یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے!

یہ بیماری نہیں عذاب الہی ہے!

✍️ہمایوں اقبال ندوی، ارریہ

جنرل سکریٹری، تنظیم أبناء ندوہ پورنیہ کمشنری

________________

سی این این یہ امریکی نشریاتی ادارہ ہے،اس کی ایک رپورٹ جسے ملک کے اکثر اخبارات میں جگہ ملی ہے کہ صہیونی فوجیوں کو ایک مرض کا سامنا ہوگیاہےجس کا نام پی ٹی ایس ڈی یعنی پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر ہے۔یہ بیماری تیزی سے فوجیوں میں پھیلتی جارہی ہے اور وبا کی شکل اختیار کر گئی ہے، تقریبا ایک تہائی اسرائیلی فوجی اس کے شکار ہوچکےہیں۔اس بیماری سے متاثرہ فوجی کی حالت پاگل جیسی ہوجاتی ہے،وہ عجیب وغریب حرکتیں کرنے لگتا ہے، بالآخر اپنی جان خود آپنے ہاتھوں ختم کردیتا ہے،فوجیوں کی خودکشی کے بیشمار واقعات رونما ہورہے ہیں۔
ایک صہیونی فوجی کا عبرتناک واقعہ بھی رپورٹ میں مذکور ہے۔ہیلیران مز رہی نامی ایک صہیونی فوجی جو چار بچوں کا باپ تھا،پچھلے سال اکتوبر کے مہینے میں اسےغزہ بھیجا گیا ، وہاں جاکر فلسطینی خواتین اور بچوں کے قتل عام کامرتکب ہوا،جب اسرائیل واپس آیا تو دوبارہ غزہ جانے کی ہمت نہ کرسکا، صہیونی حکومت نے اسے مجبور کیا تو انہوں نے خودکشی کر لی۔اس کی ماں جینی مزرہی کا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ ہیلیران کااحساس جرم ہےجو اس نے غزہ میں انجام دیا ہے،وہ غزہ سے تو نکل آیا تھا مگر غزہ اس کے دل ودماغ سے نہیں نکل سکا،اسی احساس نے اسے اپنی موت کو گلے لگانے پر مجبور کیا۔
اس سے یہ بات صاف ہوگئی ہے کہ احساس جرم نے صہیونی ظالموں کو گھیرنا شروع کر دیا ہے،یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے۔ اس سے یہ بیماری کا مسئلہ بھی حل ہوجاتا ہے کہ دراصل یہ بیماری کیا ہے؟اور کیوں صہیونی فوجیوں کو ہی یہ لاحق ہوری ہے؟ صہیونی فوجی جنکے ہاتھ نہتے فلسطینی عوام کے خون سے رنگے ہوئےہیں وہی لوگ بالخصوص اس بیماری میں مبتلا ہورہے ہیں۔
فلسطینی بچوں اور خواتین کو مارنے والے صہیونی فوجی ہی ڈپریشن اور مختلف قسم کی ذہنی بیماری کا شکار ہورہے ہیں،پی ٹی ایس ڈی دراصل ذہنی مرض نہیں بلکہ یہ بیماری دراصل عذاب الہی ہے، یہ صرف ذہنی بیماری نہیں ہے بلکہ صہیونی فوجیوں کے لئے ایک ذہنی عذاب ہے جسمیں یہ مبتلا ہورہے ہیں۔
نہتے فلسطینی بزرگوں، بچوں اور خواتین کو نشانہ بنانے والےاب خدائی عذاب کا نشانہ بن رہے ہیں، نفسیاتی مریض بن کرخود کشی کے ذریعہ اپنے عبرتناک انجام کو پہونچ رہے ہیں۔اہل غزہ پر پچھلے ایک سال سے جو مظالم انہوں نے ڈھائے ہیں اسی کے پاداش میں درحقیقت یہ خدا ئی پکڑ ہے۔ظلم کو خدا برداشت نہیں کرتا ہے، اس کی سزا اس دنیا ہی میں دیتا ہے،خدا کب کس طرح ظالم کو اس کے ظلم کی سزا دیتا ہے؟اس کا احساس بھی ایک انسان کو نہیں ہوتا ہے مگر دنیا کے لئے یہ عبرت کی چیز ہوتی ہے ۔اس وقت لوگ مسلم دشمنی میں اسرائیل کی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ دیکھو اسرائیل کس طرح مسلمانوں کو سبق سکھا رہا ہے، موجودہ وقت میں ایسے لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی ضرورت ہے کہ یہ دیکھو خدا اس کے کرتوت کی سزا کس طرح دے رہا ہے، قران کریم کے سورہ الفجر میں اللہ رب العزت نے قوم عاد اورفرعون کی مثال پیش کی ہے کہ طاقت وقوت میں یہ بہت فائق تھے، ایسی طاقتور قوم آج تک پیدا نہیں ہوسکی ہے، یہ جب ظلم مچانے لگے تو خدا نے اس دنیا ہی میں عذاب کا کوڑا ان پر برسادیا، تاقیامت یہ نشان عبرت بن گئے، اسرائیل کی ان اقوام کے سامنے کیا حیثیت اور حقیقت ہے،تھوڑی سی تعداد میں یہ لوگ امریکی بیساکھی کے سہارے جیتے ہیں، ان کا خاتمہ قریب ہے۔وہ اس لئے کہ یہ ظالم ہیں،خدا ظالم کو پسند نہیں کرتا ہے، اور ظالم کی ہلاکت یقینی اور حتمی ہے،قرآن میں ارشاد ربانی ہے؛”ہم ضرور ظالموں کو ہلاک کریں گے”( سورہ ابراہیم )
ظالم صہیونی کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے ہیں،یہ بات بھی قرآن کریم میں لکھی ہےکہ ظالم پر خدا کی لعنت ہوتی ہے، اس کی نحوست کی بناپر وہ مال واسباب اور بے پناہ قوت وطاقت رکھنے کے باوجود کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے، سورہ انعام میں خدائی فرمان ہے؛”ظالم کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکتا ہے، (سورہ انعام ) اس قرآنی پیش گوئی سے یہ بات واضح ہے کہ اسرائیل حماس سےجنگ حقیقی معنوں میں جیت نہیں سکتا ہے۔اس تعلق سےابھی گزشتہ کل ایک تازہ بیان فلسطینی قومی تحریک کے قائد مصطفی برغوثی کا بھی آگیا ہےکہ ہم اس تکلیف دہ صورتحال کے خاتمہ کے بہت قریب ہیں ،اور مجھے راکھ کے ڈھیر سے امید کی کرن نظر آرہی ہے۔
مضمون کے اختتام میں اس بات کا ذکر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے مسلم بھائی بھی اس بات کا شکوہ کرتے ہیں کہ ہماری دعائیں قبول نہیں ہورہی ہیں، یہ بات شرعی طور پر کہنا درست نہیں ہے، دعا قبولیت ہی کا نام ہے، ظالم صہیونی فوجیوں کی یہ درگت درحقیقت دعاؤں اور معصوم بچوں، بچیوں کی آہوں کا ہی نتیجہ ہے۔بلکہ ہماری ہر دعا میں معصوم بچوں کی بھی شرکت ہونی چاہئے، جب آسمان سے باران رحمت نازل نہیں ہورہی ہو تو شریعت اسلامیہ نے ہمیں اس کی تعلیم دی ہے کہ اپنے بچوں اور بےزبان مخلوق کو لیکر کھلے میدان میں نماز ودعا کا اھتمام کیا جائے، مویشی کو ان کے بچوں سے الگ کرلیا جائے، ایسے میں ایک سماں پیدا ہوتا ہے اور خدا کو ان معصوموں پر بڑا رحم آتا ہے ، آسمان سے باران رحمت کے فیصلے نازل ہوتے ہیں۔یہی کیفیت اس وقت غزہ میں پیدا ہوگئی ہے۔والدین جام شہادت نوش فرماکر دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں، معصوم بچے خدا سے فریاد کناں ہیں اور رحمت کے طلبگار ہیں، مذکورہ واقعات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ ان کی دعائیں قبولیت سے ہمکنار ہوچکی ہیں، اور رب لم یزل ولایزال کو ان پر بڑا پیار آگیا ہے، صہیونی درندوں کی الٹی گنتی شروع ہوگئی اور یہ اپنےدردناک انجام کو پہونچنے لگے ہیں۔

ملتی ہے خموشی سےظالم کوسزا یارو
اللہ کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔