۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

میڈیا میں سماجی شعور کا مسئلہ

محمد علم اللہ، نئی دہلی

اردویا ہندی زبان کے میڈیا نے اپنے پھیلاؤ اور تشہیر کے میدان میں جتنا کام کیا ہے، اتنا کام باشعور قاری پیدا کرنے کے لیے نہیں کیا ہے۔ اس کی وجہ میڈیا کے اپنے رویے ہیں۔معروف انگریز ناول نگار، جارج آرویل، (جنہوں نے سات سال تک آبزرور کے لیے بھی مضامین لکھے،) نے کہا تھا:  “Journalism is printing what someone else does not want printed: everything else is public relations.” یعنی’’صحافت اس بات کی اشاعت کا نام ہے جس کی اشاعت کوئی دوسرا نہیں چاہتا۔ اس کے علاوہ سب کچھ محض رابطہ عامہ کی مشق ہے۔‘‘ ہمارے دور میں صحافت مشن نہیں تجارت ہے۔ معاشرے پر اثر و رسوخ رکھنے والے طبقے کے ساتھ مل کر چلنا اور اس کو برقرار رکھنا میڈیا کی تجارتی مجبوری بن گئی ہے۔ معاشرے کو اگر پس ماندہ طبقے کی فکر نہیں ہے، تو میڈیا میں بھی اس کے لیے جگہ نہیں ہوگی۔ میڈیا بالآخر سماجی ڈھانچے ہی کا اظہارہےیااعلامیہ ہے۔ وہ سماجی طاقت کے مراکز کے ساتھ مل کر چلتا ہے۔ انہیں چھیڑنا میڈیا کی فطرت میں نہیں۔ آج صورت حال یہ ہے کہ میڈیا میں سائنسی شعور کے لیے جگہ کم ہے، بے کار مسائل کے لیے جگہ، وقت اور سرمایہ سبھی کچھ دستیاب ہے۔ یعنی ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے میڈیا کے پاس جذباتی،یا غیر ضروری کام کے لیے مجمع جمع کرنا آسان ہے، لیکن کسی سنجیدہ مسئلے پر گفتگو کرنا انتہائی مشکل۔

یہ کہنا غلط ہوگاکہ اس کے لیے صرف میڈیا ذمے دار ہے، سائنسی شعور اور دانش ورانہ سوچ کے لیے معاشرے کے دیگر ڈھانچے میں ہم نے کتنی جگہ لی ہے، یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ سائنسی شعور کی تعمیر میں تعلیم ایک ضروری شئے ہے۔ اگرہم تعلیم کی ترقی اس بنیاد پر کر پائیں تو میڈیا میں بھی اس کی تصویر دکھائی دے گی۔ کیوں کہ میڈیا میں جو لوگ آ رہے ہیں وہ اسی نظام سے آ رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ سماجی ضرورتوں کو سامنے رکھ کر کالم لکھے جائیں۔کوشش کی جائے کہ ادارتیصفحےسے قاری کی ایک شعوری تربیت ہو، اسے یہ نہ محسوس ہو کہ بس خالی خولی چیزوں سے اخبارات کے پیٹ بھرے جاتے ہیں اور ان کے پیش نظر کوئی اہم مقصد نہیں ہوتا۔جب تک ان سب کا مقابلہ نہیں کیا جائے گا، پس ماندہ طبقے کی بات کیسے ہوگی۔ غیر سائنسی شعور اور اندھی تقلید کی مار سب سے زیادہیہی طبقہ جھیلتا ہے۔ پس ماندہ لوگوں میں سے، جن کو سیاسی اقتدار میں حصے داری ملی ہوئی ہے، وہ بھی ان سے اچھوتے نہیں۔

میڈیا کی تاریخ اندھی تقلیدیا دقیانوسی خیالات کے خلاف رائے عامہ ہم وار کرنے اور سائنسی خیالات کے حق میں بے داری پیدا کرنے کی رہی ہے۔ ایسے رسائل کو نکالنے والوں کی وفاداری اور اپنے ملک اور عوام کے تئیں خدمت اور محبت کے لیے ان کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ وہ معاشرے کی بیماری کو پہچانتے تھے۔ مگرڈیجیٹل جرنلزم کے بعد ہندستان میں آج جتنے اخبارات اور چینل آئے، ان میں فضول چیزوں کو شائع کرنے یا دکھانے کے رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ یہاں تک کہ انٹر نیٹ کا کوئی بھی صفحہ کھو لیے تو وہاں سب سے پہلے جنس سے متعلق ہیجان انگیز اشتہار، راشی پھل، واستو یا اسی قبیل کی غیر ضروری چیزیں دکھائی دیتی ہیں۔ یعنی سماجی عادات میں اندھی تقلید، جہالت، منفی رویے ہی سے میڈیا مطمئن ہے۔ انھیں ختم کرنے میں میڈیایا میڈیا میں کام کرنے والے لوگوں کی کوئی خاص دل چسپی نظر نہیں آتی۔

ہمارےیہاں میڈیا کی اکثریت کسی خاص نظریے کے ساتھ منسلک دکھائی دیتی ہے۔ نظریاتی اور سماجی بحران کے وقت یہ وابستگی اور بھی گہری ہو جاتی ہے۔ ہندی میڈیا کا فرقہ وارانہ خیالات کے ساتھ دوستی کا رشتہ کسی سے مخفی نہیں ہے۔ جس کی تفصیلات کئی بار منظر عام پر بھی آ چکی ہیں اور جس کا مظاہرہ وہ تقریباً ہر روز کرتا رہتا ہے۔ حیرت ہے کہ آج بھی سنجیدہ شعور کا فقدان ہے اور شعور کو بیدار کیے بغیر، ہم پس ماندہ سماج کی بات نہیں کر سکتے۔ پس ماندہ طبقے میں وہ سبھی طبقے شامل ہیں، جو سماج میں ذات، جنس، مذہب اورجسمانی معذوری کی وجہ سے نظر انداز کیے جاتے ہیں۔ ان میں دلت، عورتیں، مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی،یہودی وغیرہ، جسمانی اور ذہنی طور پر مختلف صلاحیت والے اور وہ لوگ شامل ہیں جنہیں تیسری جنس کہا جاتا ہے۔ پس ماندہ افراد یا گروہوں پر بات کرتے ہوئے خصوصی طور پر دلت پس ماندہ طبقات، آدی واسی اور خواتین کی بات کی جاتی ہے۔

جہاں تک میڈیا میں پس ماندہ طبقے کی موجودگی کا سوال ہے، تو یہ متعدد تحقیقات اور جائزوںسے ظاہر ہو چکا ہے کہ ان کی آبادی کے حساب سے، میڈیا میں ان کی موجودگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ رابن جیفری نے کیرالا ماڈل کو بنیاد بنا کر لکھی گئی اپنی کتاب ’میڈیا اینڈ ماڈرنیٹی‘ میں اس بات کا ذکر تفصیل سے کیا ہے کہ میڈیا میں دلت طبقے کے نمائندے نہیں ہیں۔ کچھ لوگ کچھ کام کر رہے ہیں، تو وہ اپنی ذاتی شناخت چھپا ئے ہوئے ہیں۔ مختلف وقتوں میں کیے گئے جائزےبتاتے ہیں کہ میڈیا میں اعلیٰ عہدوں پر پس ماندہ طبقے کے افراد کم تعداد میں ہیں۔ سوالیہ ہے کہ آزادی کے اتنے سال بعد بھی جب کہ دلت، اقلیتوں، پس ماندہ اوردیگر طبقات میں اچھا خاصا متوسط طبقہ پیدا ہو چکا ہے، میڈیا سے وہ کیوں غائب ہیں؟یہ جو نیا متوسط طبقہ آیا ہے، اہم ہے، پڑھا لکھا ہے، مگر اس کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔ ہمارے یہاں تعلیم آدمی کو روزگار سے نہیں جوڑ پاتی، بلکہ تعلیم کا ڈھانچہ اس طرح کا ہے کہ اس میں شخص اپنی مہارت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ پڑھا لکھا آدمی پیشہ ور نہیں بنتا، وہ صرف روزگار تلاش کرتا ہے۔

اس کی وجہ ہے پیشہ ورانہ نقطہ نظر، اہلیت اور قابلیت کی مہمیزی کو روک لگانا، ان کی ہمت افزائی نہ کرنا، دلتوں، خواتین، اقلیتوں کی خبریں اگر میڈیا میں نہیں آرہی ہیں، تو ان کے اپنے متوسط طبقے کی پہل کتنی ہے؟ یہ دیکھنا بھی ضروری ہے۔ آج یہ نہیں کہہ سکتے کہ اخباریا چینل ہماری خبریں نہیں دے رہے اور ہماری باتیں لوگوں تک نہیں پہنچتیں۔ آج سوشل میڈیا ایک بڑا پلیٹ فارم مہیا کرتا ہے اور ایک بار خبر جب وہاں ٹرینڈ کرنے لگتی ہے، تو دیگر میڈیا ہاؤس دباؤ میں آ جاتے ہیںاور نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں ایسی خبروں کو جگہ دینی پڑتی ہے، لیکن دیکھنا ہوگا کہ معاشرے کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھنے والے لوگوں میں موضوع کی معلومات، اس سے متعلق اظہار کے لیے کتنی ہمت ہے۔ بڑی تعداد میں عورتیں اور پس ماندہ طبقہ سوشل میڈیا میں سرگرم ہے، مگر وہ اپنے طبقے کی ضرورتوں کے بارے میں کچھ علم نہیں رکھتے۔ یہی بات ہم مسلمانوں کے حوالے سے بھی کہہ سکتے ہیں خصوصا ہندستانی مسلمانوں کے تناظر میں کہ کبھی کبھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ خود اپنے بارے میں اتنا فکر مند ہی نہیں جتنا کہ ہونا چاہیے۔تعمیری اور مثبت رویے کے فروغ کے لیے انھیں سخت کام کرنے کی ضرورت ہے۔غیر ضروری مسائل اور مباحث سے ان کو فرصت ہی نہیں ملتی۔مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد اپنے ہی مسائل سے بے خبر ہے، تو وہ ان پر کیا بات کریں گے، یا ان مسائل پر غور و فکر کی کیا تدابیر کریں گے۔

جہاں تک میڈیا اداروں میں کام کرنے والے لوگوں کی بات ہے، تو وہ کسی کے کردار کو نہیں بناتے، ان میں لگا پیسہ ان کے کردار کو بناتا ہے۔ اگر ایک میڈیا ہاؤس میں تمام پس ماندہ لوگ کام کرنے لگیں، تب بھی اس کی ضمانت نہیںدی جا سکتی کہ میڈیا کا کردار انقلابی ہوجائے گا۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ میڈیا کی ملکیت کس کے ہاتھ میں ہے اور اس کے مفاد ات کیا ہیں۔ امریکا میںامیریکنسوسائٹی آف نیوز پیپر ایڈیٹرس (اے ایس این ای) نے 1970 میں ہدف طے کیا کہ 2000تک امریکی میڈیا میں آبادی کے تناسب سے پس ماندہ لوگوں کو جگہ دی جائے گی۔ لیکن اس سے کیا خبر وں کے معیار پر کوئی فرق پڑا؟ میڈیا کے رویے میں کوئی تبدیلی آئی؟ جب تک نقطہ نظر اور شعور میں تبدیلی نہیں لا ئی جاتی، کوئی بڑی تبدیلی ناممکن ہے۔

ہمارےیہاں میڈیا کم سے کم وسائل سے کام چلاتا ہے۔ مالکان اپنی کمائی کا انتہائی قلیل حصہ صحافیوں کی تنخواہوں پر خرچ کرتے ہیں۔ وہ پس ماندہ افراد کی خبروں کے لیے الگ سے نامہ نگار نہیں رکھتے۔ ادارے جائے وقوعہ تک جانے کے اسباب مہیا نہیں کرتے۔ خبروں کا فوکس سکڑ کر شہروں تک مرکوز ہو گیا ہے۔ کچھ اطلاعات مطلوبہ مراکز سے فون کے ذریعے حاصل کر کے رپورٹ بنا دی جاتی ہے۔ ایسی خبریں اعتبار نہیں بناتیں، اعتماد نہیں بڑھاتیں۔ یہی وہ دور ہے، جب میڈیا کو سب سے زیادہ اعلان کرنا پڑ رہا ہے کہ وہ حقیقت اور سچائی پیش کر رہا ہے۔ مختلف ’بِیٹ‘کے اچھے صحافی نہیں ہیں، رپورٹر نہیں ہیں؛ اب ماہرین کو بلا کر ’اینکرنگ‘کے ذریعے پروگرام تیار ہو رہے ہیں۔ میڈیاروایتی پیشہ نہیں ہے؛ یہ پیشہ ورانہ رویے کا مطالبہ کرتا ہے۔ پیشہ ورانہ رویہ پیشہ ورانہ ذمے داری عائد کرتا ہے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: