از قلم:محمد مشتاق احمد نوری
اردو کا ہندی میں ترجمہ اچھی بات ہے لیکن اردو الفاظ کا ترجمہ کئے بغیر ہو بہو لفظ لکھنا اردو کے رسم الخط کو بدلنے کے مترادف ہے۔ پرکاش پنڈت نے اردو شاعری کو ہندی قالب میں شاٸع کرنا شروع کیا تھا لیکن ان کی نیت صاف تھی اس لٸے کسی نے انگشت نماٸی نہیں کی۔
اب ریختہ والے بزنس کے ساتھ کچھ بدگمانی پیدا کررہے ہیں۔پہلے تو انہوں نے اردو کے فروغ کے نام پر ہر بڑے ادارے اور شخصیات سے اردو کی کتابیں حاصل کیں اردو کے فروغ کے نام پر یہ ہوتا رہا ہم یہ سوچ کر خوش ہوتے رہے کہ ایک غیر اردو داں اردو کے فروغ کے سلسلے میں کوشاں ہے لیکن اس بار جشن ریختہ اردو میں سارا کچھ ہندی میں نظر آیا تو لوگوں کا چوکنا ضروری تھا اردو کا چشن ہو اور بینر سے اردو ہی غاٸب ہو تو سوال تو اٹھینگے ہی لیکن حیرت اس بات کی ہے ہمارے اردو طبقہ سے دوطرح کی راٸے آنے لگی ہے۔ایک طبقہ ریختہ والوں کی نیت پہ شک کرنے لگا ہے اور چور دروازے سے اردو کے رسم الخط کے بدلنے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کررہا ہے ان کی نظر مستقبل پر ہے کہ دس بیس سالوں نٸی نسل کے لوگ دیوناگری میں اردو پڑھنے لگینگے کہ اردو والے غفلت کا شکار ہیں لیکن دوسرا طبقہ یہ کہ کر مطمٸن نظر آرہا ہے کہ چلو اسی بہانے اردو کی پہنچ غیر اردو داں طبقے تک ہوگی۔ان کی یہ بھی دلیل ہے ریختہ کی طرح کوٸی اردو داں آگے کیوں نہیں آتا۔
یہ معاملہ فیس بک پر بحث کرنے سے حل نہیں ہوگا بلکہ بہتر یہ ہے اردو کے بڑے قلم کار یونیورسیٹی کے استاد یک جٹ ہوکر سوچیں کہ اردو کی بھلاٸی کے لٸے کیا ضروری ہے۔
مرکزی سرکار نے اردو کو لازمی نصاب سے خارج کردیا ہے۔بہار سرکار نے بھی ہائی اسکول کے کورس سے اردو کو بہت شاطرانہ طریقے سے غایب کردیا ہے۔دس سال کے اندر ہاٸے اسکول سے اردو غایب ہوجاٸےگی۔کوٸی اردو ٹیچر بحال نہیں ہوگا کالج میں اردو کے بچے نہیں ملینگے پھر اردو لکچرر کی ضرورت نہیں ہوگی اور ادو پڑھنے والے بھی نہیں ملیں گے۔
آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ مدارس میں اردو ذریعٸہ تعلیم ضرور ہے لیکن اردو کو ایک سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا نہیں جاتا ۔وہاں کے بچے بھی بہت اچھی اردو نہیں جانتے۔
یہ مساٸل آج سر اٹھائے کھڑے ہیں اور ہم ڈرائننگ روم میں بیٹھ کر اردو اردو کھیلنے میں مصروف ہیں۔