Slide
Slide
Slide

تسخير قمر کے اثرات مذہبى دنيا پر: اختلاف آراء کا ايک جائزہ

از:   علامہ محمد شہاب الدین  ندویؒ 

نـــــــوٹ: يہ مضمون مصنف (رح) كى معركة الآراء تصنيف "چاند كى تسخير: قرآن كى نظر ميں” سے ماخوذ ہے جو اس كتاب كے پانچ ابواب كا پہلا باب ہے. يہ كتاب 1969 ميں امريكى خلا باز نيل آرمسٹرانگ کے چاند كى تسخير كرنے کے بعد دينى، مذہبى اور علمى حلقوں ميں اٹھنے والے شكوک وشبہات اور تذبذبات كو دور كرنے كى غرض سے لكهى گئى. اس كتاب نے اسلامى فكر وفلسفہ كو ايک نيا آہنگ عطا كيا. علمى دنيا پر اس كتاب كى اثر اندازى كا اندازه اس بات سے لگايا جاسكتا ہے کہ مشہور مفسر قرآن اور اديب وناقد حضرت مولانا عبد الماجد دريابادى (رح) نے ان الفاظ ميں اس كتاب كى پذيرائى فرمائى: ” تسخيرِ قمر کى ہيبت سے خُدا معلوم کتنوں کے ايمان ميں رخنہ پڑگيا ۔ خدا معلوم ان ميں سے کتنوں کے ايمان انہوں (مولانا محمد شہاب الدين ندوى (رح) نے سنبھال لئے۔”حال ميں چاند پر چندريان کے كامياب مشن كے تناظر ميں اس كتاب كے اكثر مباحث افاديت كے حامل ہيں. لہذا  ذيل ميں اس كتاب كے اقتباسات كو قسط وار شائع كيا جائے گا۔  محمد انیس الرَّحمن ندوی 

قافلہ نہ ہوسکے گا کبھى ويراں تيرا

غيريک بانگِ دَرا کچھ نہيں ساماں تيرا

ايک تاريخى حادثہ:

 امريکى خلابازوں نے چاند کو فتح کرکے بعض مذہبى حلقوں ميں ايک کھلبلى پيدا کردى ہے۔ خصوصيت کے ساتھ ہندو فرقے کے عقائد متزلزل ہوچکے ہيں۔ اور ان کے مذہبى ايوانوں ميں صفِ ماتم بچھ گئى ہے۔ کيونکہ ان کے عقيدے کے مطابق چاند ايک ديوتا يا ديوتائوں کا ديس ہے۔ چاند کى سرزمين پر انسانى قدموں کے پڑجانے سے ان ديوتاووں کى برترى ختم ہوجاتى ہے۔ اور ان کى الوہيت پر حرف آجاتا ہے۔ اس لحاظ سے چاند اب کوئى مقدس اِستھان نہيں رہا۔ بلکہ امريکيوں نے اپنے پيروں تلے روندکر اس کو نجس اور ناپاک بناديا ہے۔

 دوسرى حيثيت سے عام طورپر يہ تاثر پاياگيا کہ آرمسٹرانگ اور ايلڈرن١ٍ نے چاند کو مسخر کرکے کوئى اچھا کام نہيں کيا۔ بلکہ ان کى يہ حرکت خدائى نظام ميں مداخلت اور خدا کى مملکت کے دائرے کو تنگ کرنے کے مترادف ہے۔ چنانچہ اخبارى بيان کے مطابق ايک يورپى باشندے نے اپالو ١١ کى کامياب پرواز کے فوراً بعد محض اس بناء پر خودکشى کرلى کہ وہ بزعم خود خدائى نظام ميں مداخلت برداشت نہ کرسکا۔ خود راقم سطور سے ايک ہندو دوست نے – جو کچھ روشن خيال تھے- تبادلہ خيال کرتے ہوئے کہا کہ اب خدا بڑى مشکلوں ميں پڑگيا ہے (معاذ١ للہ)۔ ميں نے جواباً عرض کيا کہ ہوسکتا ہے کہ اس حادثہ سے آپ کا بھگوان ضرور مشکلوں ميں پڑگيا ہو جس کى حيثيت آپ لوگوں کى نظر ميں سينکڑوں ہزاروں نام نہاد ديوتائوں کے جھرمٹ ميں ايک بے دست و پا قيدى سے زيادہ نہيں ہے۔ مگر الحمدللہ ہمارے معبود برحق پر يہ بات ہرگز صادق نہيں آتى جو وحدہ¾ لاشريک، قادر مطلق اور خدائے جل جلالہ کہلاتا ہے۔ اور ہمارى کتابِ برحق کى تصريحات کے مطابق تسخير قمر سے ہمارے ايمان ميں اضافہ ہوگيا ہے۔

 پھر طرفہ تماشہ يہ کہ بعض لوگوں نے اپنى خفت مٹانے کے لئے برملا کہنا شروع کرديا ہے کہ امريکى باشندوں نے جس چاند پر اپنى تسخير اور فتح منديوں کے جھنڈے گاڈے ہيں وہ ہمارى زمين کا نہيں بلکہ کوئى اور چاند ہوگا۔ اسى کو کہتے ہيں کھسيانى بلى کھمبا نوچے۔ يہ چاند کہاں اور کس طرف ہے؟ اس کا حجم، محلِ وقوع اور فاصلہ وغيرہ کيا ہے؟ اگر يہ سارى تفصيلات بھى بتادى جاتيں تو يہ فلکيات کى تاريخ ميں ايک زبردست انکشاف اور قابلِ قدر اضافہ ہوتا۔

 ظاہر ہے کہ ١٦/جولائى ١٩٦٩ء ميں بمقام ہوسٹن (کيپ کينڈى) دنيا بھر کے تقريباً ساڑھے تين ہزار اخبارى نامہ نگاروں اور دس لاکھ عوام کى موجودگى ميں اور ان کى نظروں کے سامنے ايک ديوزاد اور ہيبتناک راکٹ (سيٹرن٥ٍ) کو داغا گيا جو ايک خوفناک شور و گرج اور دل ہلادينے والے دھماکے کے ساتھ١ٍ فضائوں کو چيرتا ہوا خلائوں ميں بلند ہوا اور ايک روايتى قسم کے ديو کى طرح اپالو ١١ کو اپنى بانہوں ميں جگڑے ہوئے آسمان کى پہنائيوں ميں پہونچاکر غائب ہوگيا۔ اس ميں سورا خلابازوں اور ان کى ايک ايک حرکت کو پورے سفر کے دوران، ٹيلى وژن کى مدد سے ديکھا جاتا رہا اور ريڈيائى رابطہ کے ذريعہ ان سے گفتگو کى جاتى رہى۔ حتى کہ چاند پر پہنچنے، وہاں پر اترنے اور چہل قدمى کرنے وغيرہ تمام مناظر زمين والوں کى نظروں ميں اس طرح رہے کہ گويا وہ ہمارے ہى آنگن ميں واقع ہونے والا کوئى منظر ہے۔ دنيا کے تمام اخبارات نے اس خبر کو جلى اور روشن سرخيوں سے شائع کيا۔ اس پر ادارئے اور مضامين لکھے۔ بحث و مباحثے ہوئے، رياضى، قانونِ کشش اور توانائى کے اصول ظاہر کئے گئے۔ جن کى بنياد پر سائنس اور ٹکنالوجى کا يہ عجوبہ ظہور پذير ہوا، خلائى پروازوں کى تدريجى تاريخ بيان کى گئى اور پورى علمى دنيا ميں يہ واقعہ ايک مسلّمہ حقيقت بن گيا۔ جس کو جھٹلانا اور انکار کرنا جہل و نادانى اور مکابرہ ہوگا۔

 غرض اپالو ١١ کى کامياب پرواز ايک ايسا تاريخى حادثہ تھا جس نے بہت سے فرسودہ مذاہب کى چوليں ہلاديں اور لوگوں کو اس حد تک سراسيمہ کرديا کہ وہ صراحتاً رويت و مشاہدہ اور واقعات تک کا انکار کرکے بمصداق يک نہ شد، مزيد تضحيک کا سامان پيدا کريں۔

تسخير قمر اور موجودہ مسلمان:

 يہ تو ايک غير اسلامى فرقے کا حال تھا جس کا معاملہ وہ خود جانے۔ مگر سمجھ ميں نہيں آتا کہ ان لوگوں کى فہم و دانش کو کيا ہوگيا ہے جو اپنے آپ کو اسلام کا نام ليوا کہتے ہيں اور ايک ايسى حيرت انگيز کتاب کے حامل ہيں جو اس عالم آب و گل ميں اپنى نوعيت کى ايک ہى کتاب اور قيامت تک دينى معاملات کے ساتھ ساتھ ہر دنيوى معاملہ ميں بھى ان کى بصيرت اور رہنمائى کے لئے کافى ہے؟ پھر ايسى يکتا اور بے مثال کتاب کى تصريحات سے آنکھيں بند کرکے وہ بھى ہندو فرقے کى ہمنوائى يا کم از کم صريح توہمات کا مظاہرہ کس طرح کرسکتے ہيں؟ چنانچہ بعض مسلمان حلقوں تک ميں بڑے مضحکانہ قسم کے خيالات کا اظہار کيا گيا اور اس قسم کے سولات کئے گئے کہ کيا واقعى امريکى باشندے چاند پر ہو آئے يا خالى خولى ڈھونگ رچا رہے ہيں؟ انسان آسمانى حدود ميں کيسے داخل ہوسکتا ہے؟ فرشتوں نے ان نگوڑوں کو چاند پر پہنچنے کيسے ديا؟ آتشين گرزوں اور شہابوں سے ان کى خبر کيوں نہيں لى؟ کيا يہ بات خدائى امور ميں مداخلت نہيں ہے؟ کيا يہ حرکت عالم لاہوت ميں دَراندازى نہيں١ٍ ہے؟ وغيرہ وغيرہ۔

 غرض جتنے منہ تھے اتنى ہى باتيں ہوئيں اور اس قسم کے تمام سوالات کتاب اللہ سے ناواقفيت کى دليل ہے۔ اس سلسلے ميں سب سے پہلا بنيادى سوال يہ ہے کہ انسان اگر چاند ستاروں پر پہونچ جائے تو اس سے آخر اسلام کے کس عقيدے پر ضرب پڑتى ہے اور اس کے کن کن تصورات کو دھکا پہونچتا ہے؟ کيا قرآن اور حديث ميں کہيں لکھا ہوا ہے کہ انسان چاند ستاروں کو مسخر نہيں کرسکتا يا ان پر نہيں پہونچ سکتا؟ يا معاملہ اس کے برعکس ہے؟-

تسخير قمر اور علمائے حجاز:

 يہ عوام کا حال ہوا۔ اب ذرا خواص کے خيالات و نظريات کا جائزہ ليجئے تو اور زيادہ حيرت و مايوسى ہوتى ہے۔ کيونکہ تسخير قمر نے انہيں اتنا دہشت زدہ کرديا کہ ان کے سوچنے سمجھنے کى صلاحيت تک سلب ہوگئى۔ خصوصيت کے ساتھ علمائے حجاز تک کا مبتلائے حيرت و ارتياب ہوجانا سمجھ ميں نہيں آتا۔ چنانچہ گزشتہ سال عبدالرحمن نور ولى صاحب، مقيم مکہ، کا ايک مراسلہ ہفت وار ’’صدقِ جديد‘‘ لکھنوء ميں شائع ہوا تھا جس ميں ہے کہ:

 ’’……. بيروت سے جب واپس حجاز لوٹا تو يہاں بھى وہى واقعہ زير بحث تھا۔ بعض علماء بھى تذبذب ميں تھے کہ اس کى تصديق کس طرح کى جائے۔ جبکہ قرآنى آيت سے تو يہ معنى نکلتے ہيں کہ چاند آسمان ميں ہے۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ قرآنى آيات وسيع معنى رکھتى ہيں اور چاند تک پہنچنا ناممکن نہيں کہا جاسکتا۔ حقيقت کا کيسے انکار کيا جائے۔ اسلام تو ہميشہ حق کو تسليم کرتا ہے اس تکذيب سے اہل باطل طعنہ زن ہوں گے کہ ہمارے مذہب کا اتنا تنگ نظريہ ہے کہ ايک کھلى حقيقت کو ماننے سے پس و پيش کررہا ہے …….‘‘ 

 گزشتہ سال ميرے ايک واقف کار مولوى حبيب اللہ خان صاحب ندوى مالورى متعلم مدينہ يونيورسٹى، ايام تعطيلات ميں بنگلور آئے ہوئے تھے، تو ان سے بھى اس سلسلے ميں تبادلہ خيال کے دوران معلوم ہوا کہ علمائے حجاز کا نظريہ يہ ہے کہ چاند آسمانى چھت ميں جڑا ہوا ہے۔ اور انسان کسى حال ميں چاند پر نہيں پہونچ سکتا۔ موصوف نے بتايا کہ علمائے حجاز کا استدلال حسب ذيل آيت سے ہے:

تَبَارَكَ الَّذِيْ جَعَلَ فِيْ السَّمَآءِ بُرُوْجًا وَّجَعَلَ فِيْهَا سِرَاجًا وَّقَمَرًا مُّنِيْرًا۔  (فرقان: ٦١)

 ترجمہ: بڑا ہى بابرکت ہے وہ جس نے آسمان ميں (بہت سے) برج بنائے اور ان ميں ايک چراغ (سورج) اور ايک روشنى دينے والا چاند بنايا۔

 وہ کہتے ہيں کہ يہاں پر ’’فِيْ السَّمَآءِ‘‘ ميں ’’فِيْ١ٍ ‘‘’ ’عَلَى٢ٍ ‘‘ کے معنى ميں ہے۔ جس کا مطلب يہ نکلتا ہے کہ چاند آسمانى چھت ميں جڑا ہوا ہے۔ انسان چونکہ آسمان تک نہيں جاسکتا۔ اس لئے وہ چاند تک بھى نہيں پہونچ سکتا-

 يہ بڑا عجيب و غريب استدلال ہے۔ جس کو قرآن کا نظريہ کہنا صراحتاً قرآن کے ساتھ بے انصافى ہوگى۔ پھر ’’فِيْ‘‘ کو خواہ مخواہ ’’عَلَى‘‘ کے معنى ميں لينے کى دليل کيا ہے۔ اور اس کى ضرورت ہى کيا پيش آگئى؟ سوال يہ ہے کہ اگر يہ کہا جائے کہ: ’’اس گھر ميں دس مٹکے موجود ہيں‘‘ تو آخر اس کے کس لفظ سے يہ لازم آئے گا کہ يہ تمام مٹکے گھر کى چھت سے ٹنگے ہوئے ہيں؟ اور منطق کے کس قاعدے کى رو سے يہ مفہوم صحيح ہوگا؟-

 يہ بحث اس صورت ميں ہے جب کہ ’’فِيْہَا‘‘ کى ضمير کا مرجع ’’السَّمَآء‘‘ کو قرار ديا جائے۔ مگر اس کے برعکس اس کا مرجع ’’بُرُوْج‘‘ ماننے کى صورت ميں سرے سے يہ سوال ہى نہيں پيدا ہوتا، اور اصولاً مرجع قريب ہونے کے لحاظ سے يہى زيادہ بہتر بھى ہے۔ چوتھے باب ’’قرآن اور فلکيات‘‘ سے پتہ چلے گا کہ بروج سے مراد کہکشائيں (GALAXIES) ہيں۔ اس صورت ميں مطلب بالکل صاف اور مطابق واقعہ ہے کہ ہمارے چاند سورج کہکشائوں ميں واقع ہيں۔ يعنى ان کہکشائوں ميں سے کسى ايک کا جزو ہيں۔ اس لحاظ سے آيت کريمہ کا صحيح ترجمہ يوں ہوگا: بڑا ہى بابرکت ہے وہ جس نے آسمان ميں (بہت سے) برج بنائے اور ان برجوں ميں ايک چراغ اور ايک روشنى دينے والا چاند بنايا١ٍ ‘‘۔

 چاند، سورج اور ستاروں کے آسمان ميں جڑے ہونے کا نظريہ اصل ميں يونانى حکيم بطليموس کا نظريہ تھا۔ جو صديوں تک علمى دنيا ميں رائج رہا۔ مگر عرصہ ہوا کہ يہ نظريہ ’’عجائب گھر‘‘ کى زينت بن چکا ہے۔ بطليموسى نظريہ کو نہ صرف جديد سائنس رد کرچکى ہے بلکہ قرونِ وسطى ميں خود مسلمان حکماء اور سائنس دان بھى بہت پہلے بدلائل غلط ثابت کرچکے ہيں۔ قرونِ وسطى کے يہ نظريات ہميں مثنوى مولانا روم اور تفسير کبير تک ميں بھى مل جاتے ہيں۔ يہ ايک تعجب خيز امر ہے کہ ان سائنٹفک انکشافات سے قرونِ وسطى کے مفسرين اور صوفيائے کرام تک واقف ہوں مگر ہمارے دور کے علماء اور مفسرين بے خبر ہوکر اہل کليسا ہى کى طرح بطليموس کے سُر ميں اپنا سر ملائيں اور قرآن کو بھى يونانى حکمت کا تابع بناديں۔

 يہ خرابى اس لئے پيدا ہوئى اور يہ ايک تلخ حقيقت ہے کہ ہمارے علماء نے موجودہ سائنس اور اس کے افکار کو ’’علم غير‘‘ يا شجر ممنوعہ قرار دے کر اس سے بالکل ’’اچھوتوں‘‘ جيسا برتائو کرليا۔ اور سائنسى تحقيقات کو بالکل ناقابل اعتبار اور ساقط الاعتبار قرار دے ديا، يا اس کو غير ضرورى سمجھ کر نظرانداز کرديا۔ اگرچہ سائنس کے بعض نظرى مسائل ميں تغير و تبدل ممکن ہے۔ مگر اس کا يہ مطلب تو نہيں کہ پورے ذخيرئہ سائنس اور اس کے تمام مسلمات کو ردى کى ٹوکرى ميں پھينک ديا جائے جو صدہا سال کے مسلسل غور و فکر اور تحقيق و تفتيش کے نتائج ہيں۔ بلکہ علم انسانى کا ايک قيمتى سرمايہ بھى۔ سائنس تو خود قرآنى مقصد اور اس کے تقاضوں کے مطابق قوانين قدرت کا پتہ لگانے اور کائنات کى مشنرى کو سمجھنے کى کوشش کرتى ہے (ملاحظہ ہو دوسرا باب) اس سرمايہ کو آخر کس بنياد پر دريا برد کيا جاسکتا ہے؟-

 پھر يہ بات بھى قابل توجہ ہے کہ جب يونانى علوم، اس کا حکمت و فلسفہ اور اس کے افکار و نظريات قابل اعتنا اور قابل حجت ہوسکتے ہيں تو پھر موجودہ علوم سائنس اور اس کے افکار و نظريات قابل اعتنا کيوں نہيں ہوسکتے؟ کيا يونانى علوم الہامى ہيں جن پر آنکھيں بند کرکے يقين کرليا جائے؟-

 مثل مشہور ہے الحديد بالحديد يفلح (لوہا لوہے کو کاٹتا ہے) لہذا حقيقت يہ ہے کہ جب تک سائنسى افکار و نظريات سے ناواقفيت رہے گى سائنس کا توڑ بھى ممکن نہ ہوسکے گا۔ اور دوسرى حيثيت سے جو علوم سائنس سے بے بہرہ رہے گا وہ سائنس کے کمالات و عجائبات کو حيرت و استعجاب اور مرعوبانہ نظروں سے ديکھنے لگے گا۔ جس سے احساس کمترى کى تخم ريزى ہوگى۔ صحيح نقطئہ نظر يہ ہے کہ سائنس اور علوم جديدہ کا مطالعہ کرکے حالات و واقعات کا حقيقت پسندانہ نقطئہ نظر سے جائزہ ليا جائے، کسى بھى مسئلہ يا واقعہ ميں اس کے تمام پہلووں کو مدنظر رکھتے ہوئے علمى حيثيت سے اس کا تجزيہ کيا جائے اور اس کى صحت و سقم پر ناقدانہ اور مبصرانہ حيثيت سے نظر کى جائے۔ پھر کوئى واضح اور متوازن نظريہ قائم کرکے علمى دنيا کى رہنمائى کى جائے۔

اجرام سماوى اور ان کا نظام:

 حقيت يہ ہے کہ سماوات (آسمانوں) کے متعلق عوام تو عوام اکثر خواص تک ميں غلط فہمياں موجود ہيں۔ جہاں تک ميں سمجھ سکا ہوں سماوات خصوصاً ’’سمائے دنيا‘‘ سے عدم واقفيت ہى کى بناء پر اس قسم کے غلط نظريات جگہ پاسکے ہيں۔ جن کى بنياد پر تسخير قمر کا انکار کرنا پڑا ہے۔ فلکيات سے متعلق قرآنى نظريات پر بحث تو چوتھے باب ميں کى گئى ہے، سردست اتنا عرض کرنا ہے کہ اگر علمائے حجاز کے مذکورئہ بالا نظريہ کو -کہ چاند آسمان ميں جڑا ہوا ہے- صحيح تسليم کرليا جائے تو پھر حسب ذيل آيات کا کيا مطلب ہوگا! –

کُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ۔ (انبيا: ٣٣)

ترجمہ:   (چاند سورج وغيرہ) ہر ايک اپنے مدار ميں تيررہا ہے۔ 

 (اَللّہُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّموتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا) (رعد: ٢)

ترجمہ:  ا   للہ نے آسمانوں (آسمانى سياروں) کو بغير کسى ستون کے بلند کيا ہے جيساکہ تم ديکھ رہے ہو١ٍ۔

 وَتَرَى الْجِبَالَ تَحْسَبُهَا جَامِدَةً وَّهِيَ تَمُرُّمَرَّ السَّحَابَ صُنْعَ اللّہِ الَّذِيْ ٓاَتْقَنَ کُلَّ شَيْءٍ-  (نمل: ٨٨)

 ترجمہ:   اور تم پہاڑوں کو ٹہرے ہوئے گمان کرتے ہو حالانکہ وہ بادل کى طرح تيزى سے گزر رہے ہيں۔ يہ اللہ کى صنعت ہے۔ جس نے ہر چيز کو استحکام بخشا ہے٢ٍ۔

 اِنَّ اللّہَ يُمْسِكُ السَّموتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلًا- (فاطر: ٤١)

ترجمہ:   يقينا اللہ آسمانوں (آسمانى اجرام) اور زمين کو روکے ہوئے ہے کہ وہ (اپنے مقام سے) ہٹ جائيں۔

 ظاہر ہے کہ تيرنے کا مفہوم جڑے ہونے کے عين منافى ہے اور بغير کسى سہارے کے قائم رہنے کا مفہوم بھى يہى نکلتا ہے کہ وہ فضائے بسيط (خلا) ميں بغير کسى ہک (HOOK) کے معلق ہيں۔ پہاڑوں کے بھاگنے کا صاف مطلب يہ ہے کہ زمين بھاگ رہى ہے۔ ورنہ اگر زمين کو ساکن تصور کرليا جائے تو پھر پہاڑوں کا دوڑنا ايک بے معنى بات ہوگى۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارى زمين بھى فضائے بسيط ميں گردش کررہى ہے۔ يہى حال ديگر تمام اجرام سماوى کا بھى ہے جيساکہ ارشاد بارى ہے:

 (کُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمّى) (زمر: ٥)

 ترجمہ: ہر ايک ايک مقررہ مدت تک دوڑ رہا ہے۔

 اب سوال يہ ہے کہ يہ اجرام فضائے بسيط (خلا) ميں کس طرح معلق ہيں؟ اور وہ نيچے کيوں نہيں پڑتے؟ تو قرآن اس کى توجيہہ يہ کرتا ہے کہ اللہ تعالى ان تمام اجرام کو اپنى قدرت کاملہ کے ذريعہ تھامے ہوئے ہے (اِنَّ اللّہَ يُمْسِکُ السَّموتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلًا)۔ اب سائنس نے اس رازِ خدائى کو اس طرح فاش کيا ہے کہ تمام اجرام سماوى ميں ايک غير مرئى اور غير محسوس قوتِ جذب و کشش ہوتى ہے۔ ہر ايک جرم فلکى دوسرے کو اپنى طرف کھنچتا ہے١ٍ۔ ايک ستارے يا سيارے کے چاروں طرف جتنے بھى اجرام ہوتے ہيں سب اس کو اپنى اپنى طرف کھينچنے کى کوشش کرتے ہيں اور وہ خود بھى دوسروں کو اپنى طرف کھنچتا ہے۔ اس ہمہ گير جذب و کشش کى بدولت ايک زبردست توازن قائم رہتا ہے۔ اور کوئى بھى کرہ گرنے نہيں پاتا۔ اس ہمہ گير قانون کشش کو سائنس کى اصطلاح ميں ’’عالم گير قانون تجاذب‘‘ (يونيورسل لا آف گراوٹيشن٢ٍ) کہتے ہيں۔

 سائنس کے بيان کے مطابق اجرام سماوى کى گردش اور ان کى بقا کا راز دو چيزوں ميں مضمر ہے:

  •  ١- قوت کشش 
  •  ٢- رفتار حرکت 

 حقيقت يہ ہے کہ اگر اجرام سماوى ميں قوت کشش باقى نہ رہے يا زائل ہوجائے تو سب کے سب آپس ميں ٹکراکر پاش پاش ہوجائيں۔ اسى طرح ہر ايک جرم فلکى ايک خاص ضابطہ اور مقررہ رفتار کے تحت دوڑ رہا ہے۔ اور اس کى موجودہ رفتار حرکت ميں ذرا سى بھى کمى بيشى نقصان دہ اور مہلک ثابت ہوسکتى ہے۔ مثلا چاند -جو کہ زمين کا ذيلى سيارہ ہے- کى رفتار حرکت اپنے مدار ميں فى گھنٹہ ٢٣٠٠ ميل ہے۔ اگر اس رفتار ميں کمى واقع ہوجائے تو وہ رفتہ رفتہ زمين سے ٹکراسکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر زيادتى واقع ہوجائے تو وہ زمين کا ساتھ چھوڑکر دور بھاگ سکتا ہے۔ جس کا پہلا نتيجہ يہ ہوگا کہ زمين اپنے ’’بيڈلمپ‘‘ (BED LAMP) سے محروم ہوجائے گى اور دوسرا نتيجہ يہ ہوگا کہ چاند يا تو بے کراں خلائوں ميں بھاگتا پھرے گا يا پھر کسى دوسرے سيارے سے ٹکراجائے گا۔ يہى حال ديگر تمام اجرام کا بھى ہے۔

 اس تفصيل سے واضح ہوگيا کہ قانون کشش اور رفتار حرکت کا موجودہ نظام بڑے گہرے سوجھ بوجھ اور حکمت و دانش کا نتيجہ ہے جو رياضى کے اعلي ترين اصولوں پر قائم ہے۔ اس نظام ميں کسى قسم کا تفاوت نہيں رہا ہے۔ حتى کہ ان اجرام کى گردش ميں سينکڑوں سالوں ميں ايک منٹ اور ايک سکنڈ کى بھى کمى بيشى نہيں ہوتى۔

ذلِكَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ۔  (انعام: ٩٦)

 ترجمہ: يہ ہے منصوبہ ايک زبردست اور ہمہ دان ہستى کا۔

سائنس اور وجود بارى

 الغرض پہلى چيز (قانون کشش) کے متعلق قرآن کہتا ہے:

 اِنَّ اللّہَ يُمْسِكُ السَّموتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلًا ۔  (فاطر: ٤١)

ترجمہ:  اللہ آسمانوں اور زمين کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ اپنے مقام سے ہٹ جائيں۔

 اور دوسرى چيز (رفتارِ حرکت) کے متعلق کہتا ہے:

 (کُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى)   (ہر ايک مقررہ مدت تک دوڑ رہا ہے۔) اس کے دو مطلب ہوسکتے ہيں: (١) ايک مقررہ مدت (قيامت) تک دوڑتا رہے گا۔ اس صورت ميں مضارع کا صيغہ مستقبل کے معنى ميں ہوگا۔ (٢) ہر ايک ايک معين وقت١ٍ ميں چکر لگارہا ہے اس صورت ميں مضارع کا صيغہ (يجرى) حال کے معنى ميں ہوگا۔ 

 ہر علم و فن کى اصطلاحيں الگ الگ ہوتى ہيں اور قرآن حکيم کا يہ عمومى انداز بيان ہے کہ وہ ہر چيز کى علت غائى (فائنل کاز) يا فاعلِ حقيقى اللہ تعالى کو قرار ديتا ہے۔ اگرچہ اس کو عام اسباب و علل سے انکار نہيں ہے، جيساکہ قرآن کے ديگر نصوص شاہد ہيں۔ لہذا يہاں پر بھى اجرام سماوى کى برقرارى اور ان کے وجود کى علت غائى ’’امساک الہى‘‘ قرار دى گئى ہے۔ اس کا يہ مطلب نہيں ہے کہ اس امساک کى کوئى مادى توجيہہ نہيں ہوسکتى۔ مگر داد ديجئے کہ سائنس نہ صرف اس ’’امساک‘‘ کى تصديق کرتى ہے بلکہ صاف اور کھلے طورپر خدا کے وجود کا اعتراف بھى کرتى ہے۔ يعنى ’’عالم گير قانون تجاذب‘‘ کا پتہ لگاچکنے کے باوجود سائنس دانوں کى سمجھ ميں اب تک يہ بات نہيں آسکى ہے کہ يہ قوت کشش بذاتِ خود ہے کيا چيز؟ اس کا عمل کيسے اور کيونکر ہوتا ہے١ٍ؟ گوياکہ خود سائنس کو ايک برتر اور ہمہ گير قوت قاہرہ کے وجود کا اعتراف ہے جس کى اصل کنہ و حقيقت کا وہ ادراک نہيں کرسکتى۔ گوياکہ اس کائنات ميں کوئى ايسى قوت ضرور موجود ہے جس کى مادى اعتبار سے کوئى توجيہہ نہيں کى جاسکتى۔ اسى کو مذہب کى اصطلاح ميں خدا کہتے ہيں۔ يہ ہے (اِنَّ اللّہَ يُمْسِکُ السَّموتِ وَالْاَرْضَ اَنْ تَزُوْلًا) کى ايک دل نواز اور روح پرور تفسير۔

 يہ قانون جذب و کشش محض ايک خدائى فعل ہے۔ جو سائنس (علم انسانى) کى دسترس سے باہر ہے۔ ظاہر ہے کہ جب علم انسانى ايک خدائى فعل ہى کا ادراک نہيں کرسکتا تو پھر اس کى ذات والا صفات کا کيا خاک ادراک کرسکتا ہے؟۔

 (ذلِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ): يہ ہے ايک زبردست اور ہمہ دان ہستى کا منصوبہ۔

 حقيقت يہ ہے کہ جہاں کہيں سائنس اپنى نارسائى يا جہالت کا اعتراف کرليتى ہے تو سمجھ لينا چاہئے کہ وہاں سے ايک مسبب الاسباب ہستى کى سرحد شروع ہورہى ہے۔ اسى کو اسلام ’’عالم غيب‘‘ کہتا ہے۔ بات صرف قانونِ کشش ہى کى نہيں بلکہ اس وسيع کائنات ميں جس قدر بھى قوانين قدرت يا ’’افعال الہى‘‘ اور ’’صفات خداوندى‘‘ کے جلوے اور ان کى حيرت ناکياں موجود ہيں ان سب کا بھى يہى حال ہے۔ جو کبھى علم انسانى کى گرفت ميں نہيں آسکتيں۔ چنانچہ (وَمَآاُوْتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ اِلاَّ قَلِيْلًا) (اور تم کو بہت تھوڑا علم دياگيا ہے) ايک زندہ و تابندہ حقيقت ہے۔

 قوانين قدرت ميں غور و فکر کى انتہا تحير و درماندگى کے سوا کچھ نہيں ہے۔ اس عالم رنگ و بو کو جتنا زيادہ سمجھنے کى کوشش کيجئے، حيرت و استعجاب اتنا ہى بڑھتا جاتا ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کائنات ميں ايک پراسرار افعال والى ہستى کا وجود ضرور ہے جس کى نہ صرف ذات بلکہ اس کے افعال و صفات بھى پراسرار ہيں، اسى کو قرآن ’’الہ‘‘ کہتا ہے جس کے لغوى معنى ايسى ہستى کے ہيں جو حيران و ششدر کردينے والى ہو۔

سَاُرِيْکُمْ آيَاتِيْ فَلاَ تَسْتَعْجِلُوْنَ۔  (انبياء: ٣٧)

 ترجمہ:  ميں عنقريب تم کو اپنے دلائل و نشانات دکھادوں گا۔ لہذا تم جلدى مت کرو۔

 اس بحث سے بخوبى ثابت ہوگيا کہ علوم جديدہ اور علم سائنس سے مذہبى عقائد پر کوئى آنچ نہيں آتى بلکہ وہ اور زيادہ روشن و تابناک ہوجاتے ہيں اور خدا کے وجود کا عقيدہ اور زيادہ مستحکم و پائيدار ہوجاتا ہے۔ يہى وجہ ہے کہ قرآن حکيم ميں مطالعہ کائنات کى پرزور دعوت دى گئى ہے، جيساکہ تيسرے باب کى تفصيلات سے ظاہر ہوگا۔ حقيقت ےہ ہے کہ قوانين فطرت١ٍ ميں ايک شاہد حقيقى کا جلوہ بخوبى نظر آجاتا ہے جس کا انکار نوع انسانى سے بن نہيں پڑتا۔ صرف ديدئہ بينا کى ضرورت ہے۔       (جاری)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: