Slide
Slide
Slide

جاؤ ! دعوت وتبلیغ کا آغاز اپنی ذات سے کرو۔

اصلاح کی ابتدا اپنی ذات سے کیجیے

جَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ!- –رضي الله عنه – إِنِّيْ أُرِيْدُ أنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ أنْهٰى عَنِ الْمُنْكَرِ، قَالَ: أوَ بَلَغْتَ ذلک؟، قَالَ: أرْجُوْ، قَالَ: فَإنْ لَمْ تَخْشَ أنْ تُفْتَضَحَ بِثَلاَثَةِ أحْرُفٍ فِيْ كِتَابِ اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَافْعَلْ، قال: وَ مَا هُنَّ ؟، قَالَ: قَوْلُهُ عَزَّ وَ جَلَّ : [ أتَأمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أنْفُسَكُمْ ] أحْكَمَتْ هٰذِهِ الآيَةَ؟، قَالَ: لاَ، قَالَ: فَالْحَرْفُ الثَّانِيْ، قَالَ قَوْلُهُ عَزَّ وَ جَلَّ :  [ لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ ] أحْكَمْتَ هٰذِه الآيَةَ؟، قَالَ: لاَ قَالَ: فَالْحَرْفُ الثَّالِثُ قَالَ: قَوْلَ الْعَبْدِ الصَّالِحِ شُعَيْبِ –عليه السلام– [ مَا أرِيْدُ أنْ أُخَالِفَكُمْ إلٰى مَا أنْهَاكُمْ عَنْهُ] أحْكَمَتْ هٰذِهِ الآيَةَ؟، قَالَ: لاَ، قَالَ: فَابْدَأ بِنَفْسِكَ 

 شعب الایمان، باب فی الامر بالمعروف والنہی عن المنکر، حدیث نمبر:۷۱۶۲۔

  • ایک آدمی نے حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے کہا:میں دعوت وتبلیغ کا کام کرنا چاہتا ہوں، لوگوں کو نیکی کی تلقین کروں گااور برائی سے روکوں گا۔

 انہوں نے کہا: کیا تم اس مرتبہ پر پہنچ چکے ہو؟۔

 اس نے کہا: ہاں توقع تو ہے۔

 ابن عباسؓ نے کہا: اگر یہ اندیشہ نہ ہو کہ قرآن مجید کی تین آیتیں تمہیں رسوا کردیں گی تو ضرور تبلیغِ دین کا کام کرو۔

:اس نے پوچھا: وہ کون سی تین آیتیں ہیں؟ابن عباس ؓ نے فرمایا: پہلی آیت یہ ہے

 أتَأمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أنْفُسَكُمْ 

 کیا تم لوگوں کو نیکی کا وعظ کہتے ہو اور اپنے کو بھول جاتے ہو۔

 تو بتاؤ !   اس پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟۔ اس نے کہا: نہیں

 فرمایا: دوسری آیت یہ ہے

 لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ، كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ 

تم وہ بات کیوں کہتے ہو جس پر عمل نہیں کرتے، بہت ہی بری بات ہے وہ جو تم کہتے ہو لیکن کرتے نہیں ہو۔

 بتاؤ !  اس پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟۔

 اس نے کہا: نہیں۔

 ابن عباسؓ نے فرمایا

تیسری وہ آیت  جو شعیب علیہ السلام نے اپنی قوم سے کہی تھی

 مَا أرِيْدُ أنْ أُخَالِفَكُمْ إلٰى مَا أنْهَاكُمْ عَنْهُ

جن بری باتوں سے میں تمہیں روکتا ہوں تو میرا قطعا یہ ارادہ نہیں کہ تم کو روک کر خود آگے بڑھوں اور یہ برے کام کرنے لگوں۔

ابن عباسؓ نے پوچھا

 اس پر اچھی طرح عمل کرلیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔

فرمایا:جاؤ ! دعوت وتبلیغ کا آغاز اپنی ذات سے کرو۔

درج بالا حدیث سے اندازہ ہوتا ہےکہ  سائل کو دوسروں کی اصلاح کی بہت فکر تھی۔ لیکن وہ اپنی ذات سے بے گانہ تھا۔ اسے دوسروں کی کوتاہیوں کا پتہ تھا لیکن اپنی کمیوں و کوتاہیوں سےبے خبر تھا۔  یعنی کہ اپنی ذات سے غافل انسان دوسروں کی تبلیغ کا ’’ شوق ‘‘ پالے ہوئے تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے صورت حال کا اندازہ لگاکر سائل کی اچھی اصلاح کی اور نہایت عمدگی کے ساتھ بہتر مشورہ دیا۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: