دہلوی تہذیب کا مہذب نمائندہ
دہلوی تہذیب کا مہذب نمائندہ
مولانا سید اطہر حسین دہلوی
تحریر : ودود ساجد
وہ جس نے اپنی 47 سالہ زندگی میں اپنی بھاری بھرکم شخصیت کے ساتھ ایک وقار حاصل کیا اسے منوں مٹی تلے دباکر آگئے ہیں ۔ بس زندگی کی اتنی ہی حقیقت ہے۔
آج 26 جنوری ہے۔ ابھی 22 جنوری کی شام ہی تو مولانا اطہر حسین دہلوی سے ملاقات ہوئی تھی ۔ جامع مسجد میں احمد بخاری صاحب کے یہاں ایک تقریب تھی۔ ہمارے حلقہ احباب میں سب سے جوان اور چاق و چوبند وہی نظر آتے تھے۔ اندازہ تو بہت دور شائبہ تک بھی نہیں تھا کہ انہیں کوئی تکلیف ہے۔ گھروالوں کےمطابق ایسی کوئی تکلیف تھی بھی نہیں۔ میں تقریب سے نکلنے لگا تو وہ اپنے مداحوں کا گھیرا توڑ کر دوڑے ہوئے آئے۔ کہنے لگے کہ ابھی آپ سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی اور آپ نے محفل برخاست بھی کردی۔
محض دو دن ہی تو درمیان میں گزرے تھے۔ 25 جنوری کی شب ساڑھے دس بجے برادر خورد حافظ محفوظ محمد نے اطلاع دی کہ مولانا کھڑے کھڑے گر کر رحلت فرما گئے ۔ یقین کو دو تین بار جھٹکے بھی لگے۔ فون رکھ دیا۔ دوچار منٹ کے بعد میں نے برادر خورد کو فون کرکے دوبارہ پوچھا: کیا انہی اطہر دہلوی کی بات کر رہے ہو ۔۔۔؟ جی بھائی جان ۔۔ وہی اطہر دہلوی ۔۔ تصديق کے طور پر دو تین گروپ میں ہلچل مچانے والے پیغامات کا اسکرین شاٹ بھی انہوں نے بھیج دیا ۔۔
مولانا فی الواقع دہلوی تہذیب کا انتہائی مہذب نمونہ تھے۔ علامہ اخلاق حسین دہلوی کے بعد خالص دہلوی انداز کے اتنے ذی علم مولانا اطہر ہی نظر آتے تھے۔۔ بہت محبت’ وارفتگی اور خلوص کے ساتھ گفتگو کرتے تھے ۔ کسی کی مدد کرنی ہوتی تھی تو فون کرکے کہتے تھے ۔ سب کو معلوم تھا کہ وہ خانقاہی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کے رنگ و آہنگ’ طرز گفتگو اور قول و فعل سے یہ پتہ لگانا مشکل تھا کہ وہ کس مسلک کے ہیں ۔ وہ اتحاد بین المسالک کے بہت بڑے علمبردار تھے۔۔
وہ ٹی وی پر مخصوص حالات میں متنازعہ اشوز پر بحث میں جانے سے رکنے کی اپیل سب سے پہلے قبول کرتے تھے ۔فون کرکے کہتے تھے کہ ’ودود بھائی میں تو رک گیا اب انہیں کیسے روکیں۔ اشارہ انہی بحث کاروں کی طرف ہوتا تھا جنہیں یہ روگ لگ گیا ہے اور جو کسی کے روکنے سے نہیں رکتے۔۔
برسبیل تذکرہ یاد آیا کہ دو تین روز پہلے ہی ایک متشدد ہندو گروہ کے لیڈر نے دوران انٹرویو مجھ سے ایک مسلم بحث کار کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ دیکھو ہمارے دیوی دیوتائوں کی کس طرح بے عزتی کرتا ہے‘ ایسے میں کوئی اگر ۔۔۔۔۔۔
خیر یہ دوسرا موضوع ہے۔ مرحوم مجھ سے یہی کہتے تھے کہ ہمیں ایسی بحث میں جانا ہی نہیں چاہئے جہاں دوسروں کے دیوی دیوتائوں کا ذکر ہوتا ہو۔ اس بات کو بھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ ایک چینل نے ’سناتن دھرم کیلئے یہ سال کیسا رہا‘ جیسے موضوع پر بحث کیلئے مولانا مرحوم کو بلایا مگر مولانا نے یہ کہہ کر منع کردیا کہ اس موضوع سے ہمارا کیا تعلق‘ آپ کسی دھرم شاستری کو بلائیے۔ لیکن جنہیں یہ مالیخولیا ہوگیا ہے کہ دنیا کے ہر موضوع پر بولنا ان کا حق ہے انہیں نہ جانے کے فیصلے سے بڑی بے چینی ہوئی۔۔
مولانا مرحوم کے بارے میں لوگ کہتے تھے کہ وہ ہر حکومت کے قریب رہتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کے مفاد کے خلاف جب بھی کوئی صورتحال درپیش آتی تو ان کا موقف حکومت اور شرپسندوں کے خلاف بہت واضح اور صاف ستھرا ہوتا تھا۔ 21 جنوری کو ہمارے بیورو چیف احمد الله صدیقی نے موہن بھاگوت کے بیان پر ان کا ردعمل لے کر بھیجا تھا جو 22 جنوری کو شائع ہوا تھا ۔۔ اسی روز ان سے آخری ملاقات ہوئی تھی ۔۔
وہ 2016 میں ہمارے ساتھ حج پر تھے۔ جب حج سے فارغ ہوکر مکہ سے بذریعہ بس مدینہ پہنچے تو سب سے پہلے انہوں نے ہی بآواز بلند اعلان کیا تھا کہ مسجد نبویؐ نظر آگئی ہے سب لوگ درود شریف پڑھ لیں ۔ دوران حج کئی مواقع پر مسلکی مسائل پیش آئے’ حکومت کے کارندے اپنے مسلک کے حساب سے ہمارا پروگرام ترتیب دے لیتے تھے ۔ مولانا ایسے میں دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا نعمت الله صاحب سے مسئلہ دریافت کرکے اس پر عمل کرلیتے تھے ۔۔
آج ان کے جنازہ اور تدفین میں ایک خلق خدا اٹھ آئی تھی۔ کون سا مسلک تھا جس کے پیروکار شریک نہ تھے۔ سبھی تھے۔ نماز جنازہ ادا کرتے وقت بھی یہی گمان آتا رہا کہ جنازہ کسی اور کا ہے’ اطہر دہلوی کا نہیں۔۔ اور یہ کہ اطہر دہلوی بھی یہیں کہیں ہوں گے۔۔ لیکن منوں مٹی تلے تو ہم اطہر دہلوی کو ہی دفن کرکے آئے ہیں ۔۔ سنا ہے کہ ان کے بچے ابھی معصوم ہی ہیں ۔۔ خدا ان معصوموں کی بہتر تربیت کا انتظام فرمائے اور ان بچوں کی والدہ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔