مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار بحال
✍️ معصوم مرادآبادی
_______________________
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی سے متعلق سپریم کورٹ کے تازہ فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر ہے۔ یونیورسٹی میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی ہیں اورعلیگ برادری کے ساتھ عام مسلمانوں نے بھی اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ حالانکہ کچھ لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی ادارہ ہونے کی تصدیق کرنے کے لیے تین رکنی ریگولر بنچ کی تشکیل سے تذبذب کا شکار ہیں، لیکن حالیہ فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے 1967 میں دئیے گئے اپنے ہی اس فیصلے کو رد کردیا ہے جس میں مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم کرنے سے انکار کیا گیاتھا۔ حالانکہ 1981میں آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی نے یونیورسٹی برادری کی طویل تحریک کے دباؤ میں عدالتی فیصلے کے اثرات زائل کرنے کے لیے قانونی ترمیم کا سہارا لیا تھا، لیکن تصویر پوری طرح صاف نہیں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ2005میں الہ آباد ہائی کورٹ نے ایک بار پھر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر سوال اٹھایا اور 1967کے فیصلے کو بنیادبناکر اقلیتی کردار کو ہی ختم کردیا، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا، جہاں طویل سماعت کے بعداب یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کے حق میں فیصلہ صادر کرکے صورتحال بڑی حدتک واضح کردی گئی ہے۔
عدالت نے اصولی طورپر یہ تسلیم کرلیا ہے کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اقلیتی ادارہ ہے، کیونکہ اس کی تعمیر وتشکیل میں مسلمانوں کا ہاتھ تھا۔1967 میں سپریم کورٹ نے اس بنیاد پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا اقلیتی کردار ختم کیا تھاکہ اس ادارے کو 1920میں ایک مرکزی قانون (اے ایم یو ایکٹ)کے تحت تشکیل دیا گیا تھا اور ایسا کرتے وقت اس کی اقلیتی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔ اس پر عدالت عظمیٰ کا کہنا ہے کہ کسی بھی ادارے کا اقلیتی کردار محض اس بنیادپر ختم نہیں کیا جاسکتاکہ اسے ایک قانون کے تحت قایم کیا گیا ہے۔اگر جانچ میں یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسلم یونیورسٹی مسلمانوں نے قایم کی تھی تو دستور کی دفعہ30 کے تحت اسے اقلیتی درجہ مل سکتا ہے۔ دراصل بات کو یہیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ فیصلہ صادر کرنے والی دستوری بنچ نے تین ججوں کی ریگولر بنچ کو یہی کام سونپا ہے کہ وہ اس بات کا پتہ لگائے کہ یونیورسٹی کاقیام کن لوگوں نے اور کس مقصد سے کیا تھا۔ ظاہرہے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پاس یہ ثابت کرنے کے لیے کافی سے زیادہ ثبوت ہیں کہ یہ یونیورسٹی سرسید احمد خاں اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں میں جدید تعلیم کو عام کرنے کے لیے قایم کی تھی، اس لیے قانون کی رو سے یہ اقلیتی درجہ حاصل کرنے کی سب سے زیادہ حقدار ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر رخصت پذیر چیف جسٹس نے اپنا فیصلہ اپنی مدت کار کے آخری دن سنایا ہے۔ ان کی سربراہی والی سات رکنی بنچ کے چارججوں نے اقلیتی کردار کے حق میں فیصلہ دیا جبکہ تین ججوں نے اس معاملے میں اختلافی نوٹ لکھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کی بحالی کا یہ فیصلہ اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ موجودہ حکومت نے عدالت میں اقلیتی کردار کے خلاف حلف نامہ داخل کیا تھا۔ اسی لیے اس بات کا خدشہ تھا کہ جب حکومت ہی اقلیتی کردار کی حامی نہیں ہے تو عدالت کیونکر اس کے حق میں فیصلہ دے گی۔ یہی وجہ ہے کہ علیگ برادری کو اس معاملے میں تشویش لاحق تھی، مگر اب جبکہ عدالت نے اقلیتی کردار کے حق میں فیصلہ صادر کردیا ہے تو خوشیاں منا ئی جارہی ہیں۔یہاں اس بات کا اعتراف کرنا ہوگا کہ پچھلے سالوں میں جبکہ سپریم کورٹ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار پر بحث ہوئی تو ممتاز وکیل راجیو دھون نے یونیورسٹی برادری کی طرف سے اس معاملے کی بلا معاوضہ پیروی کی اور اس پر دن ورات محنت کی۔اس کے علاوہ کپل سبل نے بھی اس میں اہم کردار اداکیا۔
سبھی جانتے ہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کا مسئلہ ان سنگین مسائل میں سے ایک ہے جنھیں حل کرنے میں آزادی کے بعد ہندوستانی مسلمانوں کی سب سے زیادہ توانائی خرچ ہوئی ہے۔ اسی لیے اس مسئلہ سے انھیں ایک جذباتی لگاؤ ہے۔ سپریم کورٹ نے 1967 میں جب عزیز باشا کے مقدمہ میں اپنا فیصلہ سناتے ہوئے مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو ختم کیا تھا تو اس فیصلے کے خلاف ایک بڑی عوامی تحریک شروع ہوئی تھی۔ اس تحریک میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی طلباء برادری کے علاوہ بڑی تعداد میں اساتذہ اور بہی خواہان ملت شامل تھے۔ اسی تحریک کا نتیجہ میں ہی 1981 میں پارلیمنٹ کے ذریعہ اے ایم یو ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی کردار کو بحال کیا گیا۔ یونیورسٹی برادری نے اس پر خوشیان منائیں اور یہ سمجھا کہ معاملہ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگیا ہے۔ لیکن 2006 میں جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے میڈیکل کالج میں داخلوں کے اختیار کو الہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا توایک نئی صورتحال نے جنم لیا۔ہائی کورٹ نے اے ایم یو ایکٹ میں پارلیمنٹ کی طرف سے کی گئی ترمیم کو غیر آئینی قراردیتے ہوئے کہا کہ مسلم یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ اس کی اقلیتی حیثیت 1967میں سپریم کورٹ کی طرف سے ختم کی جاچکی ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کی اس رولنگ کے بعد معاملہ پھر 1967 والی پوزیشن میں آگیا۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کو یونیورسٹی اور اس کے بہی خواہوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 2019میں یہ معاملہ سپریم کورٹ کے تین ججوں کی بنچ کے روبرو آیا اور وہاں سے اسے سات ججوں کی دستوری بنچ کے حوالے کردیا گیا۔ سپریم کورٹ کے سات ججوں کی بنچ نے اکثریت سے اپنے1967 میں دئیے گئے فیصلے کو پلٹ دیا۔ اب عدالت نے طے کیا ہے کہ مسلم یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کا تعین اس بات پر مبنی ہونا چاہئے کہ کیا اس کا قیام مسلمانوں نے کیا تھا۔یہی جاننے کے لیے سپریم کورٹ نے اس معاملے کو ایک نئی بنچ کے حوالے کیاہے، جس کی تشکیل نئے چیف جسٹس کریں گے۔ یہی وہ پہلو ہے جس پر لوگوں کی تشویش ابھی باقی ہے۔ دراصل سپریم کورٹ کے فیصلے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس نے 1967کے اپنے ہی اس فیصلے کو رد کیا ہے جس میں یونیورسٹی کو اقلیتی ادارہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا اور اب تین رکنی بنچ اس بات کا تعین کرے گی کہ ادارہ کس نے قایم کیا تھا اور اس کے پیچھے کیا سوچ کارفرما تھی۔
اس فیصلے کا اہم پہلو یہ ہے کہ اسے غیرجانبدار قومی ذرائع ابلاغ نے اس اعتبار سے ایک مثبت فیصلہ قرار دیا ہے کہ اس معاملے میں عدالت نے جو رہنما اصول طے کئے ہیں، وہ مستقبل میں دیگر اقلیتی اداروں پر بھی نافذ ہوسکتے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوگا کہ کون سے تعلیمی ادارے اقلیتی ادارے ہونے کا دعویٰ کرسکتے ہیں اور انھیں کن شرائط کی پابندی کرنی ہوگی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی واضح کیا ہے کہ دفعہ 30(1)سے حاصل حقوق یونیورسٹی پر بھی نافذ ہوتے ہیں۔دراصل اقلیتی ادارے کا درجہ حاصل کرنے کے لیے یہ ثابت کرنا ضروری ہے کہ ادارے کے قیام اور مقاصد کے پس پشت اقلیتی فرقہ کی کیا قربانیاں ہیں۔یہ بھی ضروری ہے کہ فرقہ نے اپنے فائدے کے لیے اسے قایم کیا ہو۔ ظاہر ہے اس معاملے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے زیادہ روشن مثال اور کس ادارے کی ہوسکتی ہے جو مسلمانوں کی انتھک جدوجہد اور مسلسل کوششوں کا ثمرہ ہے۔ سرسید احمد خاں نے اس یونیورسٹی کو قایم کرتے وقت قوم کی ترقی اور خوشحالی کا جو حسین خواب دیکھا تھا وہ بڑی حدتک تعبیر ہوا ہے۔