ہمایوں اقبال ندوی /نائب صدر، جمعیت علماء ارریہ
"پورے ملک کو زعفرانی رنگ میں رنگ دینے کی کوشش ہورہی ہے”یہ بیان وزیر اعلی بنگال کی طرف سے آیا ہے،ان کی شکایت یہ ہےکہ "اب کرکٹ کھلاڑی زعفرانی رنگ کی جرسیوں میں پریکٹس کرتے ہیں، میٹرو اسٹیشنوں کو زعفرانی رنگ دیا گیا ہے یہ ناقابل قبول ہے”۔خیر یہ تو زعفرانی رنگ کی بات ہے،آگے بڑھئیے اور دوسری خبربھی پڑھئیے جواتر پردیش کی راجدھانی لکھنو سے مل رہی ہے کہ حلال سرٹیفکیٹ دینے والی تنظیموں کےخلاف مقدمہ درج کرکے کاروائی بھی شروع کردی گئی ہے، یہ زعفرانی فکر ہےجو زعفرانی رنگ سے زیادہ ہمارے لئےخطرناک ہے۔
ملک میں جب سے ایک خاص نظریہ کی حکومت قائم ہوئی ہےمسلسل اس کی کوشش ہورہی ہے کہ مسلمانوں سے اس کا دین ومذہب چھین لیاجائے۔اس کے لیے ہر حربہ آزمایا جارہا ہے،جن چیزوں کو اسلام نے ختم کیا تھا،اب وہ چیزیں اسلام کو نقصان پہونچانے کے لئے ملک میں منظم طور پرپھیلائی جارہی ہیں۔ توہم پرستی، جادو ٹوٹکے، تعویذ گنڈہے، جھاڑپھونک اور منتر کواسی لئےخوب فروغ دیا جارہا ہے۔ دراصل ان کے ذریعہ ایک صاحب ایمان کو کفر وشرک میں مبتلا کرنے کی خطرناک سازش ہے۔
آج باباوں کواس مشن کی تکمیل کے لئے ملک بھر میں پھیلادیا گیا ہے،ملک میں ایک معروف ومشہور سادھو ہےجسے آج کل خوب پرموٹ کیا جارہا ہے، تخت وتاج اوران کے دربار کو دیکھ کر بادشاہ ہونے کا احساس ہوتاہے۔ بڑے بڑے لوگوں کی اس کے دربار میں غلامانہ حاضری ہوتی ہے، آن کیمرہ وہ دعوٰی کرتاہےکہ وہ غیب کی باتوں کو جانتا ہے،پورے ملک میں اسے خوب نشر کیا جارہا ہے۔کچھ بھولے بھالے مسلمانوں کو بھی وہاں تک پہونچاکر اور دربار میں حاضر کروا کر اس کی خوب تشہیر کی جارہی ہے، اس کا مقصد ایمان وعقیدہ کو ضائع کرنا ہے، یہ اسلام ومسلمان پر ایک بڑا فکری حملہ ہے۔
افسوس صد افسوس کی بات تو یہ بھی ہے یہ چیزیں کسی نہ کسی درجہ میں مسلم سماج میں بھی گھس آئی ہیں، حالیہ کچھ سالوں سے اس کا خوب رواج ہوگیا ہے۔سوشل میڈیا پر باضابطہ اشتہار دیکر اس کی گارنٹی لی جاتی ہے کہ کام نہیں ہوا تو پیسے واپس، ابھی اس تعلق سے ایک قتل کا منحوس واقعہ بھی رونما ہوا ہے، مقتول نے تعویذ کے بدلے کچھ رقم حاصل کی تھی اور متعینہ وقت میں کام ہوجانےکی گارنٹی بھی لی تھی، بروقت کام نہیں ہوا تو تیز دھار دار ہتھیار سے موصوف کا ہی کام تمام کردیا گیا، قاتل ومقتول دونوں صاحب ایمان ہیں اور کلمہ گو مسلمان ہیں، زعفرانی فکر اس درجہ میں فی الوقت کام کرنے لگی ہے کہ انسان کی جان وایمان دونوں خطرے میں ہے،بروقت علماء کرام اور دانشوران قوم وملت نے اس پر قذغن نہیں لگایا تو اس کے نتائج بھیانک رونما ہوسکتے ہیں۔اس وقت اس عنوان پر مضبوط تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔
عام طور پر لوگ جھاڑ پھونک کا سہارا لینے لگے ہیں،کسی کا کوئی سامان چوری ہوگیا تو تلاش سامان کی نہیں ہوتی ہے بلکہ اس شخص کو ڈھونڈا جاتا ہے جو چور کا نام و پتہ بتادے،انہیں” ٹھکوا "کہا جاتا ہے،اس کے چکر میں بھاری رقم خرچ ہوجاتی ہےمگرحاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ پہلے عرب میں اس قسم کے لوگ ہوتےجو سامان کا پتہ بتاتے،اہل عرب انہیں عراف کہتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کام سےمنع فرمایا ہے، کاہن وعراف کے پاس جانے والے سے اپنی برات کا اعلان بھی آپ صلی علیہ وسلم نے کردیا ہے۔فرمایا ؛ کہ جو کسی کاہن کے پاس جاکر اس کی باتوں کو سچ سمجھے وہ محمد پر جو اترا ہے اس سے انکار کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے؛جو کوئی کسی مال کا پتہ پوچھنے کے لیے کسی عراف کے پاس جائے گا اس کی اس کی چالیس دن کی نماز قبول نہیں ہوگی( مشکوة)
آج کوئی آدمی سنگین قسم کی بیماری مبتلا ہےاور وہ جلد رو بہ صحت نہیں ہوتا ہے تو کسی عامل کے تلاش شروع ہوجاتی ہےاور بآسانی وہ دستیاب بھی ہوجاتے ہیں، ہر آنے والے سے وہ یہی کہتا ہے کہ اس پرخطرناک قسم کا جادو ہے۔جھاڑ پھونک شروع ہوجاتی ہے،اور عجیب وغریب چیزوں کی خواہش وفرمائش کی جاتی ہے، یہاں صریح طور پر غیر خدا کا نام لیا جاتا ہے اور شرکیہ کلمات تک ادا کئے جاتے ہیں، خود بھی گمراہ ہوتے ہیں اور مسلم سماج کو گمرہی کے دہانے میں جھونک دیتے ہیں۔حدیث شریف میں ایک صحابی کا واقعہ موجود ہے انہوں نے ایک بیمار پاگل پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا، اور وہ ٹھیک ہوگیا، انہوں نے اکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے واقعہ عرض کیا، فرمایا کہ، میری عمر کی قسم ہر جھاڑ پھونک باطل ہےلیکن تم نےسچی جھاڑ پھونک سے روزی کھانی، حدیث شریف میں واضح انداز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرما دیا ہے کہ؛بے شک جھاڑ پھونک، گنڈے اور میاں بیوی کے چھڑانے کے تعویذ شرک ہیں، (ابوداؤد )