Slide
Slide
Slide
saile rawan

بدلتے حالات، ہمارا رویہ اور بچوں کا لٹریچر: ہمیں کیا کرنا چاہئے؟

محمد علم اللہ، نئی دہلی

اکیسویں صدی نے ملک، دنیا اور معاشرے کو بہت تیزی سے بدل دیا ہے۔ رہن سہن، کھانا پینا، نیز زندگی کا کوئی پہلو ایسا نہیں چھوڑا جس میں منفی یا مثبت انقلاب برپا نہ ہوگیا ہو۔ آج کا بچہ آپ کے اور ہمارے دور اطفال اور اس بچپن سے بالکل مختلف ہےجو ہماری یادوں اور لا شعور میں بسا ہوا ہے۔بلاشبہ وقت ہمیشہ بدلتا رہا ہے اور بدلنا بھی چاہیے لیکن گزشتہ دو تین دہائیوں میں زمانہ اتنی تیزی سے بدلا ہے کہ بہت سی چیزیں نادانستہ طور ہماری زندگی کا حصہ بن چکی ہیں اور جب تک ہم اس پر غور و فکر  کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس اس وقت تک نا قابل تصور تبدیلیاں رو نما ہوچکی ہوتی ہیں۔ 

آج کی ایجادات اور نئے تکنیکی دور نے آرام کی نئی جہتیں قائم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ ہم اسے زندگی کے ہر شعبے میں دیکھ سکتے ہیں۔ شاید اس نے نادانستہ طور پر ہمیں روز مرہ کی بہت سی اقدار سے الگ تھلگ بلکہ بہت دور کر دیا ہے۔ ہمارے عہد کے وہ بچے بھی جنہیں ہم چھوٹے ہی سمجھتے ہیں ،مکمل طور پر بالغ ہیں، جو انٹرنیٹ اور الیکٹرانک دنیا کی اس لامتناہی راہداری میں بہت دور نکل چکےہیں، جہاں ان کے پاس موبائل فون، کمپیوٹر، ویڈیو گیمز اور انٹرنیٹ سے بھری ایک مختلف دنیا ہے۔ جس میں نہ صرف باہمی تعلقات، محبت، رہن سہن، خوراک اور فلسفۂ زندگی ہے بلکہ پوری ثقافت ہی موجودہے مگر بدلی ہوئی شکل میں۔ 

آج باہمی انحصار کا دور بھی مکمل طور پر ختم ہو چکا ہے، پہلے کا دور کم از کم ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ سماجی اور معاشی بندھن میں باندھ کر رکھتا تھا۔ معاشیات کا پرانا نظام بھلے ہی آج حاشیے پر چلا گیا ہو، لیکن وہ کافی حد تک درست تھا۔ اسی ناطےسے ہم سب باہم دیگر جڑے ہوئے تھے۔ جب وقت آتا تو ہم ایک دوسرے کی مددکے لیے کھڑے رہتے تھے۔ مگر آج ایسا نہیں ہے، آج ہر چیز کا فیصلہ دولت کو مرکز میں رکھ کر کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ تعلقات اور رشتوں کو بھی اسی پیمانے سے ناپا جاتا ہے۔ 

ہم  اپنے بچوں کے بچپن اور بزرگوں سے سماجی رشتے چھینے جانے کا ذمہ دار جسے بھی ٹھہرائیں مگر بچوں کے تعلق سے والدین کی غلطیوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں اس صورت حال کے ذمے دار ایک طرف ہائی ٹیک موبائل اور انٹرنیٹ کمپیوٹر ہیں، اس سے کہیں زیادہ ان بچوں کے والدین اور سرپرست حضرات ہیں جنھوں نے دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے بچوں کو گھر پر وہ تمام سہولیات فراہم کررکھی ہیں جو ان کے دل ودماغ کو لمحہ لمحہ اور پل پل بدل رہی ہیں اور بچوں سے ان کی معصومیت اور بچپن چھین رہی ہیں۔ طُرفہ یہ بھی ہے کہ والدین کی نظر اس بات پر رہتی ہے کہ ان کے بچے ٹیکنالوجی کے فیلڈ میں بہت کچھ نیا سیکھ رہے ہیں اورآگے بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسری طرف یہی ٹیکنالوجی ان کے پشتینی اور مذہبی اقداروروایات کو نگل رہی ہے، اس طرف ان کی توجہ نہیں ہے۔ 

والدین اپنے بچوں کے لیے اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ نہ صرف وہ نئے زمانے کی جدتوں،تقاضوں اور ضرورتوں سے پوری طرح باخبر ہوں، بلکہ ان میں مہارتیں بھی پیدا کرلیں۔ متول والدین کے شوق کا توعالم یہ ہے کہ وہ قسم قسم کی الیکٹرانک اشیاء سے گھر کو بھردیتے ہیں۔ اور بچوں کونت نئی اورمہنگی ترین ٹیکنالوجی کے اشیاء وآلات مہیا کراتے ہیں۔ 

اس تناظر میں یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ آج کے بچے ٹیکنالوجی کے غلام بن چکے ہیں۔ بیس پچیس سال پہلے ٹی وی پر صرف ایک چینل ہوا کرتا تھا۔ لیکن وقت کی تبدیلی نے ایسا موڑ لے لیا ہے کہ آج 300 سے زائد چینل بھی لوگوں کی پیاس کو ٹھنڈا نہیں کر رہے ہیں۔ ان چینلوں کو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچے بھی دیکھ رہے ہیں۔ جہاں ہر قسم کا رطب و یابس مواد مہیا کیاجا رہا ہے، یہ سوچے سمجھے بغیر کہ معاشرے اور خصوصاً بچوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ اکثربچے اس دنیا میں اس قدر مگنہونے لگےہیں کہ وہ بڑوں کی بات تک نہیں مانتے، بزرگوں کی باتیں انھیں دقیانوسی اور فرسودہ معلوم ہوتی ہیں۔ 

آخرآج کے والدین اپنے بچوں میں اس رویے کو دیکھ کر بھی خاموش کیوں ہیں؟ بچوں کا پیارا بچپن آج کہاں گم ہو چکا ہے؟ دادا ، دادی یا گھر کے دوسرے بڑوں کی زبانی سنائی جانے والی پریوں، بھوتوں اور شہزادیوں کی دلچسپ اور سبق آموز کہانیوں کا ان کی زندگی میں کوئی کردار نہیں جبکہ موبائل فون، کمپیوٹر، ویڈیو گیمز اور کارٹون شوز کے ساتھ ان کی وابستگیاں دیوانے پن کی حد تک بڑھ گئی ہیں۔ 

سب سے بڑا نقصان یہ ہوا ہے کہ بچے قبل از وقت بڑے ہو رہے ہیں۔ یہ بچے دیکھنے میں چھوٹے لگ سکتے ہیں لیکن ذہن اور نقطہ نظر کے لحاظ سے وہ بہت تیز اور شاطر ہوتے جا رہے ہیں۔ آج کے بچے ،ٹی وی اور سنیما میں جو کچھ دیکھتے ہیں اسے اپنی حقیقی زندگی میں لانے کی کوشش کرتے ہیں، ٹیکنالوجی نے ان کے احساسات کو ختم کر دیا ہے۔ 

ٹیکنالوجی کے حصارمیں گھرے بچوں کی زندگی مکمل مشین بن چکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ‘ٹین ایج ’میں ہی یہ بچے انتہائی سفاکانہ جرائم کا ارتکاب کرنے سے بھی نہیں ہچکچاتے۔ ان کی جنسی خواہشات بلوغت کی عمر سے بہت پہلے ہی ان کے وجود اور اعصاب پر حاوی ہوجاتی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہان خواہشات کے زیر اثر کئی اعمالکے عادی ہوجاتے ہیں اور ذہنی مریض بن جاتے ہیں۔ کیونکہ زیادہ تر فلمیں اور کارٹون یورپ اور امریکہسے ریلیز ہوتی ہیں، ان میں ایک خطرناک اور تباہ کن بات جو آہستہ آہستہ معصوم بچوں کے ذہنوں میں بٹھائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم جنسیت یا شادی سے قبل جنسی تعلق کوئی گناہ نہیں ہے اور اگر کسی میں یہ رجحان ہے تو یہ بھی بالکل درست ہے۔ 

سابقہ نسلوں کے اندر ذہنی وجسمانی اور تہذیث وثقافت کی تبدیلی چالیس پچاس سال میں نظر آتی تھی۔ بعد کے زمانے میں اس تبدیلی میں مطلوب وقت،کم اور مختصر ہوتے ہوتے محض پندرہ بیس سال رہ گیا۔ موجودہ زمانے میں تبدیلی کا یہ دورانیہ مزید سکڑ کر اور بھی کم ہوگیا ہے۔ جدید ترین ایجادات اور ٹیکنالوجی نے ذہن کو پوری طرح بدل کر رکھ دیا ہے۔ صورت حال یہ ہو گئی ہے کہ آج نسلوں کی تبدیلی دو نسلوں میں نہیں بلکہ ایک چھت تلے رہنے والے افراد کے درمیان ہی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ فہم وفراست اور شعور کی تبدیلیوں نے سوچ اور کردارکو بدل دیا ہے۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ بہت سے خاندان ایسے ہیں جن میں باپ کے خیالات اپنے بڑے بیٹےکی نظر میں ہی فرسودہ ہیں۔ اب اولاد کی نگاہ میں والدین موہن جوداڑو کی تہذیب کے پروردہ اورنئے زمانے کے تقاضوں اور چیلنجز سے ناواقف مخلوق لگنے لگتےہیں۔ 

یہ صحیح ہے کہ جس تیزی سے معاشرہ بدلا ہے ہماری زبان میں بچوں کا ادب بھی بڑی حد تک بدل گیا ہے۔ موجودہ لٹریچر میں بدلے ہوئے ادب کی جھلک نظر آتی ہے۔ لیکن بچوں کے لیے لکھے جانے والے لٹریچر میں مزید تبدیلی کی ضرورت ہے۔ اگر کسی قوم کا رہن سہن، کھانے پینے کی عادات بدل سکتی ہیں یا بدل گئی ہیں تو اس قوم کے ادب کو بھی بدلنا چاہیے بلکہ بدلتے رہنا چاہیے ۔ تاہم یہ بات قدرے افسوس اور دکھ دینے والی ہے کہ ہمارے بچوں کے لیے لکھے گئے ادب کے ساتھ ایسا مکمل طور پر نہیں ہوا۔ 

اس کا ثبوت ہمیں 25 سے 30 سال پہلے لکھی جانے والی کئی ایسی تالیفات سے ملتا ہے جن کی تخلیق ،افکار اور اسلوب میں تازگی نہیں ہے یا زمانے کی رفتار اور مزاج کے ساتھ ہم آہنگی نہیں ہے۔ آخر آج کا بچہ وہ سب کیوں پڑھے گا جو اس کی دنیا سے تعلق نہیں رکھتا، اس کے اپنے زمانے سےہم آہنگ  نہیں۔ آج کے بچے ماضی کی طرح بچوں کے ادب کے ذریعے تبلیغ کرنا پسند نہیں کرتے،انہیں آج کی جدوجہد کاعلم ہے، وہ وہی ادب پسند کریں گے جو ان کی معاصر زندگی میں ان کے لیے سچا معاون اورکھرا رہنما ثابت ہوگا۔ 

آج کے بچے اپنی زندگی میں آنے والی مصیبتوں کا حساب دینا جانتے ہیں۔ وہ روزانہ ایسے تمام مسائل سے نبرد آزما ہوتے ہیں۔ گھر، خاندان، معاشرہ، اسکول خود بخود اسے بہت سی چیزیں سکھا رہے ہیں۔ ایسے میں ان کو ایسا ادب دیا جائے جو ہوا کے نرم جھونکے کی طرح ہو، جوبچوں کے ساتھ ہمدردی بھی کر سکے اور ان کا ساتھی بھی بن سکے۔ انہیں تھوڑی دیر کے لیے آرام، تحریک اور تفریح دے سکے۔ ایسا ادب تخلیق ہونا چاہیے جو ان کے احساسات کو چھو سکے۔ ہم بھلے ہی معاشرے کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا رویہ تو بدل سکتے ہیں۔ 

معاشرے میں جو سب سے بڑی کمی آئی ہے یا نقص واقع ہوا ہے وہ حساسیت کی کمی ہے۔ اگر اس خلا کو خوب صورت، علمی اوربچوں کے صحت مند ادب کے ذریعے دور کیا جائے تو بہت سے مسائل آسانی سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ صالح اور صحت مند ادب سے بچوں میں جو حساسیت پیدا ہوگی وہ انسانی زندگی کو متاثر کرنے والے خوشی اورغم کے واقعات کی علتوں اور جہتوں کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ اسی سے وہ ہمدردی، غم گساری اور بھائی چارے کی اہمیت کو پہچان سکیں گے۔
صالح ادب نئی نسل کو اداسی، غصہ اور خوف جیسے پیچیدہ جذبات کو سمجھنے اور ان پر قابو پانے میں بھیخاصی مدد کر سکتا ہے۔ بچے صحت مند ادب کے ذریعہ سے اپنے آپ کو ظاہر کرنا سیکھ سکتے ہیں اور اپنے جذبات واحساسات کی گہرائی کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ مزید برآں، ایسا ادب ان کے اندر ہمدردی،محبت اور نرمی کے گن پیدا کرنے میں ان کی مدد کر سکتا ہے۔ بچوں کے لیے لکھے گئے صالح ادب پر مبنی کتابوں میں کرداروں کو مشکل حالات کا سامنا کرتے اور ان پر قابو پاتے ہوئے دیکھ کر، بچے امید اور عزم کے احساس کے ساتھ اپنی زندگی اور حالات کے چیلنجز کا مقابلہ کرنا سیکھ سکتے ہیں۔
ایسا ادب ہمارے نونہالوں کو ان کے جذبات کو سمجھنے اور بہتر پیرائے میں ان کا اظہار کرنے میں مدد کرنے کے علاوہ،انہیں سماجی مسائل اور مشکل موضوعات کے بارے میں آگاہ کرنے کے لیے ایک طاقتور ہتھیار کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کے مسائل اور ان کے ذوق وشوق کے پیش نظر لکھا گیا ادب اورپھر مناسب وسائل کی فراہمی، انہیں نسل پرستی، غنڈہ گردی اور جنسی ہراسانی جیسےمسائل پر قابو پانے میں ان کی مدد کرسکتی ہے اور وہ اپنے اردگرد کی دنیا کی پیچیدگیوں کو بہتر طور پر سمجھ سکنے کے قابل ہوسکتے ہیں۔

آج بچوں کو جس قسم کی تعلیم دی جا رہی ہے اب اس میں تبدیلی ہونی چاہیے، نصاب تعلیم میں بھی اور طریقہ تدریس میں بھی۔ صحت مند لٹریچر کا مطلب ہے عملی چیزوں سے آراستہ ایک تادیبی مطالعہ، جس میں آج کے متجسس بچوں کے ہر ان سنے اور حل نہ ہونے والے سوالات کا نہایت تشفی بخش اورآسان سا جواب دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ہم ایک اچھے معاشرے کا تصور کر سکتے ہیں جہاں ہمارے بچے زندگی کی قدروں اور اس کی حقیقی روح سے متعارف ہو سکیں گے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: