بہرائچ میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی: انتہا پسندوں کی شرانگیزی اور سیاست دانوں کی خاموشی
بہرائچ میں مسلمانوں پر ظلم و زیادتی: انتہا پسندوں کی شرانگیزی اور سیاست دانوں کی خاموشی
✍️ محمد شہباز عالم مصباحی
سیتل کوچی کالج، سیتل کوچی
کوچ بہار، مغربی بنگال
____________________
ہندوستان کے ریاست اُتر پردیش کے ضلع بہرائچ میں حالیہ دنوں میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و زیادتی نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ ملک میں مذہبی عدم برداشت اور مسلم دشمنی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ہونے والے اس واقعے میں نہ صرف انتہا پسندوں نے کھلم کھلا جارحیت کا مظاہرہ کیا، بلکہ مقامی انتظامیہ اور پولیس نے بھی اس ظلم کو روکنے کے بجائے مزید تشدد کا راستہ اپنایا۔
یہ دل دہلا دینے والا واقعہ اُس وقت پیش آیا جب اکثریتی طبقے کے انتہا پسندوں نے ایک دھارمک جلوس نکالا اور جلوس کے دوران مسلم مخالف نعرے بازی شروع کر دی۔ یہ نعرے بازی صرف اشتعال انگیزی تک محدود نہیں رہی، بلکہ شرپسندوں کی ایک جنونی بھیڑ نے مسلمانوں کے گھروں پر حملہ کر دیا۔ ایک شرپسند شخص نے زبردستی ایک مسلمان کے گھر میں گھس کر اُس کے چھت پر لگے ہوئے مذہبی جھنڈے کو اتارنے کی کوشش کی۔ اس دوران اُس شخص نے گھر میں توڑ پھوڑ کی اور دہشت گردی کا ماحول پیدا کیا۔ جنونی بھیڑ نے نہ صرف مسلمانوں کے املاک کو نقصان پہنچایا، بلکہ اُن کے گھروں کو بھی آگ لگا دی۔ یہ سب کچھ مقامی انتظامیہ اور پولیس کی موجودگی میں ہوتا رہا۔
اس واقعے کی شدت اس وقت اور بڑھ گئی جب بعد میں پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے دو مسلمانوں کا انکاؤنٹر کر دیا۔ انکاؤنٹر کے دوران پولیس نے کوئی تحقیق کیے بغیر دو مسلمانوں کو بری طرح زخمی کر ڈالا، جس نے علاقے کے مسلمانوں میں مزید خوف و ہراس پیدا کر دیا۔ مسلمانوں کے لیے یہ ایک انتہائی تکلیف دہ اور صدمے کا لمحہ تھا کہ ایک طرف شرپسند ان کے املاک جلا رہے تھے اور دوسری طرف پولیس بھی خود ظلم و بربریت کر رہی تھی۔
سیاست دانوں کی مجرمانہ خاموشی:
اس ظلم و زیادتی کے باوجود، وہ سیاسی جماعتیں جو خود کو مسلمانوں کی حامی اور مسیحا کہتی ہیں، جیسے کانگریس اور سماج وادی پارٹی، مکمل طور پر خاموش ہیں۔ کانگریس کے رہنما راہل گاندھی اور سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے اس واقعے کے بعد نہ تو متاثرہ مسلمانوں کے لیے کوئی مؤثر عملی قدم اٹھایا، نہ حکومت سے کسی سخت کارروائی کی اپیل کی، اور نہ ہی بہرائچ جا کر متاثرہ مسلمانوں سے ملاقات کی۔ ان کی خاموشی اور لاتعلقی اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ جماعتیں صرف مسلمانوں کے ووٹ لینے میں دلچسپی رکھتی ہیں، جبکہ جب بات عملی اقدامات اور مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی آتی ہے تو یہ پیچھے ہٹ جاتی ہیں۔
مسلمانوں کا سوال: کیا ہم صرف ووٹ دینے کے لیے ہیں؟
بہرائچ کے مسلمانوں کا یہ سوال بالکل جائز ہے کہ کیا وہ صرف ووٹ دینے کے لیے رہ گئے ہیں؟ کیا سیاست دانوں کی ذمہ داری صرف انتخابات کے دوران مسلمانوں سے ووٹ مانگنے تک محدود ہے؟ جب اُن کے ساتھ ظلم ہوتا ہے، اُن کی جانیں خطرے میں ہوتی ہیں، تو کیا یہ رہنما ان کی مدد کے لیے نہیں آئیں گے؟ راہل گاندھی اور اکھلیش یادو جیسے سیاست دان، جو خود کو سیکولر اور مسلمانوں کے خیرخواہ قرار دیتے ہیں، اس واقعے پر خاموش کیوں ہیں؟
مسلمانوں کا یہ سوال نہ صرف بہرائچ بلکہ پورے ملک کے مسلمانوں کی آواز بن رہا ہے۔ ملک بھر میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اور ان واقعات کے بعد سیاسی جماعتوں کی خاموشی اُن کے دوہرے معیار کو بے نقاب کرتی ہے۔ انتخابات کے دوران مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے تو یہ رہنما بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، مگر جب مسلمانوں پر ظلم ہوتا ہے تو وہ خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔
راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کو بہرائچ جانا چاہیے تھا:
یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا راہل گاندھی اور اکھلیش یادو کو بہرائچ جا کر وہاں کے مظلوم مسلمانوں سے ملاقات نہیں کرنی چاہیے تھی؟ کیا انہیں متاثرہ خاندانوں کا حال معلوم نہیں کرنا چاہیے تھا؟ ان کے ساتھ ہونے والے ظلم کے خلاف حکومت پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے تھا؟ ان کی یہ مجرمانہ خاموشی اور لاتعلقی بتاتی ہے کہ ان کے لیے مسلمانوں کے حقوق اور ان پر ہونے والے ظلم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
مسلمانوں کو خود اپنے حقوق کے لیے کھڑا ہونا ہوگا:
یہ وقت ہے کہ مسلمان خود اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوں اور اپنے مسائل کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں پر اندھا اعتماد کرنے کے بجائے اپنے اندر اتحاد اور یکجہتی پیدا کریں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان اپنے حق کے لیے آواز بلند کریں اور ہر فورم پر اپنے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کریں۔ سیاست دانوں کی حمایت اُس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک مسلمان خود اپنے حق کے لیے مضبوطی سے کھڑے نہیں ہوتے۔
بہرائچ کے مسلمانوں پر ہونے والا یہ ظلم اور اس کے بعد سیاست دانوں کی خاموشی اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ مسلمانوں کو اب اپنے مسائل کے حل کے لیے خود اقدام کرنے ہوں گے۔