Slide
Slide
Slide

یوم اساتذہ : یوم احتساب

محمد خالد ضیا صدیقی ندوی/مدرسہ معینیہ عظمت العلوم،صاحب گنج، مظفر پور 

   ۵/ستمبر کی تاریخ بھارت کے لیے  خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔اسی دن ہندوستان کے سابق صدر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر’’سرو پلی رادھا کرشنن‘‘ (Sarvepalli Radhakrishnan) کے یوم پیدائش کے موقع پر’’یوم اساتذہ ’’منایا جاتا ہے۔ 

یوم اساتذہ کی تاریخ :

  اس کی تاریخ یہ بتائی جاتی ہے کہ جب ڈاکٹر رادھا کرشنن ہندوستان کے صدر منتخب ہوئے ،تو ان کے کچھ شاگردوں اور دوستوں نے ان سے خصوصی ملاقات کرکے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم آپ کا یوم پیدائش منانا چاہتے ہیں۔تواس وقت انھوں نے کہا :’’ میرے یوم پیدائش منانے کی بجائے اگر ۵/ ستمبر کو ’یوم اساتذہ‘ منایا جائے،تو مجھے زیادہ فخر ہوگا’’۔اسی دن سے باقاعدہ سرکاری طور پر ۵/ستمبرکوبھارت میں یوم اساتذہ کے طور پر منایا  جانے لگا ۔ اس دن طلبہ اور طالبات اپنے ٹیچرس کو اپنی پسند اور زیادہ تر ان کی پسند کے تحفے تحائف پیش کرتے ہیں۔ریاستی اور مرکزی حکومتیں بھی اچھی خدمات انجام دینے والے اساتذہ کو خصوصی انعامات سے نوازتی ہیں۔ گویا ۵ /ستمبر کی یہ تاریخ ہرسال آکر اساتذہ کورسمی سی خراج عقیدت پیش کرکے چلی جاتی ہے، اور اساتذہ بھی رسمی طرزتشکر وامتنان سے طلبہ کی محبتوں کی وقتی قدر کرتے ہوئے پھر اپنی افتادطبع کے مطابق سرگرم سفر ہوجاتے ہیں۔ 

ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ اور بے لاگ انداز میں یہ جائزہ لینا چاہیے کہ استاد کہتے کسے ہیں؟ وہ کیسے ہوتے ہیں؟ ان کے اوصاف کیا ہیں؟ ان کے فرائض کتنے نازک ہیں؟ دین اسلام میں اساتذہ کاکیا مقام ہے؟ آج کے اساتذہ اور کل کے اساتذہ میں کیا کچھ فرق آگیاہے؟ان پہلؤوں پر مختصراً چند باتیں پیش خدمت ہیں۔ 

استادکسےکہتے ہیں؟:

      آئیے سب سے پہلے ہم استاد کے معنی اور مفہوم کاتعین کرلیں، جناب عبدالودود انصاری صاحب استاد کامفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتےہیں :

’’استاد ایک فارسی لفظ ہے، جس کے معنی سکھانے والا، کامل فن، مشاق وغیرہ کے ہوتے ہیں۔ قدیم وسطی دور سے جب بنی نوع انسان نے یہ محسوس کیا کہ علم کے حصول اور اس کی اشاعت میں ہی انسان کی اچھی شخصیت، درندگی سے نجات، اجتماعی زندگی، اچھے سماج کی تعمیر، تہذیب وشائستگی اورتوہمات وجہالت کی جکڑ بندیوں سے آزادی جیسے عناصر مضمر ہیں، تواپنے محسوسات کو عملی جامہ پہنانے کے لئے حصول علم کی جانب متوجہ ہوا، حصول علم کے بعد جوطبقہ علم کی اشاعت میں مصروف ہواوہ ’’استاد‘‘کہلایا، جسے ہمارے ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب نے ایک طرف پنڈت، ادھیاپک، گرو، اپادھیہ، اپدیشک، شاستری اور شکھچھک کے نام سے یادکیا، تو دوسری طرف معلم، مدرس، استاذ، علامہ، شیخ، پیر، آموزگار، مربی، واعظ، خطیب، ٹیچر اور ماسٹر کے نام سے موسوم کیا‘‘ ۔

(استاد :ایک عظیم شخصیت : ۱۵ )

اسلام کی نظرمیں استادکامقام: 

     دنیاکی کسی مذہبی کتاب کویہ عزت حاصل نہیں ہے کہ اس کاآغاز ’’پڑھنے لکھنے ‘‘ اور’’علم وقلم‘‘کے حوالےسے ہواہو۔ یہ دین اسلام ہی ہے جس کے سرپر’’ اقرأ ‘‘ کاتاج رکھ کر یہ مژدہ سنایا گیا کہ اب جوامت برپاکی جانے والی ہے وہ ’’علم وقلم‘‘  کے ہتھیار سے لیس ہوگی، اور  ’’تعلیم وتعلم‘‘  اس کا طغرائے امتیاز ہوگا، یہی وجہ ہے کہ پیغمبر آخرالزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’معلم انسانیت ‘‘ بناکر مبعوث فرمایاگیا ، اس طرح شان علم کودوبالاکردیاگیا،حتی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مقاصد بعثت میں سے اہم ترین  مقصد’’ تعلیم وتربیت‘‘کو قراردیاگیا ،ارشاد باری تعالی ہے: 

’’بالیقین اللہ تعالی نے مومنون پر بڑااحسان کیا جب اس نے ان ہی کے اندر سے ان میں ایک رسول کوبھیجا جوان پراللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے، اوران کاتزکیہ کرتا ہے، اور انھیں کتاب وحکمت کی تعلیم دیتا ہے، بے شک اس سے پہلے یہ لوگ کھلی گمراہی میں مبتلاتھے‘‘۔[آل عمران :  ١٦٤]

 خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنےمقصد بعثت کاتعارف ان الفاظ میں کرایا :’’میں معلم بناکر بھیجا گیا ہوں ‘‘۔(ابن ماجہ:۲۲۹)

 قرآن وحدیث کی اس شہادت سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اسلام نےدین اور علم دونوں کے دامن کو کتنے توازن اور خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے سے باندھ دیا ہے، اور اس کے بین السطور سے آپ کی ذہانت اس بات کابھی اندازہ کر لے گی کہ اسلام ایک استاد کوکس عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔

استاد کی ذاتی سیرت و اوصاف اوران کےفرائض وذمےداریاں:

     استاد کی حیثیت چوں کہ ایک اسوہ اور ماڈل کی ہوتی ہے، اس لیے بہت ضروری ہے کہ ایک استاد کی زندگی اسے طالب علم کی زندگی سے ممتاز کرتی ہو،اس کاطرززندگی طالبعلم کے طرز حیات سے نہایت ہی اعلی اور بلند ہو؛کیوں کہ بقول جناب عبدالودود انصاری:  ’’ شاگرد اپنے استاد کی درس وتدریس کے سوا اس کے حرکات وسکنات اور عادات واطوار کابغور مشاہدہ ہی نہیں کرتا ؛ بلکہ انھیں اپنانے کی کوشش بھی کرتا ہے؛ اس لیے استاد کووہ تمام عادتیں اور خصلتیں اختیار کرنی چاہیے جنھیں وہ بچوں کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ کبھی کبھی تو کسی بڑے کو اپنا ’’ہیرو ‘‘بناکر اس کی ہراداکو اپنے اندر پیدا کرناچاہتا ہے؛ اسی لیے استاد کو بچوں کاصرف استاد نہیں ہوناچاہیے؛ بلکہ اس کا ’’ہیرو ‘‘بھی ہونا چاہیے‘‘۔ (استاد ایک عظیم شخصیت :  ۷۱)

   آئیے ذیل میں استاذ کی سیرت اور ذاتی اوصاف کی چند جھلکیاں دیکھتے ہیں۔ قاضی ابن جماعہ کی کتاب ’’تذکرۃ السامع ‘‘ کے حوالے سے مولاناسید ریاست علی ندوی مرحوم نے لکھا ہے کہ استادوں کے لیے ذیل کے چند ذاتی اوصاف ضروری ہیں:

  •  خوف خدا 

          علمااوراساتذہ پرواجب ہے کہ وہ بزم وخلوت میں ہر جگہ اپنے تمام اقوال وافعال اور حرکات وسکنات میں خوف خداوندی کو ملحوظ رکھیں؛ کیوں کہ جوعلوم انھیں ودیعت کیے گئے ہیں ان کے حقیقی نگہبان اور امانت دار وہی  ہیں ۔

  •  وقارومتانت

        علماکی زندگی متانت اور وقار کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ کاارشاد ہے: ’’ علم حاصل کرو اور اس کے لیے متانت اوروقار پیداکرو ‘‘۔

 قتیبہ امام مالک کے درس کی مجلس کے متعلق کہتے ہیں: ’’امام مالک کی مجلس وقار، حلم اور علم کی مجلس تھی۔وہ پروقار اور اچھی خصلتوں والے تھے۔ ان کی مجلس میں شوراور ہنگامہ نہ تھا اور نہ آواز بلند ہوتی تھی ‘‘۔

  •  شریعت کی پابندی 

            شریعت کی پابندی کرنا معلموں اور عالموں کاسب سے پہلا فرض ہے۔ وہ اسلامی شعار اور ظاہری احکام کے پورے پابند ہوں؛ کیوں کہ علمااور اساتذہ ہی عام مسلمانوں اور طالب علموں کے پیشوا ہیں۔ اگرایک عالم اپنے علم سے خود فائدہ نہ اٹھائے تودوسرے اس سے کیوں کر فائدہ اٹھائیں گے۔

  •  اخلاق حسنہ سےآراستگی 

 انھیں محاسن اخلاق کے زیور سے آراستہ ہونا چاہیے۔ان کی سراپازندگی پاکبازی اورقناعت میں بسر ہو۔ مجموعی طورپر اچھے اخلاق اور عمدہ عادتیں توبہ،  استغفار،اخلاص ویقین، صبروتقوی، قناعت ورضا، زہد، توکل، صفائی باطن، حسن ظن، تجاوز، درگذر، حسن خلق، احسان، شکرنعمت، مخلوق پرشفقت، شرم وحیا اور محبت الہی ایسے جامع خصائل ہیں جنھیں پیداکرنا چاہیے۔

  •    اخلاق رذیلہ سے اجتناب 

    دوسری طرف انھیں ہرقسم کے برے اخلاق سے اپنادامن پاک اور صاف رکھناچاہیے، خصوصاً بغض، حسد، کینہ، تکبر، بخل، خباثت نفس، خودپسندی، فخر، غیبت، چغل خوری، جھوٹ، بہتان، حرص، طمع، مداہنت، نمودونمائش، فحاشی، ہزل گوئی، ٹھٹھا، بیہودہ مذاق اور دنیاطلبی …..  یہ ایسے برے اخلاق ہیں جن سے علماکو بلند اور برتر رھناچاہیے۔

  •    احترام علم

         اساتذہ اور علماکافرض ہے کہ وہ خود بھی علم کی عزت کریں اور اپنے کسی طرزعمل سے کوئی ایساموقع نہ آنے دیں کہ علم کے احترام کو صدمہ پہونچے۔

۷۔    چھوٹے پیشوں سے اجتناب 

           علم کے احترام کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ایسے چھوٹے پیشوں کواختیارنہ کریں جواہل علم کے شایان شان نہ ہوں۔

  •    تہمت کےموقعوں سےاجتناب 

  انھیں تہمت کے مشتبہ موقعوں سے بھی بچنے کی ضرورت ہے۔

  •   مشاغل کی پابندی اور اوقات کی حفاظت 

       علماواساتذہ کافرض ہے کہ وہ کوشش اور محنت میں ہمیشہ مصروف رہیں …… انھیں اپناوقت سب سے زیادہ عزیز رکھناچاہیے۔ مختلف غیرعلمی وتعلیمی مشغولیتوں کھانے پینے، ملنے ملانے، راحت وآرام حاصل کرنے اور خانگی زندگی میں وقت گزارنے میں کم سے کم وقت صرف کریں ۔ حقیقت یہ ہے کہ علم کامرتبہ رسولوں کی جانشینی کے درجے تک پہونچانا ہے، یہ بلند مرتبہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا۔

  • مطالعے کااستمرار 

          علمااور اساتذہ کومطالعہ کاسلسلہ ہمیشہ جاری رکھناچاہیے۔ حضرت سعید بن جبیر فرماتے ہیں :  ’’عالم اسی وقت تک عالم رہ سکتا ہے جب تک وہ طالب علم ہے، جب وہ پڑھناچھوڑدے اور سمجھے کہ وہ علم سے بے نیاز ہوگیا اور جوکچھ اس نے حاصل کرلیا وہ اس کے لئے کافی ہے، توایساسمجھنے والا سب سے بڑاجاہل ہے‘‘۔

  • چھوٹوں سےاستفادہ

          علما کے لیے تویہ بھی معیوب نہیں کہ وہ اپنے چھوٹوں سے استفادہ کریں، حکمت مومن کی کھوئی ہوئی دولت ہے اسے جہاں پائے اٹھالے۔ اشہب بن عبدالعزیز کہتے ہیں :  ’’میں نے  (امام) ابوحنیفہ کو (امام) مالک کے سامنے ایسادیکھا جیسے کوئی بچہ باپ کے سامنے ہو‘‘۔اس پر امام ذہبی فرماتے ہیں کہ: ’’یہ(امام) ابوحنیفہ کے حسن ادب اور تواضع کی بڑی دلیل ہے، حالانکہ وہ (امام) مالک سے تیرہ سال بڑے تھے ‘‘۔( تذکرۃ الحفاظ : ۱/ ۱۹۵) 

  •   تصنیف وتالیف کاشغل 

    علماکایہ بھی فرض ہے کہ وہ تصنیف اور تالیف میں مشغول رہیں؛لیکن یہ دشوارگذارراہ اسی وقت اختیارکریں جب اس پر چلنے کی پوری استعداد آگئی ہو اور اثنائے راہ کی منزل کی دشواریوں سے پوری آگاہی ہو ……. اپنی تصنیف کے لیے ایسا موضوع منتخب کریں جس کانفع عام ہو اور لوگوں کواس کی ضرورت ہو، عبارت میں اعتدال قائم رکھیں …. اپنی تصنیف اس وقت تک شائع نہ کریں جب تک اس پر نئے سرے سے نظرثانی نہ کرڈالیں …….. اگرتصنیفی استعداد موجود نہ ہوتو ہرگز قلم ہاتھ میں نہ اٹھائیں؛ کیوں کہ ہرعالم کے لیےمصنف ہوناضروری نہیں ۔ 

  •  طلبہ پرشفقت   

             استاد شاگردوں کے ساتھ غیر معمولی شفقت، لطف اور محبت سے پیش آئے، ان کے اخلاق وعادات کی نگرانی اور ان میں اسلامی پاکبازی اور پرہیزگاری پیداکرنے کے علاوہ ان کی ہرقسم کی ضرورتوں پر نگاہ رکھے۔ان  کی پوشیدہ مالی امداد کرے۔ بیمار پڑنے پران کی عیادت، اور مصیبت میں تعزیت اور غم گساری کرے۔ (اسلامی نظام تعلیم :  ۹۲ ــ ۱۰٤ ملخصاً)

  •  اپنے پیشے سے رغبت

     استاد کواپنے پیشے سے بھرپور دلچسپی اور رغبت بھی ہونی چاہیے۔ اکثروبیشتر بہت سارے استادوں سے یہ کہتے سناگیا ہے کہ اسے درس وتدریس کاارادہ بالکل نہیں تھا؛ مگر بحالت مجبوری یاحادثاتی طورپر استاد بن گیا۔بعض تویہ بھی کہتے ہیں کہ میری قسمت خراب تھی کہ اسکول میں ٹیچر کی نوکری کررہاہوں، ورنہ میراارادہ توافسر بننے کاتھا۔اگراس طرح کی بات استاد کے اندر ہوگی تووہ کبھی کامیاب اور مفید استاد نہیں بن سکتا، خواہ کتنا ہی تعلیم یافتہ ہو‘‘۔ (استاد ایک عظیم شخصیت :  ۲٤ )

  • اپنے ہم منصب استادوں کے ساتھ خوشگوارتعلق 

        کسی استاد کاامتحان صرف کلاس میں درس وتدریس کے دوران ہی نہیں ہوتا؛ بلکہ اسکول کے دوسرے استادوں اور دیگر عملوں کے ساتھ اس کے تعلقات کی بناپر بھی ہوتا ہے۔ہراستاد کو اپنے ساتھی استاد اور دیگر اسٹاف کے ساتھ نہایت ہی خوش گوار رشتہ قائم رکھنا چاہیے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے ایک استاد اپنے ساتھی استاد کی غیبت بچوں کے سامنے بیان کرنے کو معیوب نہیں سمجھتا ہے۔کبھی کبھی یہ حربہ ٹیوشن کی دکان کو چمکانے کے لیے بھی استعمال کیاجاتا ہے۔ یقین جانیے بچوں کی نگاہ میں غیبت یابرائی کرنے والے استاد کی قدرومنزلت گرجاتی ہے۔( ایضاً :  ۵٦) 

  •   انتظامیہ سے تعلق

    استاذ کومجلس انتظامیہ کے ساتھ پوراتعاون کرنا چاہیے؛ لیکن یہ بھی درست ہے کہ مجلس انتظامیہ کی بے جا جی حضوری استاد کی شان کے خلاف ہے۔بعض اوقات استاد تھوڑی سی مراعات حاصل کرنے کے لیےمجلس انتظامیہ کے افراد کو فرشی سلام کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔یاد رکھیے! ایسے استادوں کووہ مقام حاصل نہیں ہوتا جیسا مقام ایک استاد کو ہونا چاہیے۔( ایضاً :  ۵۹)

طلبہ کی تراش خراش اورکردارسازی میں استادکارول

  جناب عبدالودود انصاری صاحب نے کیا خوب لکھا ہے :

 ’’ معلم آسمان تعلیم کاایسادرخشندہ ستارہ ہے جس کی روشنی سے کئی نسلیں فیضیاب ہوتی ہیں۔یہ تو سبھی جانتے، مانتے اور اس کااظہارواعتراف بھی کرتے ہیں کہ بچے قوم کی امانت اور اس کے روشن مستقبل کے علم بردار ہوتے ہیں۔ایک اچھے معاشرے کی تخلیق کے لئے بچے ہی قوم کااہم ترین سرمایہ اور خزانہ ہوتے ہیں، اور انھی کے کاندھوں پر آنے والے دنوں میں قوم وملک کی عمارتیں کھڑی ہوں گی، لہذا اس خزانے کی حفاظت استادپر ہی ہوتی ہے اور ان بچوں کو بہترین معمار استاد ہی بناسکتا ہے ۔ایک چینی کہاوت بہت ہی مشہور ہے:’’اگر ایک سال کامنصوبہ بنارہے ہوتو کاشت کرو۔دس سال کامنصوبہ بنارہے ہوتو شجرکاری کرو۔ اوراگرسوسال کامنصوبہ بنارہے ہوتو انسان سازی کرو ‘‘۔ یقیناً انسان سازی کاکام صرف اور صرف معلم ہی احسن طور پر کرسکتا ہے: 

ایک معلم ہی توعرفان خدادیتاہے

فرد کونفس کی پہچان کرادیتا ہے

بچوں کی کردار سازی میں استاذ کو ہمیشہ پرامید رہنا چاہیے۔کبھی مایوسی اور قنوطیت کو اپنے پاس نہیں پھٹکنے دینی چاہیے۔  بڑے اچھوتے انداز اور خوب صورت پیرائے میں استاد کے اس پہلو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے آزاد ہندوستان کے معززصدر، ماہر تعلیم اور کامیاب معلم ڈاکٹر ذاکر حسین فرماتے ہیں: 

’’بچے کی طرف سے جب ساری دنیا مایوس ہوجاتی ہے، توبس دوآدمی ہیں جن کے سینے میں امید باقی رہتی ہے: ایک اس کی ماں اور دوسرااچھااستاد‘‘۔(امنگ، نئی دہلی، جولائی ۲۰۰۹ ء )

’’پگمے لین‘‘نے استاد کی خاصیت کو اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے :

’’ ہر مخلص معلم اپنے تجربات کے دوران بے ہنگم اور بدصورت پتھر سے ایک خوبصورت اور متناسب مجسمہ تراشتا ہے اور پھر اس میں جان ڈالتا ہے‘‘۔(استاد ایک عظیم شخصیت :  ۳۱)

ماہرتعلیم ’’ہمایوں کبیر‘‘نے استاد کی ذمے داری کو اس طرح اجاگر کیا ہے :

’’استاد کاکام صرف یہ نہیں ہے کہ ایک بالٹی سے دوسری بالٹی میں رقیق انڈیلنے کی طرح بچوں میں تعلیم دے‘‘۔(حوالۂ سابق)

ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب لکھتے ہیں : 

’’ تدریس میں یہ نہیں ہوناچاہیےکہ استاد کی نوٹ بک سے طالب علم کی نوٹ بک میں تعلیم منتقل ہوجائے‘‘۔(ایضاً)

علامہ اقبال ؒکہتےہیں :

’’  معلم کافرض تمام فرائض سے زیادہ دشوار کن اور اہم ہے، کیوں کہ تمام قسم کی اخلاقی، تمدنی  اور تہذیبی نیکیوں کی کلید اسی کے ساتھ ہوتی ہے اور تمام قسم کی ملکی ترقی کاسرچشمہ اسی کی محنت ‘‘۔(حوالۂ سابق)

نظیرنیشاپوری نے استاد کی خاصیت کو بڑے ہی اچھے انداز میں فارسی کے شعر میں پیش کیا ہے :

درس ادیب اگربودزمزمۂ محبتے

جمعہ بمکتب آورد طفل گریز پائے را

(اگراستاد کاسبق محبت کاٹھنڈا میٹھا چشمہ بن جائے تو مکتب سے بھاگا ہوا طالب علم چھٹی کے دن بھی استاد کے پاس کھنچا چلاآتاہے)         (حوالۂ سابق :  ۳۱- ۳۲ )

 

احمد سعید صاحب کہتے ہیں:

 ’’ چاند کی روشنی یہ نہیں دیکھتی کہ تاریک گوشوں کو چھوڑدے اور روشن حصوں کواور روشنی فراہم کرے۔ نسیم صبح گاہی اپنے خرام ناز سے پھولوں کو بھی زندگی عطاکرتی ہے اور خاشاک کو بھی مژدۂ سحر سناتی ہے، استاد کامقام چاند کی روشنی، نسیم صبح گاہی کے خرام ناز اور والدین کی شفقت سے کہیں زیادہ اہم ہے‘‘۔(ایضاً : ۳۳)  

اس سے پتہ چلاکہ استاد کاکمال یہ نہیں کہ وہ کتنالائق وفائق ہے اور اپنے نام کے ساتھ کتنی ڈگریاں لکھتا ہے ؛بلکہ اس کا کمال یہ ہے کہ اس نے کتنے باکمال شاگرد پیدا کیے۔ یقین جانیے استاد اگر چاہے تو اپنی کیمیاگری سے مس خام (شاگرد)  کوکندن اور پتھر ( شاگرد)  کو پارس بناسکتا ہے‘‘۔(ایضاً : ۲۳) 

ماضی قریب میں مدارس دینیہ کے پس منظر میں حضرت شیخ الہند اور علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہما کی شخصیت صرف ایک استاد کی نہیں تھی؛ بلکہ سچ پوچھیے تو ایک مجسم ٹکسال کی تھی جس سے مختلف صلاحیتوں کی حامل شخصیتیں ڈھل ڈھل کرنکلتی رہیں۔ اگر (بقول مولاناسید انظر شاہ کشمیریؒ)علامہ انور شاہ کشمیری، مولاناعبید اللہ سندھی، مولانا حسین احمدمدنی، مولاناکفایت اللہ صاحب، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا اعزازعلی صاحب، مولانا فخرالدین مرحوم مولانا محمد ابراہیم  بلیساوی وغیرہم آپ ( شیخ الہند)  کے وہ تلامذہ ہیں جوآپ کے کمالات علمی وعملی کاتعارف ہیں ،تودوسری طرف( بقول مولانا عبدالماجد دریابادیؒ) جن لوگوں کو علامہ شبلی نعمانی کی اتالیقی اور دست شفقت نے تصنیف وتالیف کی اونچی کرسی تک پہنچایا، ان کی مکمل فہرست کوئی تیار کرنا چاہے تواسے خاصی طوالت سے کام لینا پڑے؛ لیکن چند نام لے دینے تو بہر صورت واجب ہیں، اور چند کیامعنی، جونام سر فہرست ہے وہ ایک ہی ایسا ہے جو شاگرد کے ساتھ خود استاد کانام بھی چمکادینے کو کافی ہے۔اس سے مراد آپ خود ہی سمجھ گئے ہوں گے ’’مولاناسید سلیمان ندوی‘‘ ہیں جو حقیقی جانشین شبلی اعظم کے رہے۔ندوہ اور اس کے دارالعلوم ہی کے سیاق میں نہیں؛ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تصنیف وتالیف کے سلسلے میں ….اور پھر آگے چلیے تو عبدالسلام ندوی مرحوم اور مولانا عبدالباری  مرحوم اور ضیاءالحسن علوی مرحوم اور مولوی اکرام اللہ خاں مرحوم، سید ظہور احمد وحشی مرحوم، اور حاجی معین الدین مرحوم اور پروفیسر عبدالواجد مرحوم کے نام بے ساختہ یاد پڑجاتے ہیں، بلکہ اگر باضابطہ شاگردی کی قید اڑادیجیے، تو مولاناابوالکلام (آزاد) مرحوم اور مولانا عبداللہ عمادی کے سے بزرگوں کے نام بھی اس صف میں آسکتے ہیں، اور اس مقالہ نویس کی تو کچھ پوچھیے ہی نہیں، اس بے علمے کوتو جو کچھ الٹاسیدھا لکھنالکھاناآیا وہ اسی آستانہ کافیض ہے‘‘۔

یہ تھے کل کے اساتذہ؛لیکن آج کے اساتذہ کا کیا حال ہے؟ آئیے ایک نظر اس پر بھی ڈال لیں۔

   آج کااستاد بقول جناب عبدالودود انصاری:  ’’پہلے کے استاد کی بہ نسبت زیادہ تعلیم یافتہ اور سند یافتہ ہوتا ہے ……..  لہذاآج کی تدریس بھی پہلے کی بہ نسبت اچھی ہونی چاہیے، پھر بھی نہ جانے کیوں سبھوں کی زبان پر ایک بات مشترک سننے کو ملتی ہے کہ آج اسکولوں میں پہلے جیسی پڑھائی نہیں ہوتی۔ ہرشخص اپنے ماضی کے استادوں کی تعریف کرتاہوا نظرآتا ہے، اور بہت حدتک یہ سچ بھی ہے۔ اور اگر سچ ہے تو اس کی مثال تو بس ایسی ہوئی کہ پہلے کے استاد کے پاس دس روپے ہوتے تھے تووہ پورے دس کے دس بچوں کودے دیتے تھے، اور آج کے کے استاد کے پاس ہزارروپے ہیں جن میں سے دوسو روپے بھی دینے میں انہیں ناگواری ہوتی ہے‘‘۔(استاد ایک عظیم شخصیت :  ۵۵ – ۵٦)

بالفاظ دیگر آج کے اساتذہ اپنے فرض منصبی کو ایمان داری سے نہیں نبھارہے ہیں۔ حیرت ہوتی ہے کہ اسکول اور مدرسہ کے تعلیمی اوقات میں بعض اساتذہ اتنی محنت اور مستعدی سے نہیں پڑھاتے جتنی محنت سے وہ ٹیوشن پڑھاتے ہیں، اسی لیےمولانا ضیاءالدین اصلاحی صاحب کو لکھنا پڑا کہ:  ’’اساتذہ بھی بیگاری کی طرح اپنے مفوضہ کام انجام دیتے ہیں، انھیں تعلیم وتربیت کی مطلق فکر نہیں ہوتی ‘‘۔(مسلمانوں کی تعلیم :  ۷۹ )

 جناب قیصر شمیم صاحب تو اپنے تلخ احساسات کو چھپا نہ سکے اور  قوم کے احساسات وخیالات کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ یہاں تک کہہ گئے کہ  ’’عام طور سے استاد کو ’’ معمار قوم ‘‘ کے لقب سے یادکیاجاتا ہے؛ لیکن استاد اگر غفلت شعار ہو اور اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے انجام نہ دے، تولوگوں کو اسے ’’معمارقوم ‘‘کہنے کے بجائے ’’غارت گرقوم‘‘ یا ’’تخریب کارقوم ‘‘کہنے میں دیر نہیں لگتی‘‘۔(استاد ایک عظیم شخصیت :  ۸)

لیکن ان تمام چیزوں سے قطع نظر ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ استاد کی حیثیت ایک محسن کی ہوتی ہے؛ اس لیے طالب علم کافرض ہے کہ وہ استاد کو عظمت کی نگاہ سے دیکھے ۔ اس کی عدم موجودگی میں بھی اس کانام تعظیمی الفاظ بڑھائے بغیر اپنی زبان پر نہ لائے، حتی کہ اگر استاد کی طرف سے کبھی کوئی زیادتی یا بدخلقی کامظاہرہ ہوجائے تب بھی اس کی بافیض صحبت میں جانے سے گریز نہ کرناچاہیے۔اس سے ہم کلام ہونے میں ہمیشہ ادب اور تہذیب کاخیال رھنا چاہیے۔ اس کی زندگی میں اس کے لیے بھلائی کی دعاکرنی چاہیے اور اس کی وفات کے بعد اس کی قبر کی زیارت کرکے اس کے لیے مغفرت کی دعامانگنی چاہیے؛ کیوں کہ استاد نہ ہوتے تو ہم کچھ بھی نہ ہوتے۔سچ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں میں سے استاد عطاکرکے ہم انسانوں پر کتنا عظیم احسان کیا ہے۔کاش! اساتذہ اور طلبا دونوں اپنی اپنی ذمہ داریاں محسوس کریں۔آج کی تاریخ ہمیں اس بات کاسبق دینے آئی ہے کہ ہم  ’’یوم اساتذہ ‘‘ کو’’ یوم احتساب ‘‘کے طور پر منائیں۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: