیمؑ کی پیش کی ہوئی۔)
اس ذرا سی تلمیح نے کتنا اہم پہلو تاریخ امت کا نظروں کے سامنے کردیا! ۴ہزار سال قبل مسیح میں ابراہیم ؑبن آذر امت کے وہ مورث اعلیٰ ہوئے ہیں، جنھوں نے محض خواب میں اشارہ پا کر اپنے لخت جگر اسمٰعیل ؑ کو لٹا کر بھیڑ بکری کی طرح راہ خدا میں ذبح کر ڈالنا چاہا تھا، بلکہ آنکھ پر پٹی باندھ چھری اپنے خیال میں حلقوم اسمٰعیلؑ پر چلا ہی دی تھی کہ ایک معجزہ غیبی نے اسمٰعیلؑ کو موت کے آغوش سے نکال لیا۔ وَفَدَینَاہُ بِذِبحٍ عظیم ، اس اہم تاریخی واقعہ کو یاد گار بنا کر اس قربانی کو امت کے لئے واجب قرار دے دیا۔
قربانی کی تاریخیں تین دن تک رہیں گی۔ علاوہ بقرعید کے ساڑھے تین دن ہر فرض نماز کے بعد تکبیر بالجہر بھی قائم رہے گی۔ تینوں دن مسلمانوں میں دعوت وضیافت۔
اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو خلوص کیساتھ قربانی کرنے اور قربانی کا جو پیغام اور سبق ہے ،اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین نیز ایثار ترجیح اور قربانی والا مزاج ہمارا بن جائے، اس کی بھی ہمیں توفیق ملے ۔آمین