زکوٰۃ کا نصاب اور سال کی تکمیل
✍️ مفتی محمد زاہد ناصری القاسمی
_______________
مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
” فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ … فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ، فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ.”
(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر : 1573)
ترجمہ : اگر آپ کے پاس دوسو درہم ہوں اور ان پر سال گذر جائے تو بطورِ زکوٰۃ پانچ درہم واجب الادا ہوں گے … سونا جب بیس دینار ہوں اور ان پر سال گذر جائے تو آدھا دینار واجب ہوگا؛ لیکن اگر سونا اور چاندی مذکورہ مقدار سے زیادہ ہوں تو اسی (ڈھائی فیصد کے) حساب سے (جملہ مقدار پر) زکوٰۃ واجب ہوگی۔
نوٹ : (١) دوسو درہم، قدیم وزن (فی تولہ گیارہ گرام، چھ سو چونسٹھ ملی گرام) کے حساب سے ساڑھے باون تولہ اور موجودہ وزن (فی تولہ دس گرام) کے حساب سے اکسٹھ تولہ، دوگرام، تین سو ساٹھ ملی گرام، یعنی چھ سو بارہ گرام، تین سو ساٹھ ملی گرام کے مساوی ہیں۔
نوٹ : (٢) بیس دینار، قدیم وزن (فی تولہ گیارہ گرام، چھ سو چونسٹھ ملی گرام) کے حساب سے ساڑھے سات تولہ اور موجودہ وزن (فی تولہ دس گرام) کے حساب سے آٹھ تولہ، سات گرام، چار سو اسی ملی گرام، یعنی ستاسی گرام، چار سو اسی ملی گرام کے برابر ہیں۔
(تلخیص از : ایضاح المسائل : ١٠٢-١٠٤، تالیف: مفتی شبیراحمدقاسمی مدظلہ)
نوٹ : آج 5/اپریل 2024ء کو ہندوستان میں ستاسی گرام چار سو اسی ملی گرام سونے کی مجموعی قیمت تقریباً چھ لاکھ، دس ہزار، پانچ سو، تئیس (6,10,523) روپے ہے، جب کہ چھ سو بارہ گرام تین سو ساٹھ ملی گرام چاندی کی مجموعی قیمت تقریباً اڑتالیس ہزار، چھ سو تراسی (48,683) روپے ہے۔
لہذا اگر کسی کے پاس ساڑھے سات تولہ، مساوی ستاسی گرام چار سو اسی ملی گرام سونا، یا ساڑھے باون تولہ، مساوی چھ سو بارہ گرام تین سو ساٹھ ملی گرام چاندی ہو، تو بہر صورت حولان حول، یعنی سال کی تکمیل کے بعد ان میں ڈھائی فیصد زکوٰۃ کی ادائیگی ضروری ہوگی۔
فقہاء کرام نے نقدی رقوم اور مال تجارت کو چاندی کے نصاب کے ساتھ جوڑا ہے، اسی طرح نصاب سے کم کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو، یا ان میں سے کسی کے ساتھ کچھ نقدی، یا کچھ سامان تجارت ہو اور ان کی مجموعی قیمت چاندی کے نصاب کو پہنچ جائے تو ان میں بھی حولان حول کے بعد ڈھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا ہے؛ کیونکہ یہ صورت "انفع للفقراء” ہے، یعنی ضرورت مندوں کا اس میں زیادہ فائدہ ہے۔ (تلخیص از : حوالہ سابق)
مذکورہ بالا حدیث شریف سے یہ بات بھی سمجھ میں آرہی ہے کہ تمام مسلمانوں کے لیے اپنے مال کی آمد و خرچ اور بچت کاحساب چاند کی تاریخ کے اعتبار سے محفوظ رکھنا ضروری ہے؛ تاکہ زکوٰۃ کا حساب آسان اور اس کی ادائیگی بلاشبہ ممکن ہوسکے؛ کیونکہ دن بدن سونے اور چاندی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ ہوتا رہتا ہے، جولوگ اس کاخیال رکھتے آئے ہیں، وہ قابل تحسین ہیں؛ البتہ جنھوں نے اب تک اس کا خیال نہیں رکھا ہے، وہ اب کوئی تاریخ مقرر کرلیں اور آئیندہ ہر سال اسی تاریخ میں زکوٰۃ کا حساب کرلیا کریں !