Slide
Slide
Slide

علامہ سید سلیمان ندوی کے افکار کی عصری معنویت

ڈاکٹر ظفردارک قاسمی

علامہ سید سلیمان ندوی  ( 1884-1907)  کی ولادت موضوع دیسنہ  میں ہوئی جو پٹنہ سے سولہ اور بہار شریف سے آٹھ میل کے فاصلے پر ہے ۔  جس عہد میں آپ کی ولادت ہوئی وہ زمانہ ہندوستانیوں کے یے بڑی آزمائش کا تھا ۔ کیوں کہ اٹھارہ سو ستاون  کی ناکامی کے بعد عموماً مسلمانوں میں ایک طرح کی مایوسی اور ناامیدی چھائی ہوئی تھی ۔ سماجی ، سیاسی اور معاشی طور پر ہندوستانیوں خصوصا مسلمانوں کو کئی طرح کی آزمائشوں کا سامنا تھا ۔ وطن عزیز پر اقتدار و تسلط انگریزوں کا تھا جس کی وجہ سے وہ طرح طرح کے صرف مظالم و مصائب ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ان کی مشنریاں اہل ایمان  کو برگشتہ کررہی تھیں ۔ ادھر کچھ ہندوستانی اپنے ضمیر وایمان کو بیچ کر فرنگیوں کے لیے کام کرتے تھے جس کی وجہ سے مزید پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔ الغرض ہندوستان میں اس وقت جو ماحول تھا وہ بڑا ہی کشمکش اور صبر آزما تھا ۔ البتہ اہل ہند کو اس مایوسی اور کرب و اذیت سے نکالنے کے لیے اور مستقبل کو روشن خطوط پر استوار کرنے کے لیے سرزمین علی گڑھ میں معمار قوم سرسید احمد خاں نے مدرسة العلوم الاسلامیہ مسلمانان ہند کی بنیاد رکھ دی اوروہ ایک کالج کی شکل اختیار کرچکا تھا۔۔ ادھر سرزمین دیوبند میں دارالعلوم کی ابتداء ہوچکی تھی ۔  ان دونوں تعلیمی اداروں نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھائی اور ایک اچھا ماحول سازگار کرنے کی کوشش کی ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان دونوں اداروں کا نہج اور نصاب تعلیم ایک دوسرے سے ممتاز ضرور تھا لیکن مقصد دونوں کا ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور یہاں کی عوام کو امن و یکجہتی کے اصولوں سے آشنا کرانا تھا ۔ ان دونوں اداروں سے ایسے ملک و قوم اور ملت کے سچے ، مخلص اور وفادار جانثار پیدا کرنا تھا جو صرف اپنی قوم و ملت کے تئیں ہی مخلص نہ ہوں بلکہ پوری انسانیت ،تمام ملک کے ہمدرد بن سکیں ۔ الحمد للّٰہ آج  یہ دونوں تعلیمی ادارے اپنے مقصد میں پوری طرح کامیاب ہیں ۔ 

سید سلیمان ندوی کے اہم اور بنیادی کارناموں میں دارالمصنفین کی تعمیر و ترقی ہے جب  کہ دارا المصنفین کے کاموں کا آغاز ( 1914- 1918) میں ہوچکا تھا۔ شاہ معین الدین احمد ندوی نے  حیات سلیمانی میں لکھا ہے کہ ” سید صاحب کے علمی کارناموں میں سب سے بڑا کارنامہ دارالمصنفین کی تعمیر و ترقی ہے ، اگر چہ اس کی بنیاد علامہ شبلی نے ڈالی تھی، مگر ابھی وہ اس کے ابتدائی انتظامات سے فارغ بھی نہی ہوئے تھے کہ ان کا وقت آخری ہو گیا ، پھر ان کے پیش نظر دار المصنفین کا اتنا بلند و وسیع تخیل نہ تھا ، جس پر اللہ تعالیٰ نے ان کو پہنچایا اور جو عظیم الشان کا ان کے ذریعہ انجام پائے ،اس کی ترقی کا ایک بہت بڑا سبب تو اس کے کارکنوں کا اخلاص و حسن نیت ہے ، دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ ٹھیک ایسے وقت میں قائم ہوا جب علمی اور دینی حیثیتوں سے ایسے ادارہ کی ضرورت اور ملک کو اس کی طلب تھی ” ۔

چنانچہ یہ بات سب جانتے ہیں کہ دارالمصنفین نے اپنے قیام کے بعد ہی سے علمی و تحقیقی میدان میں وہ گراں قدر خدمات انجام دیں جن کی گھن گرج ہمیشہ محسوس کی جائے گی ۔ علامہ شبلی اس ادارے کے بانی ہیں تو علامہ سید سلیمان ندوی نے اس کو ترقی و ارتقاء کا لباس زیب تن کیا اور قوم و ملک کو ایک ایسا ادارہ دیا جس کی روح میں توسع اور فکری گیرائی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ شبلی اکیڈمی میں جو بھی علمی کارنامے انجام دیئے گئے ان کی افادیت و اہمیت اور معنویت آج بھی اہل علم کے یہاں موجود ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندوی ایک اچھے سیرت نگار اور ممتاز ادیب و دانشور ہیں انہوں نے اپنی علمی فتوحات میں جن خیالات اور جن مسائل و مباحث کو پیش کیا ہے وہ آج تمام وارثین علم کے لیے سند و متن کا درجہ رکھتے ہیں ۔ سید سلیمان ندوی کی تحریریں علمی و تحقیقی ہوتی ہیں وہیں انہوں نے اپنے خطوط اور تحریروں میں قومی ہم آہنگی اور تہذیبی تنوع ، رنگا رنگی کو بڑے خوبصورت پیرائے میں  رقم کیا ہے۔ 

دسمبر 1916 میں ماہنامہ معارف میں ایک تحریر کا اقتباس پیش ہے جس اندازہ ہوگا کہ علامہ سید سلیمان ندوی کے مزاج میں ہندوستانی تہذیب کے تحفظ اور یہاں ثقافت کا تحفظ کس حد تک تھا۔ 

” ہندوستان کی ترقی کا شور و غل اس وقت تک صدائے بے اثر ہے جب تک اس میں کوئی جامعیت پیدا نہیں ، ہندوستان مختلف نسلوں ، مختلف مذہبوں اور مختلف زبانوں کا گھر ہے ، ان مختلف النسل ، مختلف المذہب اور مختلف اللسان افراد کو جماعت اور مختلف جماعتوں کو ایک ایک قوم بنانا صرف اسی طریقہ سے ممکن ہے کہ ان میں نسلی یا مذہبی یا لسانی اتحاد پیدا کیا جائے ، ہندوستان کی مختلف نسلی جنسیتوں کو ایک کرنے کا خیال ایک بے سود اور ناقابل عمل تخیل ہے ، تمام ہندوستان کو صرف ایک مذہب کا پیرو بنادینا گو عقلا ممکن ہے اور دائرہ عمل کے اندر داخل ہے لیکن بیرونی مشکلات کی بنا پر ایک وسیع مدت تک تقریباً محال ہے ، اس لیے تمام ہندوستان کو اگر ہم ایک متحد قوم بنانا چاہتے ہیں تو صرف زبان ہی کا اشتراک ایک ایسی چیز ہے جو ان اختلافات کو مٹاکر تمام ہندوستانیوں کو ایک مشترک و متحد قوم بنا سکتی ہے ” (حیات سلیمانی، صفحہ 110)

سید صاحب نے اس اقتباس میں ان تمام نظریات اور افکار کی تردید کی ہے جو ہندوستان کو یک رنگی یا کسی مخصوص فکر کا حامل بنانا چاہتے ہیں ۔ کیونکہ یہاں کا حسن تنوع میں ہی مضمر ہے ۔ ادیان و مذاہب کا احترام اور قومی و علاقائی زبانوں کی اہمیت و افادیت سے روگردانی کرنا ہندوستان کے روحانی و اخلاقی اقدار کو مجروح و مخدوش کرنے کے مترادف ہے ۔ آج مل میں جو بحثیں چل رہی ہیں  ملک کو ہندو راشٹر یا یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے لیے جو کمیونٹی کوشاں ہے اسے اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ جس دن اس پر عمل درآمد ہوگیا اس دن ہندوستان کی عالمی سطح پر جو پہچان اور شناخت ہے وہ یقیناً پوری طرح ختم ہو جائے گی ۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے متذکرہ اقتباس کی روح یہی ہے کہ ہندوستان کے تعدد و تنوع کو نہ صرف برداشت کیا جائے بلکہ باہم افکار و خیالات کا احترام بھی ملحوظ خاطر رہے ۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی نے اردو زبان کی ترویج و اشاعت کیسے ممکن ہو اور اس کا تحفظ کیسے ہو اس پر بھی معارف کے شذرات اگست  1935ء میں لکھا ہے علاوہ ازیں وہ اردو کے بارے میں لکھتے  رہے ہیں۔ 

” ہندوستان کی اس عالم گیر اور وسیع زبان کا غلط نام ایسا مشہور ہوگیا ہے کہ لوگ مذہبی اصطلاح کی طرح اس کو پکڑے ہوئے ہیں ، حالانکہ اس لفظ کے اندر اس زبان کی پیدائش کی بالکل غلط تاریخ پوشیدہ ہے ، عموماً ہر زبان کا نام اس زبان کے ملک یا قوم کی ہم نامی سے پیدا ہوتا ہے ، اس لیے ہندوستان کی اس عام مشترک زبان کا صحیح نام ہندوستانی ہوسکتاہے اور یہ وہ نام ہے جو کم از کم تین چار سو برس سے اس زبان کا نام رکھا گیا ، اس زبان کا ابتدائی نام ہندی یا ہندوستانی تھا ، ہمارے ہم وطنوں نے ہندی کو اپنی ایک خاص زبان اور رسم الخط کے معنوں میں لے کر ایسا مشہور کر دیا کہ یہ نام اس کے لیے خاص ہوگیا ، اب دوسرا نام ہندوستانی باقی ہے ۔ اگر اردو کو چھوڑ کر اس کے اصلی اور قدیم نام کو زبان زد اور عام نہ کیا گیا تو ” اسی کے ساتھ علامہ سید سلیمان ندوی نے  ا اُردو زبان کی ترقی اور ترویج کی  بابت  جس غفلت کا تذکرہ کیا ہے یقیناً وہ بڑا ہی اہم ہے ۔ چنانچہ جون 1935 ء میں معارف کے شذرات میں رقم کرتے ہیں ۔ 

” ہندوستانی ( اُردو)  کے لیے اس کے حامی کچھ نہیں کررہے ہیں ، نہ اس کی تبلیغی انجمنیں ہیں ،نہ اس کی اشاعت کے لیے صوبہ میں شاخیں ہیں ، نہ اس مقصد پر کسی صوبہ میں ایک پیسہ کوئی خرچ کررہا ہے اور نہ حیدرآباد دکن کے سوا کوئی اسلامی ریاست کچھ کررہی ہے ، نہ ان صوبوں میں جن کی وہ مادری زبان نہیں ہے ”  ( حیات سلیمانی صفحہ 348) 

اس تناظر میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ علامہ سید سلیمان ندوی اردو زبان کو اُردو کے قائل نہیں ہیں بلکہ ان کا نطریہ ہے کہ کسی بھی زبان کی ترویج اور اس کی نشرو اشاعت کے لیے  ملک یا قوم کے نام سے مشتہر کیا جائے ۔ اسی لیے انہوں اردو کو ہندوستانی  کہا ۔ آج کے عہد میں اُردو زبان کے ساتھ جو سوتیلا رویہ برتا جارہا ہے یا ماضی می جو کچھ ہوا وہ سب عوامل بڑے مایوس کن ہیں ۔ علامہ سید سلیمان ندوی کا یہ نظریہ بڑا معنویت کا حامل ہے کہ اردو کا نام ہندوستانی ہونا چاہیے ۔ اس سے اُردو زبان کو نہ مذہب کا علمبردار کہا جاتا اور نہ اردو کسی بھی سطح پر تعصب و جانب داری کی شکار ہوتی ۔ اس کے علاوہ شکایت یہ بھی ہے کہ آج اردو کے زوال پر تقریریں کرنے والے ، مضامین لکھنے والے بہت لوگ مل جائیں گے لیکن اردو کا زیادہ سے زیادہ فروغ کیسے ہو اس پر ہماری کاوشیں بہت کم ہورہی ہیں ۔ حتی کہ جو لوگ اردو کے نام پر کما کھارہے ہیں ان کے یہاں بھی اردو کا کوئی یومیہ جریدہ اور نہ کوئی ماہنامہ رسالہ آتا ہے ۔ ہماری پریشانی یہی ہے کہ ہم اپنی کمیوں کا ٹھیکرا دوسروں پر پھوڑتے ہیں ۔ تصور کیجیے جن کی روزی روٹی اُردو کے نام پر چل رہی ہے اگر وہی اردو سے محبت نہیں کریں گے تو عام آدمی کیا کرے گا ۔ یقینا ہمیں اس حوالے سے سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی نے عوام کی اصلاح  فلاح کے لیے جہاں تقریر و بیان سے کام لیا وہیں انہوں نے تحریری طور پر بھی ملک و قوم کی خدمت کا فریضہ انجام دیا ۔ سید سلیمان ندوی  کے کارناموں میں  ایک اہم کارنامہ معارف کی ادارت ہے اس میں جوشذرے ، اداریے انہوں نے لکھے وہ مسلمانان ہند کی علمی ، فکری اور تہذیبی ضرورتوں کی تکمیل میں نمایاں ہیں ۔ 

علامہ سید سلیمان ندوی کی خدمات کی جہات متنوع اور گونا گوں ہیں ان کا تعلق علمی اداروں ، سماجی واصلاحی تنظیموں سے رہا تو وہیں انہوں نے علمی فتوحات کے حوالے سے بھی بڑے بڑے کارنامے انجام دیئے ۔  مثلآ سیرت النبی کی تکمیل ، ارض القرآن ، عرب و ہند کے تعلقات ، وغیرہ وغیرہ ۔ ان کی علمی کاوشوں کا ذخیرہ بہت وسیع ہے ان تمام کو یہاں پیش کرنا ممکن نہیں ہے ۔ اسی طرح ان کی حیات کے تمام نمونوں کو رقم کرنے کے لیے سیکڑوں صفحات کی ضرورت ہے ۔ 

یہاں اتنا سمجھ لینا ضروری ہے کہ کہ علامہ سید سلیمان ندوی کی خدمات گونا گوں ہیں انہوں نے دینی اور عصری دونوں نظاموں سے واقف ہونے کا موقع ملا ۔ ادھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ،  جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اجلاسوں ، اے ایم یو کورٹ کی رکنیت کے ساتھ طلباء سے براہ راست خطاب کیا جو اس بات کی علامت ہے کہ ان کے فکر و مزاج میں توسع تھا ۔ اسی کے ساتھ انہوں نے شبلی اکیڈمی کی نظامت ، ماہنامہ معارف کی ادارت ، دارالعلوم ندوة  العلماء لکھنؤ کی ذمے داری سنبھالی ۔ دیگر کئی علمی و فکری اکیڈمیوں کے ممبر رہے ۔ ہر جگہ بڑے اخلاص اور انہماک سے کام کیا ۔ اہم بات یہ ہے کہ ان تمام ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ  علامہ سید سلیمان ندوی نے  علمی کام بھی برابر کیا ۔  جو ہم سب کے لیے قابل فخر اور لائق اتباع ہے ۔ علامہ سید سلیمان ندوی کے افکار و نظریات کی اہمیت اور افادیت آج بھی برقرار ہے ان کی تحریریں ہم آہنگی ، بقائے باہم اور سماجی اتحاد و اتفاق کی آئینہ دار ہیں اس وقت اس طرح کے افکار کی جو ضرورت ہے اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: